نہیں ! یہ کھیل لمبے عرصے کے لیے نہیں چل سکتا۔ کھیل کے اصول پامال ہورہے ہیں۔
ایک طرف تابوت آرہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوت۔ تابوتوں سے بچے لپٹ لپٹ کر سسکیاں بھررہے ہیں۔ مائوں کو غش آرہے ہیں۔ سفید ریش مردوں کے صبر کے پیمانے چھلک رہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوتوں کو غم زدہ سپاہی سلامی دے رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو اپنے ہاتھوں لحد میں اتار کر اوپر مٹی کی چادر تان رہے ہیں۔ پھر نئے تابوتوں کو بھرنے کے لیے مزید جاں بکف نوجوان مغربی سرحدوں کا رخ کررہے ہیں۔
دوسری طرف بیانات ہیں۔سیاسی بیان۔ کھوکھلے بیان۔اندر سے خالی بیان۔اخبارات کا پیٹ بھرنے والے بیان، الیکٹرانک میڈیا پر مکڑی کا جالا تاننے والے بیانات۔ مسکراتے بیان۔ ’’ دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔ قوم جاگ رہی ہے۔ کوئی کارروائی مورال کو کمزور نہیں کر سکتی۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔‘‘
جس دن اس قبیل کا بیان وزیر اطلاعات نے جاری کیا، اسی دن میڈیا نے خون میں ڈوبی خبریں سنائیں۔ جاں بحق ہونے والے 59ہوچکے تھے۔ سپردخاک کرتے وقت آہوں اور سسکیوں کے طوفان امڈے ہوئے تھے۔ لاشیں تاخیر سے دی گئیں تو مردہ خانے کے باہر پسماندگان نے احتجاج کیا۔ ورثا دھاڑیں مار مار کر روئے۔ ایک ہی خاندان کے نصف درجن جنازے اٹھے تو قیامت صغریٰ بپا ہوگئی۔ ایک بدنصیب جو نصیب آباد میں دفن ہوا ایسا بھی تھا جس کے ہاں بیٹے کی پیدائش دھماکے سے ایک گھنٹہ قبل ہوئی۔ سمندری میں ایک ہی خاندان کی 9لاشیں پہنچیں۔ رینجرز کے جوان بھی شہید ہوئے۔
دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے عوام کو وزیراطلاعات لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے کہ حکمرانوں کی حفاظت پر کتنے اہلکار مامور ہیں ؟ کتنے محلات پنجاب کے حکمران اعلیٰ کے لیے سرکاری رہائش گاہوں کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ شہر سے لے کر رائے ونڈ تک۔ ایلیٹ فورس کے کتنے نوجوان شاہی خاندان کی خدمت کے لیے مختص ہیں۔ ان سرکاری ملازموں پر ہر ماہ ٹیکس دہندگان کا کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے؟
حکومت اس سارے مسئلے میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے کے دوسرے دن میڈیا نے پوری قوم کو آگاہ کیا کہ حساس اداروں نے جن دو مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے ان میں سے ایک افغانی ہے۔ تفتیش کاروں کو بتایا گیا کہ انہوں نے ایک مدرسے میں پناہ لے رکھی تھی۔ جو شخص حملہ آور کی معاونت کے لیے قریب ہی موجود تھا اس نے بھی دھماکے کے فوراً بعد مدرسے میں پناہ لی۔
اس سارے المیے میں دو فیکٹر اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ ایک افغانی۔ دوسرا مدرسہ۔ بدقسمتی سے ان دونوں عوامل کے حوالے سے حکومت کے پاس سرے سے کسی پالیسی کا وجود ہی نہیں ! کیا حکومت کے پاس مندرجہ ذیل سوالات کے جواب ہیں ؟
1۔اس وقت ملک میں کتنے غیر ملکی مقیم ہیں؟ ان میں سے افغانوں کی تعداد کتنی ہے؟
2۔ یہ افغان جو واہگہ بارڈر کے پاس دھماکے کے بعد گرفتار ہوا، کیا اڑ کر وہاں پہنچایا اس نے سر پر کوئی طلسمی یا سلیمانی ٹوپی اوڑھی ہوئی تھی کہ کسی محکمے کی اس پر نظر نہ پڑسکی۔
3۔ افغان سرحد سے واہگہ بارڈر تک کتنے محکمے ، کتنی ایجنسیاں ، کتنے سرکاری افسر اور اہلکار غیر ملکیوں کی جانچ پڑتال کے لیے وقف ہیں۔ پاکستانی شہریوں کی گاڑیوں کو بلاسبب، جگہ جگہ روکنے کے سوایہ اہلکار دیگر کیا فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
4۔ لاہور شہر اور اس کے نواح میں اس وقت کتنے غیر ملکی آباد ہیں ؟
5۔ یہ غیر ملکی یہاں کس طرح پہنچے اور کس حیثیت سے رہ رہے ہیں؟
6۔ کیا حکومت بتائے گی کہ وزیراعظم کے دفتر سے دس منٹ کی مسافت پر، مری کے راستے کی آبادیوں میں کتنے غیر ملکی آباد ہیں؟ کیا حکومت کے پاس ان کے مشاغل اور ذرائع آمدنی کے بارے میں معلومات موجود ہیں ؟
7۔ چند ہفتے پیشتر میڈیا میں یہ خبریں نمایاں طور سے چھپیں کہ ترنول سے لے کر فتح جنگ تک کے علاقے کو ’’ منی وزیرستان ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ المیے کی دردناک اور ہولناک انتہا یہ ہے کہ زیر تعمیر(زمانوں سے زیر تعمیر) نئے ایئرپورٹ کے علاوہ حساس ترین مقامات اس علاقے میں ہیں۔ کیا حکومت عوام کوبتانا پسند کرے گی کہ اگر پہلے نہیں ، تو اب، ان خبروں کی اشاعت کے بعد، کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ یہاں کتنے ’’ غیرملکی‘‘ آباد ہیں اور اس پورے علاقے میں زمین اور رہائش گاہوں کی خریداری کے سلسلے میں سرکاری پالیسی کیا ہے؟
8۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردی کی خبروں کے ضمن میں مدارس کا ذکر آیا۔ یہ درست ہے کہ مدارس کی اکثریت دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیتی لیکن کچھ مدارس بہرطور یہ کام کرتے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس ایسے مدارس کے بارے میں معلومات ہیں ؟
9۔ آئندہ کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا حکومت نے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ مستقبل میں کوئی دہشت گرد کسی مدرسہ میں پناہ نہ لے سکے ؟ اگر کیے ہیں تو عوام کو ان کی تفصیل سے آگاہ کیاجائے۔
اس المیے کا دوسرا بڑا شکار، عوام کے علاوہ ، عساکِر پاکستان ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ گائے مشترکہ ہے۔ ایک فریق چارے کا بندوبست کررہا ہے۔ دوسرا صرف دودھ سے بالٹیاں بھر رہا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ صرف ضرب عضب سے نہیں جیتی جاسکتی۔ اگر ملک غیر ملکیوں سے بھرا پڑا ہے ، اگر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں جگہ جگہ واقع ہیں اور کوئی ان کے اندر بھی داخل نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کھیل زیادہ عرصہ کے لیے نہیں جاری رہ سکتا۔ اس لیے کہ کھیل کے اصول پامال ہورہے ہیں۔ عسا کرپاکستان، ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتے۔ جو کام پولیس اور متعلقہ محکموں کا ہے، وہ کام مسلح افواج نہیں سرانجام دے سکتیں۔ لیکن بے حسی کہیے یا نااہلی کہ فوجی جوان شہید ہورہے ہیں، عوام کے پرخچے اڑ رہے ہیں اور حکومت کے پاس غیر ملکیوں کے حوالے سے کوئی پالیسی ہے نہ ان اداروں کی اسے فکر ہے جو دہشت گردوں کو پناہ فراہم کررہے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مکان کی چھت پر بندوقچی کھڑے کردیے جائیں لیکن دروازے سارے کھلے ہوں!
واہگہ کے دھماکے کو اونٹ کی پیٹھ پر لدے ہوئے بوجھ کا آخری تنکا سمجھنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ عساکر پاکستان حکومت سے صاف صاف پوچھیں کہ ملک کے طول و عرض میں غیر ملکی کیوں دندناتے پھر رہے ہیں اور پناہ گاہیں کہاں کہاں ہیں اور کتنی ہیں ؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“