آج پھر اس کے سامنے ایک اور لاش تھی۔۔۔۔۔ آج پھر اس کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ متلی کے ساتھ ساتھ جسم کی لرزش اسے نڈھال کئے دے رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میڈیکل اسٹڈی تو میرے لئے عذاب بنتی جا رہی ہے۔ کبھی خون، کبھی کٹے پھٹے جسم اور کبھی لاشوں کی چیر پھاڑ (dissection)۔
یہ سب کسی بھی طرح اس کے مزاج کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ والد کی خواہش کے احترام میں اس نے ایڈنبرا یونیورسٹی میں داخلہ تو لے لیا تھا مگر اب یہ اس کی جان کا روگ بن کے رہ گیا تھا۔ وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے کہیں دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔ ایسی جگہ جہاں قدرت کا حسن بکھرا ہوا ہو، رنگا رنگ پھول کھلے ہوں، پرندے چہچہاتے ہوں، سبزہ لہلہاتا ہو اور ٹھنڈی ہوائیں نزاکت سے جسم کو گدگداتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ اور آخر کار وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔۔۔۔۔ اگر وہ نہ بھاگتا تو زیادہ سے زیادہ ایک عام سا ڈاکٹر بن کر مریضوں کا علاج ہی کرتا رہتا، دنیا اسے کبھی چارلس ڈارون کے نام سے نہ جانتی۔
چارلس رابرٹ ڈارون، 12 فروری 1809 کو انگلینڈ کی کاؤنٹی شروپشائر کے ڈسٹرکٹ Shrewsbury کے مقام پر پیدا ہوا۔ اس کے گھرانے کا شمار کاؤنٹی کے صاحبِ حیثیت اور امیر کبیر گھرانوں میں ہوتا تھا۔ اس کے والد، رابرٹ وارنگ ڈارون، ایک معروف ڈاکٹر تھے اور ڈارون کو بھی ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ اس کے دادا، ایرسمس ڈارون اپنے علاقے کی معروف علمی شخصیت، فزیشن اور ایک کتاب، zoonomia، کے مصنف تھے۔ وہ ارتقاء کے چند اہم نظریات پیش کر چکے تھے۔
ڈارون کی والدہ کا انتقال اس وقت ہو گیا جب وہ محض آٹھ سال کا تھا۔ اس کی پرورش اسکی تین بڑی بہنوں نے کی۔ 1825 میں اسکے والد نے اسے ایڈنبرا یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لئے بھیج دیا۔ وہاں وہ دوسال تک رہا مگر اس تعلیم کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہ کر سکا خصوصاً مردہ لاشوں کی ڈائی سیکشن کے ساتھ کبھی سمجھوتا نہ کر پایا۔ 1827 میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے فرار ہو کر کرائسٹ کالج، کیمبرج میں داخلہ لیا مگر یہاں بھی اس کا دل نہ لگا۔ ایک بے چینی و بے قراری تھی جسے وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس بے سمتی اور انتشار کے عالم میں بھی اگر اسے سکونِ قلب ملتا تھا تو نیچرل ہسٹری کے مطالعے میں۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ قدرت نے اسے نیچر کا مطالعہ کرنے اور اس کے اسرار و رموز سمجھنے کے لئے پیدا کیا ہے۔
ایڈنبرا یونیورسٹی کے دنوں میں اس کی ملاقات رابرٹ گرانٹ سے ہوئی تھی جو کہ جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ رابرٹ گرانٹ موازناتی علم الابدان کا ماہر (comparative anatomist) تھا۔ ڈارون کو اپنے اس دوست سے کمپیریٹو اناٹمی کے جدید رحجانات اور اس علم کی گہرائی اور افادیت سمجھنے کا موقع ملا۔ گرانٹ کھلے دل سے سپیشیئز کے تغیر و تبدل کا قائل تھا اور یہ نقطۂ نظر اس نے ڈارون کے ہی دادا ایرسمس ڈارون کی کتاب زونومیا سے سیکھا اور سمجھا تھا۔
کیمبرج میں سٹڈی کے دوران ڈارون، ولیم پالے کی کتاب نیچرل تھیولوجی (natural theology) سے بہت متاثر ہوا۔ اس کی بیشتر تحریریں فطرتی دینیات کے حوالے سے تھیں جن کے مطابق فطرت کا مطالعہ اپنے تمام مظاہر میں اس کے خالق کی عظمتوں کا آئینہ دار ہے۔ ولیم پالے نے اس میں یہ آرگیومنٹ اٹھایا تھا کہ اگر کسی خطۂ گھاس میں کوئی گھڑی پڑی ہوئی ملے تو یقیناً یہ خود بخود نہیں بنی بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی تخلیق کار ضرور ہو گا اور اگر اس گھڑی کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو ہم کسی نہ کسی درجے میں اس کے خالق کے ذہن کو سمجھ سکیں گے۔
چارلس ڈارون کیمبرج کے دو پروفیسروں کے خیالات سے بھی بہت متاثر رہا۔ ان پروفیسرز سے اس کے ذاتی مراسم تھے۔ ان میں سے ایک ماہرِ نباتات جان سٹیون ہینسلو John Steven Hanslow تھے اور دوسرے ماہرِ ارضیات ایڈم سیجوِک Adam Sedgwick تھے۔ ان دونوں نے ڈارون کو منظم اور باضابطہ فیلڈ ورک کے طریقے سکھائے اور نیچرل ہسٹری کی جانب اسکے رحجان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان ابتدائی برسوں میں ڈارون ایک ماہرِ ارضیات geologist اور نیچرلسٹ کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ ان پروفیسر دوستوں کے ساتھ ڈارون نے بہت سے فیڈ ٹرپ بھی کئے اور سائنس کے طریقۂ کار کو گہرائی میں جا کر سمجھا۔ 1831 میں ڈارون نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اسی سال قدرت نے اسے وہ موقع فراہم کیا، جس نے نہ صرف اس کی سوچ کا دھارا بدل دیا بلکہ دنیا کے بڑے علمی نظریات میں انقلابات برپا کر دئیے۔
مسافر رختِ سفر باندھ چکا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ اور جیسا کہ ہر سفر کی گہرائی میں ایک اور سفر ہوتا ہے۔۔۔۔ جو ذات کی پیچ در پیچ بھول بھلیوں سے گزرتا ہوا، مسافر کو خود پر منکشف کرتا۔۔۔۔۔ عرفانِ ذات کی منزلیں سر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔
ماہرِ نباتات، جان سٹیون ہینسلو نے ڈارون کی زندگی کا دھارا بدلنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اسے 1831 میں برطانوی بحریہ کی طرف سے درخواست موصول ہوئی کہ وہ کسی ایسے نیچرلسٹ کو نامزد کرے جو دنیا کے سفر پر روانہ ہونے والے بحری جہاز ایچ ایم ایس بیگل HMS Beagle کے کپتان، رابرٹ فِٹزرائے، کے معاون کے طور پر اس کے ساتھ رہے یا خود ہینسلو یہ ذمہ داری سنبھال لے۔ (واضح رہے کہ اس وقت تک سائنس کا لفظ قبولِ زدِ عام نہیں ہوا تھا اور عموماً سائنسدان کے لئے نیچرلسٹ کی اصطلاح استعمال ہوا کرتی تھی)۔
یہ ایک قسم کی مطالعاتی اور سروے مہم تھی جسے اسی سال روانہ ہونا تھا۔ ہینسلو کچھ خاندانی مسائل میں گھرا ہوا تھا، اس لئے وہ خود نہیں جا سکا تاہم اس نے ڈارون کو نامزد کر دیا۔
ڈارون کے دل میں سینکڑوں خدشات تھے مگر وہ اس سفر کے لئے دل و جان سے آمادہ تھا۔ مسئلہ صرف والد کی اجازت کا تھا اور والد اسے اجازت دینے پر قطعی تیار نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ نہ صرف خطرات سے بھرپور بلکہ ایک فضول سفر ہے جس سے ڈارون کے کیریئر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس مرحلے پر ڈارون کے ماموں کی سفارش کام آئی اور انہوں نے والد کو آمادہ کر لیا کہ وہ بیٹے کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں۔
بالآخر ساری رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے وہ دن آ گیا جب ڈارون اس طویل مہماتی سفر پر روانہ ہوا۔ یہ تاریخ تھی 27 دسمبر 1831۔ کپتان کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ سمندر کی گہرائی، لہروں، ماحولیاتی اور موسمیاتی معلومات پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کرے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ برطانوی تجارت کی ترویج کے لئے دنیا سے رابطے کرے۔
اصل منصوبے کے مطابق یہ مہم دو سال پر مشتمل تھی لیکن بعد میں یہ بڑھتے بڑھتے پانچ برسوں میں پھیل گئی۔ دنیا کے دو عظیم سمندروں، بحر الکاہل اور بحرِ اوقیانوس اور ان سے ملحقہ خطوں کو ایکسپلور کرتی یہ مہم آخرکار 2 اکتوبر، 1836 کو اختتام پذیر ہوئی۔
اس سفر میں ڈارون اپنے ساتھ صرف دو کتابیں لے گیا۔ ایک چارلس لائل کی لکھی ہوئی اصولِ ارضیات (principles of geology) اور دوسری، جان ملٹن کی لکھی ہوئی کلاسک شاہکار، فردوسِ گم گشتہ (Paradise Lost)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون نے اس سفر میں کیا دیکھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طویل سفر کے بےشمار پڑاؤ اور پراسرار جزیروں کے مشاہدے نے ڈارون کی سوچ کے بہت سے در کھولے۔ اسی سفر کے دوران اس نے سپی شیئز کی فطرت اور ان کے آغاز origin پر غوروفکر کیا۔
چند مشاہدات پیشِ خدمت ہیں۔
چارلس لائل کی کتاب اور اپنے ذاتی مشاہدات کے نتیجے میں وہ اہم ارضیاتی نظریئے، یونیفارمیٹیریئنزم uniformitarianism کا قائل ہو گیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق زمین کے تمام ارضیاتی عوامل جو حال میں اپنا کام کر رہے ہیں، کروڑوں برس سے اسی طرح کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تغیرات کا یہ تسلسل اور یکسانیت، زمین کی تمام تبدیلیوں میں بنیادی کردار ادا کرتا آیا ہے اور آج بھی اسی شدت سے پر اثر ہے۔
جنوبی امریکہ میں اس نے ایک ہاتھی کی جسامت کے معدوم ممالیہ جانور گراؤنڈ سلوتھ یا میگا تھیریئم megatherium کے فوسلز دریافت کئے جبکہ گھنے جنگلات میں اس نے موجودہ دور کے ٹری سلوتھ tree sloth کو دیکھا جو جسامت میں نسبتاً کم اور درختوں پر رہنے والا ہے۔ ان کی ساخت پر غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ گراؤنڈ سلوتھ کی ساختی ترمیم کے نتیجے میں ٹری سلوتھ کا اوریجن ہوا۔
تیسرا مشاہدہ سپی شیئز کے جغرافیائی پھیلاؤ کے مخصوص پیٹرن سے متعلق تھا۔ مثال کے طور پر جب اس کا گزر ایک جزیرے Tristan da Cunha سے ہوا جو کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ کے بالکل درمیان سمندر کا ایک زرخیز جزیرہ ہے تو اس نے مشاہدہ کیا کہ یہاں کے حیوانات و نباتات دونوں براعظموں کے جانداروں کی آمیزش ہیں۔ اس سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ جانداروں کی نقل مکانی ان کے ساختی تغیرات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس سفر کے سب سے اہم ایام "گلاپاگوس" پر گزارے دو ہفتے تھے۔
گلاپاگوس Galapagos ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور Ecuador سے سات سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ جزیرہ باقی دنیا سے بالکل کٹا ہوا الگ تھلگ تھا اور ڈارون کو یہاں جانداروں کی بہت منفرد اور حیرت انگیز اقسام دیکھنے کو ملیں۔ اس نے غور کیا کہ اکثر جاندار ویسے ہی ہیں جنہیں اب تک وہ دیکھتا آیا ہے، مگر ان کی ساخت میں بہت نمایاں فرق موجود ہیں۔ خصوصاً اس نے دیکھا کہ عظیم الجثہ کچھوے دیگر جزیروں کے مقابلے میں نمایاں طور سے مختلف ہیں۔ یہی مظہر کئی دیگر حیوانات میں بھی دیکھنے کو ملا۔ مثلاً ننھی چڑیا finches اور مینا میں بھی ساختی تغیر بہت نمایاں تھا۔
یہاں پہنچنے کے بعد ڈارون کو اس حقیقت میں کوئی شک نہ رہا کہ ان تغیرات کی تشریح کا واحد طریقہ، "مشترکہ آباء و اجداد سے نسل در نسل ترامیم" descent with modification کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ڈارون کے پاس ان تغیرات کی سائنسی توجیہہ کا کوئی مکینزم موجود نہیں تھا۔ (یہ مکینزم بہت بعد میں جینیٹکس کے علم کے ساتھ دریافت ہوا)
1836 میں وطن واپسی کے بعد ڈارون نے اس سفر کے مشاہدات اور اہم نوٹس لکھنے شروع کئے اور ساتھ ساتھ سفر میں جمع کئے گئے بہت سے نمونوں پر کام شروع کر دیا۔
لندن میں رہتے ہوئے، جلد ہی اس کی دوستی کئی نمایاں نیچرلسٹ (سائنسدانوں) سے ہو گئی۔ ان میں معروف ماہرِ ارضیات چارلس لائل اور ماہرِ تقابلی علم الابدان رچرڈ اوون کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔ اس کا سائنسی حلقۂ احباب بڑھتا گیا اور وہ کئی سائنسی کانفرنسوں میں شرکت کرنے لگا۔ 1839 میں اسے رائل سوسائٹی کے فیلو کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہ بہت بڑا اعزاز اور اس کے علمی مرتبے کا اعتراف تھا۔
اسی دوران اس نے سپیشیئز کی ٹرانسمیوٹیشن Transmutation پر نوٹ بکس شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان نوٹ بکس میں وہ سپیشیئز کے تغیرات کی گتھیاں سلجھاتا۔
ایک بات جو اس کے مطابق ہمہ گیر اور مشترک تھی وہ یہ کہ تمام سپیشیئز کے ارکان میں تغیرات کا ایسا سلسلہ ہوتا ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض تغیرات بہت نمایاں اور بعض بہت معمولی ہوتے ہیں، مگر کسی کی بھی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ معروف ماہرِ حیاتیات ارنسٹ میئر لکھتا ہے کہ اس مرحلے پر ڈارون نے سپیشیئز کو انفرادی اقسام کی بجائے انکی آبادی کے نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
اس کے شواہد کا دوسرا سلسلہ جانوروں اور پودوں کی مصنوعی بریڈنگ کا تھا۔ صدیوں سے بریڈنگ کے ماہرین، پودوں اور جانوروں مثلاً کبوتروں، مویشیوں، کتوں اور فصلوں کی بریڈنگ کرتے چلے آئے ہیں۔ خود ڈارون کئی قسم کے کبوتروں کی بریڈنگ کر چکا تھا۔ بریڈنگ کا عمل ثابت کرتا ہے کہ جانداروں میں تغیرات ممکن ہیں۔ ڈارون نے اس پر یہ اضافہ کیا کہ اگر اس بریڈنگ کو مناسب حد تک طویل وقت مل جائے تو سپیشیئز میں ٹرانسمیوٹیشن بھی ممکن ہے۔ یعنی ایک نوع سے دوسری نوع کے پیدا ہونے کے امکان کو قطعی رد نہیں کیا جا سکتا۔
اب ڈارون اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ جب تک فطرت میں بھی مصنوعی بریڈنگ سے ملتے جلتے عمل کا کار فرما ہونا دریافت نہ ہو، اسکی تھیوری ناقابلِ تسلیم رہے گی۔ چنانچہ وہ فطرت میں مصنوعی بریڈنگ سے مشابہ عوامل کی کھوج میں رہنے لگا۔
یہ سال تھا 1838 اور یہی وہ دن تھے جب اس کی نظر سے ایک ایسا آرٹیکل گزرا جس سے اسے بے پایاں مسرت حاصل ہوئی۔ اس آرٹیکل میں اس کی کئی الجھنوں کا حل نظر آرہا تھا۔ یہ آرٹیکل تھامس رابرٹ مالتھس کا لکھا ہوا تھا اور اس کا عنوان تھا، "آبادی کا اصول" (principle of population) ۔
مالتھس جو کہ تاریخ کا پروفیسر تھا، اس نے اس مضمون میں اپنا اصولِ آبادی پیش کیا تھا، جس کے مطابق آبادی میں اضافہ exponential تناسب سے ہو رہا ہے، یعنی 2، 4، 8، 16، 32 وغیرہ جبکہ غذا کی ترسیل سادہ ایرتھمیٹیکل تناسب یعنی 1، 2، 3، 4، 5 وغیرہ سے بڑھ رہی ہے جو کہ آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتی، جس سے آبادی میں غذا کے حصول کے لئے زبردست مسابقت competition پیدا ہو جاتی ہے۔
بحیثیت نیچرلسٹ، ڈارون نے اس امر سے فوری طور پہ نتیجہ نکال لیا کہ کسی بھی سپیشیئز میں پیدا ہونے والی نسلوں کی تعداد، زندہ بچ رہنے والی نسلوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جس سے انواع کے تمام پیدا ہونے والے ارکان میں مالتھس کے الفاظ میں "جدوجہد برائے بقاء" struggle for existance شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس جدو جہد میں کسی ایک رکن میں موجود معمولی سا بھی مثبت تغیر اسے دیگر ساتھیوں پر سبقت دے جاتا ہے اور وہ خوراک یا ساتھی کے حصول میں کامیاب و کامران قرار پاتا ہے۔
اس قسم کے چھوٹے چھوٹے تغیرات نسل در نسل جاری رہنے کی بنا پر طویل وقت میں ان کی آبادی میں نمایاں تغیرات کا باعث بن جاتے ہیں۔ انہی سلسلہ وار تغیرات سے نئی سپیشیئز بننے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
1842 اور 1844 میں ڈارون نے اپنے نجی حلقے کے لئے دو مضامین تیار کئے۔ ان مضامین میں اس نے اپنی تھیوری کے تقریباً تمام نکات قلمبند کر دئیے۔ وہ ان مضامین کی اشاعت سے ہچکچاتا رہا کیونکہ اس معاملے میں اسے عوام کے غیض و غضب کا ہی نہیں بلکہ اپنے ہم عصر سائنسدانوں کی جانب سے بھی ردعمل کا خدشہ تھا۔ اس کے علاوہ اسے چرچ اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی مخالفت کے خدشات لاحق تھے۔ وہ بہرحال یہ بھی چاہتا تھا کہ اسے خالص نیچرلسٹ کی حیثیت سے جانا جائے۔ چنانچہ اس نے وقتی طور پہ اپنی توجہ بائیولوجی کے دیگر شعبوں کی تحقیق کی جانب مبذول کر لی۔
پھر یوں ہوا کہ آناً فاناً ساری کایا ہی پلٹ گئی جب 1858 کے موسمِ بہار میں اسے نوجوان نیچرلسٹ الفریڈ رسل ویلس Alfred Russel Wallace کی جانب سے ایک ریسرچ پیپر موصول ہوا جس میں بعینہ وہی فطرتی انتخاب کا نظریہ پیش کیا گیا تھا جسے دو دہائیاں پہلے ڈارون نے دریافت کر لیا تھا۔ اس کے بیشتر نکات من و عن وہی تھے جو ڈارون نے سات پردوں میں چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ اسے اپنے قدموں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔ وہ جانتا تھا کہ الفریڈ ویلس کا یہ کام کسی قسم کا سرقہ نہیں بلکہ سخت محنت سے کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔