چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان۔۔
ڈوبتے دن کی صدا غور سے سن
—————————————
میںداد دیتا ہون ان کے حوصلے اور ظرف کی جواس ماضی کا نوحہ بھی خندہ پیشانی سے سنتے رہے جس کا کسی لکھی گیؑ تاریخ میں حوالہ ہی نہیں۔۔؎ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔ کیا اس کی کویؑ اہمیت تھی؟ ایک تیز رفتارکمپیوٹر جیسی برق رفتار زندگی کے معمولات میں جو ہے لمحہؑ گزراں کی حقیقت ہے ورنہ نہیں ہے
سوال ضرور ہوا کہ مرض کے اسباب کو خوب جان لیا۔۔مگر؎ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟۔۔علاج یقینا" ہے۔۔ لیکن خود چارہ گر نے اپنے بیمار کے اعتقاد کوامید شفا سے محروم رکھنا شعار بنالیا ہو اور نسخہ میں دوا سے پرہیز لکھ دیا ہوتو دعا بھی کیا دے گی
وقت کے ساتھ سنہرے خوابوں کی گٹھری سنبھال کر چلنے والوں کی نظر نے آزادی کی صبح ضرور دیکھی لیکن ا س نظر سے جس کو سیاسی شعبدہ گروں نے یو بدل دیا تھا کہ ٹعبیر خواب میں حقیقت کہیں نہ ہو لیکن دکھایؑ دے اوراس یقین کے ساتھ کہ فیض کی کسی نے نہ سنی جو چلاتا رہا کہ ؎
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آیؑ۔۔چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آیؑ
التا اس جیسےراندہؑ درگاہ ہوےؑ اور سازشی قرار دے کر پابند سلاسل و زنداں رکھے گےؑ یا ھ﷽الوطنی کے جرم میں جلا وطن ہوےؑ۔میں نہ قومی نظریہ کے جواز کی بات کروں گا نہ اس ملک کے بانی شمار ہونے والوں کے خلوص نیت پر شک کی کیونکہ وہ تو خود سیاہیؑ شب میں ملک پر قابض ہوجانے والے ایک سازشی ٹولے کے مفادات کی قربانگاہ کی بھینٹ چڑھے جو آج بھی عوام کوایک منظم سازش کے ذریعےبے خبری اورلاعلمی کے تاریک جنگل میں رکھے ہوےؑ ہے جہاں تیز رفتار اکیسویں صدی کے۔ سیاسی شعور یا آگاہی کی روشنی کی ایک کرن کا گزر نہ ہو ۔اس ٹولے نے کیا کیا؟ یہ آپ کو کسی تاریخ کی درسی کتاب میں نہیں ملے گا لیکن کیا آنکھوں پر پٹی باندھنے سے سورج بے نور ہو جاتا ہے
1۔ اس قزاق ٹولے نے پہلا خون خود باباےؑ قوم کے اعتماد کا یو کیا کہ ان کی 11 اگست 19477 کی وہ تقریر اشاعت سے روک دی جو اس مملکت خداداد کا آییؑنی منشور بن جاتی تو ان کے مذموم عزایم نہ پورے ہوتے۔قایؑد اعظم کے ذاتی دوست الطاف حسین مدیر ڈان نے دھمکی دی تو یہ صرف انگریزی کے اس واحد اخبار میں شایع ہو سکی۔۔بعد میں اس تقریر کی ّجو آل انڈیا ریڈیو دہلی۔۔بی بی سی اور لاہور کے ریڈیو اسٹیشن سے ایک ساتھ نشر ہویؑ تھی)۔۔ اصل ریکارڈنگ یون غایب کی گیؑ کہ آج تک اس کا سراغ نہیں مل سکا۔۔حال ہی میں قومی اسمبلی نے اس کے متن کوایک قرار داد سے منظور نہ کیا ہوتا تو کل کو یہ کہا جاتا کہ قایؑد اعظم نے تو ایسی کویؑ تقریر سرے سے کی ہی نہیں تھی اور جو ڈان میں شایع ہویؑ وہ الطاف حسین کی جعلسازی تھی۔۔(یہ ڈان والا پھر ایک جھوٹی خبرکی اشاعت میں ملوث ہے اور اڑا ہوا ہے کہ خبر سچ تھی۔۔اج ہی وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے "کچھ" ارکان نے رپورٹ پر دسخط کرنے سے انکار کر دیا ہے)
2، قاید اعظم زیارت ریزیڈنسی میں علیل تھے یا نظر بند اور ان کی موت بیماری کا نتیجہ تھی یا سازشی ٹولے کی ریشہ دوانی کا۔۔یہ راز اب اتنا راز بھی نہیں رہا۔۔سب سے پہلےایر مارشل اصغر خان نے جنگ میں "قیادت کا بحران" کے عنوان سے لکھے گےؑ مضامین میں اس کی تفصیل کو ایک چشم دید گواہی کی صورت میں بیان کیا تھا۔ان کے معا لج "کرنل الہیٰ بخش" کی کتاب "قاید اعظم کے اخری ایام" ضبط ہویؑ ،،سنا ہے اب اس کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن لایا گیا ہے۔
3،، 1964 میں ایک دھان پان سی مادر ملت کہلانے والی بڑھیا کو جس طرح ایک آمر نے نام نہاد الیکشن میں شکست دی اور جس پر اسرار انداز میں وہ ایک صبح مردہ پایؑ گیؑ یہ واقعات کسی درسی تاریخ میں نہ سہی شرمناک حقایق ضرور ہیں ۔۔اس نے بھی بہت کچھ ایک کتاب "جناح مایؑ برادر" میں لکھ دیا ہے۔۔
4۔۔ قایؑد اعظم کے بعد بھی ایک شخص رہ گیا تھا جو سازشی ٹولے کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اسے کس طرح 'شہید ملت" کےم منصب پر فایؑز کیا گیا۔یہ ایک شرمناک داستان ہے۔ وہ جو در حقیقت نواب آف کرنال تھا۔جس نے اپنی دہلی کی محل جیسی رہایش گاہ پاکستان کا سفارت خانہ کھولنے کیلۓ تحفہ کردی تھی۔ جب شہید ہوا تو روایات کے مطابق شیروانی کے نیچے خون آلود قمیص پھٹی ہویؑ تھی۔اس کے قاتلوں میں انسپکٹر نجف خان کو ترقی دے کر ڈی ایس ُپی بنا دیا گیا تھا( اس نے فورا" گولی چلانے والے کو گولی مار کے کسی سراغ کا امکان ختم کیا تھا)۔۔ اس وزیر اعظم کی بیوہ نے دو بچوں کی اور اپنی جاں بخشی کے بدلے مکمل خاموشی اور جلا وطنی قبول کی،وہ ہالینڈ میں سفیر بن گیؑ۔۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس نے مرتے دم تک ایک انٹرویو نہیں دیا۔۔نہ کسی اخبار کو نہ ریڈیو کو اور نہ ٹی وی کو۔وہ اپنے بچوں اکبر اور اشرف کو وصیت کر گیؑ تھی کہ تم کبھی کہیں باپ کا نام تک نہیں لوگے۔اس کے قتل کا سراغ لگانے والے کون تھے اور وہ کس طرح قتل ہوےؑ۔۔یہ ایک لمبی کہانی ہے،،اس میں جمیل الدین عالی کے بڑے بھایؑ اعتزازا لدین انسپکٹر جنرل پولیس۔بریگیڈیر شیر خان اور اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بلایا گیا چیف سراغرساں انسپکتر شامل تھے،آج 64 برس بعد بھی یہ مقدمہ"زیر سماعت" ہے
55۔ اس کے بعد وہ ہوا جو پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں نہ کہیں ہوا نہ ہوگا۔۔گورنر جنرل ناظم الدین کو وزیر اعظم بنادیا گیا اور ایک فاترالعقل شراب کی دھت کے رسیا عیاش اور مفلوج شخص کو گورنر جنرل کے منصب پرفایؑز کر دیا گیا۔ اس کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی شہرہؑ افاق سر گزشت"شہاب نامہ٭ مین اس ہیڈ اف اسٹیٹ پر ایک پورا باب رقم کیا ہے جو ایک داستان عبرت ہے اور اس قابل کہ تاریخ کے نصاب کا حصہ بنے۔آج کی نسل بھی جانے کہ ؎ ہمارے بھی تھے حکمراں کیسے کیسے۔۔ عجیب اتفاق ہے کہ میں نے 1953 میںجنرل میاں کی ہارلے اسٹریٹ والی کوٹھی نمبر ون میں غلام محمد کوہ بالکل اسی حالت میں خود دیکھا اور سنا ۔ "شہاب نامہ " سے میں صرف ایک اقتباس کا خلاصہ درج کر سکتا ہوں۔آپ اسے پورا بھی پڑھ سکتے ہیں
'"۔۔۔گورنر جنرل کی معاون ایک انگریز عورت تھی جو اس کو وہیل چییؑر پر لےؑ پھرتی تھی۔مفلوج گورنر جنرل بولتا تھا تو بے معنی الفاظ کا شور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا،وہ غسے کا بہت تیز تھا اور کسی بھی معززوزیر سفیرکو فحش گالیاں دیتا تھا لیکن یہ گالیان سمجھ میں نہیں آتی تھیں چنانچہ اس کی تمام پسندیدہ گالیاں ایک سفید گتے پر جلی حروف میں لکھی گیؑ تھیں۔ گورنر جنرل کے اشارے پر وہ گتہ اس کے سامنے کر دیا جاتا تھا تو کسی ایک گالی پر انگلی رکھ دیتا تھا اور سیکرٹری بتاتا تھا کہ"گورنر جنرل نے فرمایا ہے کہ آپ بڑے ما۔۔چو۔۔۔ہیں"
اس تاریخ کے عینی شاہد اب گنے چنے ہوں گے جو سب چراغ سحری ہیں لیکن ایسا نہیں کہ کسی کتاب مین لکھی ہی نہیں گیؑ۔۔مگر وہ کتابیں انگریزی میں باہر سے شایع ہویؑ تھیں۔مثلا" ڈاکٹر عایشہ جلال ایک مستند مورخ ہیں
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔