یونیورسٹی کی چھٹیوں کے دوران میں کچھ عرصہ کام کیا کرتا تھا تاکہ اپنی فیس ادا کرسکوں۔ ایک مرتبہ مجھے مشرقی ٹرائزوال میں آٹے کے گودام میں ملازمت ملی۔ جو جوہنسبرگ سے دوسو میل دور میرے والد کے کھیتوں سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ مجھے دو مہینوں کے لیے ملی تھی۔ 30 پونڈ ماہانہ۔ میرا کام تیس سیاہ فام مقامی مزدوروں پر نگاہ رکھنا تھا۔ میں وہاں کا فورمین تھا۔ تقریباً سب مزدور عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ ان کا کام ریل گاڑیوں سے آٹے کی بوریوں کو خالی کرنا تھا۔ انہیں گودام میں بھرنا اور بعد میں لاریوں میں منتقل کرنا تھا۔
جب میں نے کام شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ایک سیاہ فام فورمین پہلے سے کام کررہا تھا جو تجربہ کار بھی تھا اور مزدوروں میں مقبول بھی۔ اس کی تنخواہ مجھ سے آدھی تھی۔ عمر تقریباً 40 برس ہوگی۔ سب لوگ اسے جون کہتے تھے۔ معمولی تعلیم یافتہ لوگوں کو اس علاقے میں لوگ جون کہہ کر پکارتے تھے جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے اس سے دوگنی تنخواہ ملے گی۔ تو مجھے اچھ نہ لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا کام باقاعدگی سے پہلے کی طرح کرتا رہے میں اس کے کام میں مخل نہیں ہوں گا مزدوروں کے ساتھ کام کروں گا اور اس کی اطلاع سفید فام مالک کو بھی نہ دوں گا۔ اگرچہ مجھے اخلاقی بددیانتی کا احساس ہورہا تھا کہ کام تو مزدوروں کا کروں لیکن تنخواہ فورمین کی لوں لیکن مجھے ساٹھ پونڈ کی اشد ضرورت تھی۔ جون کو اس بات پر اعتراض نہ تھا کہ مجھے اس سے دوگنی تنخواہ مل رہی تھی۔ اسے یہ بات البتہ ناگوار گزری تھی کہ جب وہ کام تسلی بخش کررہا تھا تو کسی کو اس پر نگاہ رکھنے پر کیوں مامور کیا گیا تھا۔ اسے اس بات پر اعتراض نہیں تھا کہ مجھے سفید رنگ کی وجہ سے اس سے دوگنی تنخواہ مل رہی تھی، وہ ان حالات کو تسلیم کرچکا تھا۔
اس طرح میں آٹے کی بوریاں اٹھانے والا مزدور بن گیا۔ کام مشکل تھا۔ ہر بوری تقریباً 180 پونڈ کی تھی اور اسے 30 گز لے کر جانا تھا۔ ان بوریوں کو اٹھانا بھاری بوجھ اٹھانے کی طرح ایک خاص طریقے اور تیکنیک کا متقاضی تھا، کمر جھکا کر، گردن کو اکڑا کر ایک مخصوص زاوئیے سے کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ جب دو آدمی ایک جھٹکے کے ساتھ بوری کو مزدور کے سر پر رکھ دیتے تھے بوری کے سر ٹکتے ہی بھاگنا پڑتا تھا اور پھر منزل پر پہنچ کر ایک مخصوص انداز سے بوری کو زمین پر پھینکنا پڑتا تھا تاکہ وہ زمین پر ہموار گرے اگر غلطی سے کہیں کونہ زمین پر لگتا تو بوری کے پھٹنے کا خدشہ ہوتا۔ اگر وہ بوری پھٹ جاتی تو اس کی قیمت تنخواہ سے وصول کی جاتی جس کا اکثر مزدور متحمل نہ ہوتے۔
موسم بہت گرم تھا اور کام کافی سخت ۔ آٹا اتنا باریک تھا کہ وہ بوریوں میں سے نکل نکل پڑتا اور سر، گردن اور جسم پر گرتا ۔ اکثر مزدوروں کی آنکھیں اس دباؤ کی وجہ سے سرخ رہتیں اور یہ سرخی مزدوری کے سالوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی۔ ایک ڈاکٹر دوست کا کہنا تھا کہ اتنا مشکل کام صرف زندگی کے دس سال کرنا ہی ممکن ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہاں چند مزدور بیس برس سے یہ کام کررہے تھے۔
وہ مزدور جسمانی طور پر بہت طاقت ور تھے۔ میں نے ایک افریقی گروہ بش مین۔ کے ایک کوتاہ قد افریقی کو، جس کا قد بمشکل 5 فٹ اور وزن سو پونڈ تھا، دو بوریاں بیک وقت اٹھاتے دیکھا۔ وہیں پر ایک سوازی قبیلے کا پیٹر نامی باشندہ کام کرتا تھا جس کا قد 6 فٹ اور وزن 160 پونڈ تھا، وہ وہاں کا چمئین تھا۔ وہ تھا تو دبلا پتلا لیکن اس میں بلا کی توانائی اور پھرتی تھی۔ وہ تین بوریاں سر پر رکھ کر ناچتا ہوا منزل کی طرف بڑھ جاتا تھا اس کا کہنا تھا کہ وہ چار بوریاں بھی اٹھا سکتا ہے لیکن میں نے اسے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا۔ وہ اکثر اوقات ایک ہی بوری اٹھاتا، اٹھکیلیاں کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتا اور ایک سوازی زبان میں چیخ مار کر بوری زمین پر پھینک دیتا تھا۔
پیٹر اور وہ افریقی جسے ہم بش مین کہتے تھے قریبی دوست تھے۔ آہستہ آہستہ میں بھی ان کے قریب ہوگیا اتنا قریب جتنا جنوبی افریقہ میں ایک سفید فام کالے مزدوروں کے ہوسکتا تھا۔ بش مین مجھ سے قدرے کھنچے کھنچے رہتا لیکن پیٹر سے دوستی کی وجہ سے اس نے مجھے قبول کرلیا تھا۔ پیٹر کا کہنا تھا کہ وہ سوازی قبیلے کے ایک چھوٹے سردار کا بیٹا تھا اور پیسے بنانے کے لیے وہاں کام کرتا تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک امریکی کار کا مالک بن سکے۔ ایسی امریکی کار جس کی پچھلی سیٹ اتنی بڑی ہو کہ وہ اپنی محبوبہ سے ہم بستری کرسکے۔ اس کا خیال تھا کہ میری اسپورٹس کار کا مالک بننے کی خواہش دیوانہ پن تھی۔ سارے مزدور اس کی زندگی میں بہت دلچسپی لیتے تھے، ہر صبح وہ اپنے شام اور رات کے قصّے مزے لے لے کر سناتا اور وہ سب خوشی سے سنتے اور قہقہے لگاتے۔ وہ کہانیاں ان کی تفریح کا سامان تھیں پہلے تو میں ان کہانیوں کا انگریزی ترجمہ کرنے کا درخواست کرتا لیکن جب پیٹر کو اندازہ ہوا کہ مجھے بھی اس کی جنسی زندگی میں دلچسپی ہے تو وہ کہانیاں انگریزی میں سنانے لگا۔ سوائے ان حصوں کے جس میں عورت کے جسم کے مختلف حِصوں کی تفاسیل پیش کرتا۔
اس کی اکثر کہانیاں شاید من گھڑت تھیں کیونکہ اسے مجمع لگانے کا بڑا شوق تھا، ہر دفعہ جب میں ان چیخوں کی تفاصیل پوچھتا جو وہ بوری پھینکتے ہوئے لگاتا تو وہ مجھے ایک نئی کہانی سناتا۔ اس کی محبوب چیخ کی آواز "سلابا ہو سبحان" کی طرح ہوتی جس کا مطلب وہ "جنگلی گھوڑے کو مار ڈالو" بتاتا۔ اس نے مجھے ایک چیخ کے بارے میں تین کہانیاں سنائیں اور مجھے ان تینوں پر یقین آگیا۔ چونکہ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا اس لیے یا تو اس نے وہ کہانیاں اوروں سے سنی تھیں اور یا وہ اس کے اپنے زہن کی اختراع تھیں۔
اس کی چیخوں میں سے وہ چیخ سب سے جداگانہ اور عجیب تھی جس کا ترجمہ یا تو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا یا کر نہیں کرسکتا تھا۔ اس کو میں نے وہ چیخ صرف ایک دفعہ مارتے سنا تھا۔ یہ اس شام کی بات ہے جب ہم کو ایک پانچ ٹن کا وہ ٹرک بھرنا تھا جو گودام میں بہت دیر سے پہنچا تھا ایک طوفان آنے والا تھا اور اگر ہم وہ مال گاڑی خالی کرکے ٹرک نہ بھرتے تو اناج گیلا ہو کر ضائع ہوجاتا۔
ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ تھا ہم نے تندہی سے کام کرنا شروع کردیا ہمارے گورے مالک نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر ہم نے وہ کام ختم کردیا تو وہ ہرشخص کو دس شلنگ زیادہ دے گا اور ان لوگوں کے لیے جن کی ہفتے کی تنخواہ صرف پانچ شلنگ تھی، دس شلنگ کافی اہم رقم تھی۔ ہم نے پندرہ منٹ کی شفٹ مقرر کی۔ آدھے لوگ کام کرتے اور آدھے آرام۔ کیونکہ کام بہت سخت تھا۔ پیٹر واحد شخص تھا جس نے آرام کرنے سے انکار کردیا جب کہ باقی لوگ پسینے سے شرابور ہانپ رہے تھے۔ وہ متواتر کام کرتا رہا۔ وہ باقی کارکنوں سے دوگنا وزن اٹھاتا۔ وہ بیک وقت دو بوریاں لے کر بھاگتا۔ ہم سب اناج کی وجہ سے سفید نظر آرہے تھے اور ہماری جلدوں پر پسینے کی وجہ سے سیاہ لہریں نظر آرہی تھیں پیٹر کی جدوجہد ہمارے ہمت بندھا رہی تھی۔ ہم آہستہ آہستہ تھکنے لگے۔ ہمارے ہمت جواب دینے لگی دس شلنگ بھی غیر اہم دکھائی دینے لگے لیکن پیٹر کی ثابت قدمی قابلِ رشک تھی۔
چاروناچار ہم نے طوفان سے پہلے کام ختم کرلیا۔ ہمارا گورا مالک اور ہم سب خود بھی حیران تھے۔ ہمارا مالک کام ختم ہونے سے چند منٹ پہلے آپہنچا۔ اس وقت کام اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے آخری تین بوریاں پیٹر کے لیے چھوڑ دیں۔ دو مزدور نے یکے بعد دیگرے تینوں بوریاں اس کے سر پر رکھیں اس کے سر پر ایک دیوار سی کھڑی ہوگئی مجھے امید نہ تھی کہ وہ 540 پونڈ کا وزن ٹرک تک لے جاسکے گا وہ لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوا اور چلنے لگا پندرہ گز کے فاصلے پر وہ پھر لڑ کھڑایا۔ میں نے سوچا کہ وہ گرنے والا ہے اور اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن باقی سب مزدور اپنی جگہ پر کھڑے رہے وہ ایک نئی توانائی سے اُٹھا اور ناچتا ہوا اور ایک ہیبت ناک، جانوروں کی طرح چیخ مارتا ہوا منزل تک پہنچ گیا وہی چیخ جس کا وہ ترجمہ نہ کرسکا تھا۔ وہ بوریاں پھینک کر زمین پر گر پڑا۔ اور سب مزدور اس کےگرد جمع ہوگئے وہ اسے اٹھا کر چھت کے نیچے لے آئے ہم سب اس کی ہمت کی داد دے رہے تھے، جونہی ہم اسے اندر لائے طوفان شروع ہوگیا۔
پیٹر کو اپنی طبیعت بحال کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا تھا وہ جانتا تھا کہ اس نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور اسے اس پر فخر تھا جب اس کی طبیعت پوری طرح سنبھل گئی تو میں نے اس چیخ کا مطلب پوچھا۔
وہ کہنے لگا کہ وہ چیخ پشت در پشت سپاہی جنگ کے آخر میں مارا کرتے تھے وہ چیخ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ یا تو وہ جنگ ہار چکے اور یا دشمن بھاگ گئے چونکہ وہ چیخ صدیوں پرانی تھی اس لیے کسی کو اس کے صحیح معنی معلوم نہ تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ چیخ سب سے پہلے اس کے آباؤ اجداد کے ایک قبیلے نے استعمال کی تھی جو دوسرے قبیلے سے جان بچا کر بھاگ جانا چاہتا تھا۔ صرف پچاس سپاہی دشمنوں کو روکے ہوئے تھے۔ وہ جنگ دو دن جاری رہی تیسرے دن صرف ایک سپاہی بچا تھا۔ وہ غار سے نکل کر دشمن کے سامنے آیا اور جب اس نے تیر اور ڈھال دشمنوں کے سر پر فضا میں اچھالے تو اس وقت اس نے یہ چیخ ماری تھی۔ وہ چیخ اتنی لرزہ خیز تھی کہ اس کی ہیبت سے دونوں طرف کے پہاڑ اس سپاہی اور دشمن پر گر پڑے تھے۔
میرے لیےیہ ماننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ کہاوت درست تھی یا من گھڑت لیکن اس چیخ کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا تھا، جسے میں نے پیٹر سے سنا تھا مجھے اتنا پتہ تھا کہ سوازی قبیلہ اتنا پرانا نہیں تھا اور زولو جنگوں کے بعد وجود میں آیا تھا لیکن میں پیٹر سے یہ سوال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر یہ بات غیر اہم تھی کہ وہ کہانی درست تھی یا نہیں۔
چھٹیوں کے بعد جب میں یونیورسٹی چلا گیا تو پیٹر سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ جب میں اگلے سال آیا تو گودام کی سیر کرنے گیا۔ میری ملاقات جون اور بش مین سے ہوئی۔ پیٹر کہیں نظر نہ آیا۔ وہ کہنے لگے اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ ایک دن وہ کام پر شراب میں دھت آیا اور ایک دوسرے مزدور کی بیوی کو بھی چھیڑا تو سفید فام مالک نے اسے غصے میں آکر رخصت کردیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے میری ملاقات ایک ایسے افریقی ٹاؤن شپ میں ہوسکتی ہے جو ہمارے گھر سے چند میل دور تھا میں اپنے باپ کی کار لے کر پیٹر سے ملنے گیا۔ وہ ایک جھونپڑے سے نکل کر ملنے آیا اس کی حالت بہت ناگفتہ بہ تھی اس کے کپڑے میلے اور پھٹے ہوئے تھے اور پاؤں میں جوتے نہ تھے اس کے چہرے اور آنکھوں میں بھوک اور نقاہت کی وجہ سے زردی چھائی ہوئی تھی۔
چونکہ میرے پاس بھی پیسے زیادہ نہیں تھے اور میرے والد کے کھیتوں پر بھی کسی مزدور کی ضرورت نہ تھی میں پیٹر کی زیادہ مدد نہ کرسکا۔ میں نے اسے ایک پونڈ دیا اور اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا۔ میں اس کے لیے ایک خاکی قمیض جو مجھے کرسمس کے موقع پر تحفے میں ملی تھی ایک سرمئی سوٹ جو مجھےچھوٹا ہوگیا تھا، جوتے، نیکر اور موزے لے گیا وہ میرا بہت ممنون تھا اور مجھے خیرات دیتے ہوئے شرم آرہی تھی۔ میرا دل تو چاہتا تھا کہ اسے ملازمت دلوادوں لیکن چونکہ میں اس علاقے میں زیادہ لوگوں کو جانتا نہ تھا اور میرے باپ کا کاروبار مندا تھا میں اس خواہش پر عمل نہ کرسکا۔ میں نے پیٹر سے ان باتوں کا ذکر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کے پاس اچھے کپڑے نہ ہوں تو اسے ملازمت ملنا بھی بہت مشکل تھا۔ ان چھٹیوں کے دوران میں نے اسے کئی دفعہ سے دیکھا میں نے اسے جو کپڑے دیے تھے اس نے انہیں ملازمت حاصل کرنے کے لیے کم اور لڑکیوں سے میل ملاپ بڑھانے کے لیے زیادہ استعمال کیا تھا۔ ایک دن وہ کہنے لگا کہ اسے ایک ہوٹل میں ملازمت ملنے کی امید تھی وہ آخری فیصلے کا منتظر تھا۔ اسے کہیں سے کچھ رقم مل گئی تھی اس نے مجھے ایک پونڈ واپس کرنا چاہا لیکن میں نے انکار کردیا۔ اس واقعہ کے چند دن بعدن میں واپس یونیورسٹی چلا گیا۔
اس سے اگلے سال چھٹیوں میں گھر آیا تو دور دور پتہ نہ تھا میں اس کے ٹاؤن شپ بھی گیا لیکن ملاقات نہ ہوسکی۔ میں گودام سیر کرنے گیا تو صرف جون سے ملاقات ہو سکی بش مین بھی وہاں نہ تھا۔ جون بھی قدرے پریشان تھا۔ اس علاقے کے حالات ابتر ہورہے تھے اس کا اصرار تھا کہ میں ہمدرد سفید فام ہوں لیکن حالات غیر یقینی تھے جب میں جانے لگا تو جون مجھے ایک کونے میں لے گیا اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا:
"ماسٹر آرتھر میں نے سنا ہے کہ پیٹر اور بش مین جوہنسبرگ میں ڈیوب کے مقام پر ہیں۔ یہ خیال رہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں نے تمہیں یہ خبر دی ہے۔"
میں نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ لوگ مجھے ماسٹر کہہ کر نہ پکاریں لیکن جون پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ جون اتنے راز دارانہ انداز میں کیوں باتیں کررہا تھا۔ کیا اس کا تعلق سیاست سے ہے؟ میرے ذہن میں سوال ابھرا لیکن بش مین اور پیٹر کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں جون سے اس بات کی وضاحت نہ کرواسکا۔
میں چند مہینوں کے بعد پھر گھر گیا۔ مجھے اس دفعہ بھی بش مین اور پیٹر کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ یونیورسٹی جانے سے چند دن پہلےایک اتفاقی واقعہ نے بہت سی باتوں سے پردہ اٹھا دیا۔
ایک سہ پہر میں اپنے دوست کے ہاں ٹینس کھیلنے گیا۔ میں نے ایک گھر کے پچھوڑے کھیتوں میں کام کرتے مزدوروں پر نگاہ ڈالی تو مجھے دور سے ہاتھ ہلاتا ہوا بش مین نظر آیا میں بہت حیران ہوا۔ میں میزبانوں سے چند منٹ کی اجازت لے کر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چہل قدمی کرتا ہوا کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ مجھے بش مین سے مل کر خوشی ہوئی وہ بھی خوش تھا کہ میں نے اس کا نام تک یاد رکھا تھا میں نے اس سے اس کی ذات، اس کے خاندان اور کام کے متعلق بہت سے سوالات کیے وہ کہنے لگا کہ ہر لحاظ سے خیریت تھی۔ میں نے جب پیٹر کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ اسے کچھ خبر نہ تھی لیکن اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، میں نے بالواسطہ سوال کرکے پیٹر کے بارے میں جاننا چاہا۔
کیا وہ قید میں تھا؟ بش مین نے نفی میں سرہلایا۔
کیا وہ جوہنسبرگ میں تھا؟ نہیں۔
کیا وہ ڈسٹرکٹ چلا گیا تھا؟ نہیں۔
میں نے بش مین کو سگریٹ کا پیکٹ پیش کا لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا، میں اس سے مزید معلومات حاصل نہ کرسکا۔ مجھے جلد ہی جانا پڑا کیوں کہ میری گرل فرینڈ مزید ٹینس کھیلنے پر مصر تھی۔
اسی دن شام کے وقت جب سب مہمان اور میزبان برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے تھے ایک ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ کوئی شخص گھر کے عقب میں مجھ سے ملنا چاہتا ہے سب لوگ حیران ہوتے لیکن میں خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔
بش مین میرا منتظر تھا، وہ بے چینی سے سڑک پر چل رہا تھا، وہ کہنے لگا کہ وہ مجھے پیٹر کے بارے میں بتانا چاہتا تھا کیونکہ میرے ساتھ میری گرل فرینڈ تھی پھر اس نے مجھے بتایا کہ پیٹر مرچکا تھا اور جوہنسبرگ کی پولیس نے اسے قتل کیا تھا۔
بش مین نے مجھے اس واقعے کی تفاصیل بتائیں۔
پیٹر نوکری کی تلاش میں جوہنسبرگ گیا تھا لیکن چونکہ وہ اس علاقے کا نہیں تھا اور پرمٹ حاصل نہ کرسکا تھا اسے ملازمت نہ ملی تنگ آکر اس نے "ڈاکوؤں" کو ٹولی میں شمولیت حاصل کرلی تھی۔ بش مین جانتا تھا کہ پیٹر جس ٹاؤن شپ میں پلا بڑھا تھا وہاں کے بدمعاش ان ڈاکوؤں سے کئی ہاتھ آگے تھے۔ ڈیوب اور الیگزنڈرا جیسے علاقوں میں وہی بدمعاش شام کے وقت سب سے بڑا قانون ہوا کرتے تھے، وہ گوروں سے زیادہ مقامی کالوں پر حملہ آور ہوتے تھے، قتل کرتے، عورتوں کو اغوا کرتے اور لوٹ گھسوٹ سے بھی دریغ نہ کرتے۔ قتل کرتے، عورتوں کو اغوا کرتے اور اور لوٹ گھسوٹ سے بھی دریغ نہ کرتے۔ پیٹر چونکہ طاقتور تھا، عورتوں میں ماہر تھا اور پیتا پلاتا خوب تھا اس لیے جلد ہی اس گروہ کا سرغنہ بن گیا اس نے بش مین کو بھی بلایا تھا۔
بش مین مجھے یہ کہانی اتنے دھیمے انداز میں سنا رہا تھا کہ میں بہ مشکل سن پارہا تھا۔
شروع میں پیٹر اور اس کے ساتھیوں کو کافی کامیابی حاصل ہوئی اور کامیاب گروہ کی طرح وہ جلد پولیس کی نظر میں آگئے ۔ پولیس نے اس گروہ کے بت سے لوگوں کو پکڑ لیا۔ بعض کو جیل میں ڈال دیا اور کئی ایک کو قتل کر ڈالا۔ بش مین واپس گاؤں چلا گیا، جانے سے پہلے اس نے پیٹر کو بھی چلنے کی ترغیب دی۔ لیکن پیٹر نہ مانا۔ بش مین نے بقیہ کہانی اور لوگوں سے سنی تھی۔
پولیس نے کافی محنت کے بعد پیٹر کا سراغ لگالیا۔ وہ اپنی محبوباؤں میں سے ایک کے گھر چھپا ہوا تھا۔ دو پولیس افسر اسے پکڑنے گئے۔ پیٹر نے ہاتھ میں ریوالور لیے ہوئے دروازہ کھولا۔ اس نے گورے سارجنٹ پر گولی چلائی اور سیاہ فام کانسٹیبل کو زخمی کردیا۔ پولیس نے باقی سپاہیوں کو بلایا۔ اور اس گھر کو حصار میں لے لیا۔ پیٹر نے اندازہ لگالیا کہ اس کا فرار ناممکن ہے۔ اس نے اس عورت کو ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے گھر سے نکلنے کو کہا تاکہ وہ اس کے پیچھے چھپ سکے۔ وہ عورت جلدی سے نکلی۔ پولیس غلطی میں اسے پیٹر سمجھی اور اس پر گولی چلا دی۔ گولی اس عورت کے پیٹ میں لگی۔ پیٹر جلدی سے نکلا اور عورت پر گر پڑا۔ پولیس نے گولی نہ چلائی اور آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر پیٹر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنا ریوالور پولیس افسروں کے سر پر ایک بلند چیخ مارتے ہوئے اچھالا۔
"کیا تمہیں یاد ہے وہ دن " بش مین نے مزید قریب ہوکر کہا "جب ہم طوفان سے پہلے لاری بھر رہے تھے اور پیٹر نے چیخ ماری تھی، اسی قسم کی چیخ۔"
پولیس سمجھی کہ پیٹر ان پر حملہ آور ہوگیا ہے اور انہوں نے اس پر گولی چلا دی۔ جب پیٹر زمین پر گرا تو وہ مرچکا تھا۔ بش مین نے پھر آہستہ سے اسی طرح کی چیخ ماری جو نہ تو میں مارسکتا ہوں اور نہ ہی ترجمہ کرسکتا ہوں۔
جب بش مین نے وہ چیخ ماری تو وہ فتح کے بجائے شکست کی چیخ لگ رہی تھی۔ شاید بش مین کے لیے شکست ہی تھی کیونکہ پیٹر کے بغیر اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ جب پیٹر نے آخری دفعہ وہ چیخ ماری تھی تو کیا وہ کامرانی کی چیخ تھی یا شکست کی۔ میں نے یہ سارا واقعہ اسی لیے لکھا ہے، کیوں کہ مجھے اس چیخ کی حقیقت نہیں معلوم۔ اگر مجھے حقیقت معلوم ہوتی تو مجھے یہ کہانی نہ لکھنی پڑتی۔
Original Title: Impossible Cry
Written by:
Charles Jonathan 'Jonty' Driver (born 1939) is a South African anti-apartheid activist, former political prisoner, educationalist, poet and writer.
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 199 : چیخ
تحریر: سی جے ڈرائیور (جنوبی افریقہ)
مترجم: ڈاکٹر خالد سہیل (کینیڈا