ڈارون 1809ء برطانیہ میں پیدا ہؤا۔ اسے ایڈمبرا میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا مگر سرجری کی چیر پھاڑ سے اکتا کر چند سال بعد چھوڑ دیا۔ اسے کرائسٹ کالج آف ارٹس میں داخل کرایا گیا مگر بائبل میں تخلیق کائنات کا طریقہ کار اسے مطمعن نہ کر سکا۔ جب کیمبرج یونیورسٹی میں گیا تو نیچرل ہسٹری نے اسے متاثر کیا۔ نیچرل ہسٹری تخلیق کائنات کا مادی تصور پیش کرتی تھی۔ وہاں نیچرل ہسٹورین لامارک سے رابطہ ہؤا اور ڈارون کے آرٹیکلز اخبارات میں چھپنے لگے۔
1831 میں برطانیہ رائل نیوی کا جہاز Beagle جیالوجیکل سوسائٹی آف لندن کے ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم لے کر دنیا کا سروے کرنے نکلا۔ 22 سالہ ڈارون کو اپنے خرچ پر ٹیم کے ہمراہ سفر کرنے کا چانس مل گیا۔ جہاز پانچ براعظموں یورپ امریکہ افریقہ ایشیا آسٹریلیا کے سمندروں ساحلوں جزیروں کا سروے مکمل کرنے کے پانچ سال بعد واپس برطانیہ لوٹا۔ ڈارون کے صندوقوں میں دنیا بھر کے جانوروں چوپایوں پودوں پرندوں مینڈکوں کچھووں گھونسلوں انڈوں نسلوں کے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے پنسل سکیچ اور ان کے کھانے پینے رہنے سہنے عادات و اطوار کی تفصیلات سے بھری درجنوں ڈائریاں تھیں۔
ڈارون نے ایوولوشن کا شجرہ نسب بنا کر بتایا ارتقاء سیدھی لائن میں نہیں ہؤا۔ بلکہ درخت کی شاخوں کی طرح تقسیم در تقسیم ہوتا رہا۔ ہر اگلی نوع پچھلی نوع سے مختلف ہوتی گئ۔ زمین کی کلائمیٹ میں سیلاب سونامی آتش فشانی خشک سالی برفانی دور آتے جاتے رہے۔ لاکھوں کروڑوں سالوں کی اس اتھل پتھل میں بہت سی انواع ناپید ہو کر ہمیشہ کے لئے مٹ گئیں۔ ان کی موجودگی کا ثبوت ان کے فاسلز سے ملتا ہے۔ وہی انواع بچ سکیں جنہوں نے بدلتے حالات سے موافقت اور مطابقت پیدا کر لی۔ ارتقاء کی تاریخ میں یہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
ڈارون کی تحقیقات بائبل کی تعلیمات کے یکسر خلاف تھیں۔ چرچ آف انگلینڈ اور دنیا بھر کے کلیساؤں نے ڈارون کی کتابوں پر پابندی لگا دی۔ اخبارات اور کیلنڈروں پر ڈارون کے بندروں والے کارٹون چھپ گئے تاکہ لوگ دن رات ڈارون پر لعنت بھیجتے رہیں۔ ڈارون نے خدا سے صرف اتنا کہا:
او مائ لارڈ!
جو تو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ جو میں دیکھتا ہوں وہ بھی سچ ہے۔ کون سا سچ قبول کروں؟
وقت گزرتا رہا بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی آتی گئ۔ اٹامک خورد بین، DNA ڈیکوڈنگ، جینیٹک انجینئرنگ، سیل سٹرکچرز نے ثابت کر دیا انسان کے DNA کا کچھ نہ کچھ فیصد حصہ ہر جانور درخت پودے پرندے پھل تک میں پایا جاتا ہے۔ بونوبو چمپانزی میں 98.6 فیصد اور کیلے میں 50 فیصد انسانی DNA کی موجودگی کو جھٹلانا مشکل ہوگیا۔ زندگی کی غزل ایک cell سے شروع ہو کر multicellular وجود تعمیر کرتی گئی۔ اور اس کا ترنم و تسلسل آج بھی جاری ہے۔ چرچ آف انگلینڈ نے ڈارون سے اپنی غلطیوں پر تحریری معافی مانگ لی۔
دی ٹیلیگراف لندن
13 ستمبر 2008
جوناتھن وائن جونز، رپورٹر مذہبی امور۔
چارلس ڈارون،
آج 200 سال بعد چرچ آف انگلینڈ اپنی غلطیوں اور اپ سے کی گئ زیادتیوں پر شرمندہ ہے اور آپ سے تحریری معافی مانگتا ہے۔ چرچ سے یہ غلطی گیلیلؤ کے وقت بھی ہوئ تھی جب اس نے کہا سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کا چکر لگاتی ہے۔ بعد میں چرچ سے ویسی ہی غلطی چارلس ڈارون کو سمجھنے میں ہوئ۔ ہم بشر ہیں اور کوشش کرتے ہیں انسانی معاشرہ نیکی کی اقدار پر قائم رہے۔ ہماری نیت صاف ہوتی ہے۔
(دستخط اور مہر)
ریورنڈ ڈاکٹر میلکم براؤن
چرچ ڈائریکٹر آف مشن اینڈ پبلک افیئرز۔ √
[ساشا فرید]
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...