قمار بازی زوروں پر تھی۔ ایک طرف گائوں کا وہ شخص جس کی ذات برادری ،لطیفوں ،طعنوں اور ضرب الامثال کا باعث بنتی ہے، مثلاً یہ لطیفہ کہ چارپائی پر گائوں کا چودھری لیٹا ہوا تھا۔ نوکر اس کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ سامنے سے ایک میراثی گزرا۔ چودھری نے ٹانگیں دباتے نوکر کو حکم دیا کہ میراثی پر بھونکو۔ نوکر بھونکا تو میراثی نے کہا کہ مجھ پر کیوں بھونک رہے ہو، جو مردہ تمہارے سامنے چارپائی پر پڑا ہے، پہلے اسے تو کھالو۔قمار بازی ہورہی تھی۔ میراثی مسلسل ہار رہا تھا۔ پیسے ، غلہ ، مال مویشی، زمین سب دائو پر لگا دیے اور سب کچھ ہار گیا۔ آخر میں بیوی کو دائو پر لگادیا ۔بیوی نے سنا تو کہا ’’ بے غیرت ! ہار گئے تو یہ جیتنے والے مجھے لے جائیں گے‘‘۔ میراثی ہنسا۔ ’’میں ہارمانوں گا تو تب تمہیں لے جائیں گے! میں تو ہار مانوں گا ہی نہیں !‘‘۔
یہی کچھ ملتان کے ضمنی الیکشن کے بعد ہورہا ہے۔ پہلے تو یہ پیش گوئیاں تھیں کہ تاریخ کا اور کرۂ ارض کا سب سے عظیم باغی ہار ہی نہیں سکتا۔ باغی ہار گیا تو اب ایسی ایسی دلیلیں دی جارہی ہیں اور ایسے ایسے نادر نکتے نکالے جارہے ہیں کہ ہنسی تک نہیں آتی۔ ایک صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ اگر اپنی خالی نشست جیت لینا انقلاب ہے تو پاکستان تبدیل ہوگیا ہے،ورنہ یہ ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ مسلم لیگ نون کا ہیڈ کوارٹر جو لاہور میں ہے، شکست کے اسباب جمع کررہا ہے اور وہ بھی سپیشل برانچ کی رپورٹوں کی بنیاد پر !! ’’ اسباب‘‘ جو عمیق تحقیق کے بعد برآمد ہوئے ہیں، دیکھتے جائیے اور آفرین آفرین کے ڈونگرے برساتے جائیے۔ مثلاً یہ کہ ن لیگ ملتان کے ذمہ داران نے ہاشمی صاحب کے ساتھ منافقت کی۔ یہ کہ اس شکست میں نون لیگ کی مقامی قیادت کا عمل دخل ہے۔ یہ کہ نون لیگ کے صوبائی وزیر نے لیگ کے ووٹروں کو تیار کیا ،نہ ناراض ووٹروں کو منانے کا کام کیا۔ یہ کہ پولنگ کے دن ن لیگ کے جو ووٹرز باہر نہیں نکلے وہ ایک سابق وزیر کا قصور ہے۔ یہ کہ ایک سابق ایم این اے جو اسی حلقہ سے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں الیکشن لڑتے تھے، بظاہر ساتھ تھے لیکن منافقت سرزد کی۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر جو کچھ سامنے آیا، اس کی بنا پر نون لیگ کی قیادت ملتان کے ارکان اسمبلی اور صوبائی وزیر سے سخت ناراض ہے اور یہ کہ اب ملتان میں تبدیلیاں کی جائیں گی!
صدر جنرل ضیاء الحق ایک بار ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کررہے تھے تو غریبوں ،مسکینوں،یتیموں اور فاقہ کشوں کا ذکر کرتے ہوئے روہانسے ہوگئے۔ لیکن کچھ حقائق کا ذکر کرنا یا سننا ان کے عہد میں ناممکن تھا۔ حرم کعبہ میں نوے دن کا وعدہ کیا۔ منتخب حکومت کو موت کے گھاٹ اتارا‘ پھر بھی یہ طے تھا کہ ان کی حکومت جائز ہے اور اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ یہی حال جاوید ہاشمی کی شکست پر تبصرے کرنے والوں کا ہے۔ یہ طے ہے کہ سٹیٹس کو پر بات نہیں ہوسکتی۔ نون لیگ کی خاندانی اجارہ داریوں پر بات نہیں ہوسکتی۔ جو دولت ملک سے باہر پڑی ہے، اس کا ذکر نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس چوری اور ٹیکس چوروں کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے لوگوں کو سٹیٹس کو سے برگشتہ کردیا ہے۔ عمران خان نے تو گلے سڑے متعفن نظام سے فائدہ اٹھایا۔ کوئی اور آتا تب بھی یہی ہوناتھا۔ لیکن اس پر یہ تبصرہ نگار بات نہیں کرتے۔ گمشدہ سوئی کو سڑک پر تلاش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ سڑک کے کنارے کھمبا نصب ہے جس پر کمیٹی کا بلب جل رہا ہے اور سڑک پر ہلکی ہلکی روشنی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے لیکن کہتے ہیں کہ کمرے میں اندھیرا ہے!
تاریخ کی عجیب و غریب ستم ظریفی ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت کی حمایت ثقہ صحافیوں کا وہی گروہ کررہا ہے جو دس سال جنرل ضیاء الحق کا دست راست رہا۔ بہت سے کام جنرل صاحب نے انہی ثقہ صحافیوں کے مشورے سے کیے۔ ان رازوں سے پردہ خود ان صحافیوں نے اٹھایا ہے جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ! ان حضرات کی صحافت کی پوری تاریخ کھنگال لیجیے، مجال ہے جو نظریات کی جھلک بھی ملے ! صرف اور صرف شخصیات کے تذکرے ہیں! ان واجب الاحترام بزرگوں کے نزدیک زرعی اصلاحات، نظام تعلیم، ٹیکس کا سسٹم، بے روزگاری کی شرح، طبقاتی تقسیم اور اس قبیل کے معاملات، جن کی وجہ سے آج یہ ملک صومالیہ اور عراق کی صف میں کھڑا ہے۔ کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کا سارا مبلغ علم یہ ہے اور زور قلم ان باتوں پر خرچ ہوتا ہے کہ فلاں شخص وزیر کیوں نہیں بنا، اسے کیسے بنوانا ہے۔ فلاں کے گروہ میں کون ہے اور کون تھا۔ شخصیات کی پوری پوری سوانح ہائے حیات حفظ ہیں لیکن ملک کے مسائل کیا ہیں اور معاشرہ ابتری کا شکار کیوں ہے، اس کا ادراک ہے‘ نہ دماغ!
عامر ڈوگر کو آج بھی کوئی نہیں جانتا! یہ فتح عامر ڈوگر کی نہیں ! یہ شکست جاوید ہاشمی کی بھی نہیں! جب جاوید ہاشمی ایک سے زیادہ نشستوں سے جیتے تھے ، اس وقت بھی فتح جاوید ہاشمی کی نہیں تھی! اللہ کے بندو! تم اس حقیقت پر غور کیوں نہیں کرتے کہ لوگوں کے دل سلگ رہے ہیں ، آنکھوں میں چنگاریاں بھری ہیں۔ آج اگر جھاڑو دینے والا، ریڑھی کھینچنے والا، برتن مانجھنے والا اور فوٹو کاپی کا کھوکھا چلانے والا اعدادو شمار بتاتا پھر رہا ہے کہ فلاں نے اتنا ٹیکس دیا اور فلاں کے اتنے رشتہ دار اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں تو شیش محلوں میں بیٹھے ہوئے مراعات یافتہ تبصرہ نگار اس تبدیلی کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟ جس مڈل کلاس کی یہ اپر کلاس صحافی تضحیک کرتے رہے ہیں،جنہیں تحقیر آمیز القابات سے نوازتے رہے ہیں، وہ مڈل کلاس باہر نکل آئی ہے۔ یہ اسے دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ یہ کالم نگار ایسے بیسیوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب کو جانتا ہے جو تیس سال سے الیکشن کے دن گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اس لیے کہ چپڑے ہوئے بالوں ، تنی ہوئی مونچھوں، کھڑ کھڑاتے کلف زدہ لباسوں اور پہریداروں میں گھری لینڈ کروزروں سے انہیں نفرت ہے… شدید نفرت…لیکن تحریک انصاف کے لیے یہ لوگ تین عشروں میں پہلی بار گھروں سے نکلے اور قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ اس تبدیلی کے اسباب پر یہ لکھاری کیوں نہیں روشنی ڈالتے؟
سچی بات یہ ہے کہ لکھاریوں کے اس گروہ سے شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ یہ لوئر کلاس سے نکلے۔ درباروں سے وابستہ ہوئے۔ طویل ’’ جدوجہد‘‘ کی۔ آج یہ لوگ ارب پتی ہیں۔ سرکاری دورے ان کے لیے اور ان کے وابستگان کے لیے ہر وقت حاضر ہیں۔ جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر اصحاب اقتدار کے پہلوئوں پر نشستیں سنبھالتے ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ نظریات پر لکھیں۔ اصلاحات کی بات کریں۔ زراعت، صنعت ،روزگار اور معیشت کی بھول بھلیوں میں پڑیں۔ اپنی معیشت کا پھول کھل اٹھا ہے۔ یہ کیا کم ہے!
پس نوشت۔ خاندانی ارب پتی جناب سید خورشید شاہ نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ عمران خان کو غریبوں سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ ناچ گانے میں دلچسپی رکھنے والے بڑے گھرانوں کے بچے ہیں ! بالکل درست فرمایا ہے سید صاحب نے ! دبئی کے محل کی اور نیو یارک کے پینٹ ہائوس کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھی جارہی ہیں۔ یہ سب غریبوں کے ساتھ دلچسپی کے مظاہر ہیں۔ رہی بات ناچ گانے کی تو الحمدللہ پیپلزپارٹی کے جلسوں میں پہلے ڈاکٹر اسرار احمد خطاب فرمایا کرتے تھے‘آج کل مولانا طارق جمیل اور ڈاکٹر ذاکر نائیک موسیقی کے نقصانات پر خطبات دے رہے ہیں۔ ناچ گانے کا پیپلزپارٹی سے کیا تعلق !!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔