بس چل رہی ہے
شاید چھٹیوں کی وجہ سے رش تھا۔ابو کی کوشش سے اکٹھی تین والی سیٹ مل ہی گئی ۔
ورنہ بس میں بچے رل جاتے ۔
ابو ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ کر ایسے مطمئن ہوگئے جیسے میری رخصتی کے وقت ہوئے تھے ۔
حالانکہ ان کا کلف لگاسوٹ مسلا
گیا تھا۔مجھے معلوم ہے
ان کے کپڑوں کی شکنیں استری سے نکل جائیں گی۔مگر یہ نہیں پتہ کہ دل کی سلوٹ کیسے جائے گی ۔؟
بی اے کئے ابھی تیسرا مہینہ لگا تھا جب ابو کہنے لگے۔۔
"کڑئیے ، اس مَنجھی توڑ تعلیم کا فیدہ ۔اگے نہیں پڑھنا تو کوئی نوکری کرلے ۔اپنے جوتے کپڑے جوگی تو ہوجائے گی ".
دو چار بار سن کر میں چپ رہی ، آخر کہہ دیا۔
"نوکریاں چاچے انور کے جامن پہ نہیں لگتیں کہ بھری دوپہر چپکے سے گئے اور چھابی بھر لی ۔ویسے بھی بی اے پاس صرف ماسٹرنی ہی بن سکتی ہوں ".
ابونے پھر کبھی نوکری کا نہیں کہا
بھنی ہوئی مکئی کی خوشبو کھڑکی میں اتری تو پتہ چلا شانی نے بُھٹہ پکڑ لیا ہے ۔
ابو نے اپنی سیٹ پہ بیٹھے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تو میں نے جھٹ سے پرس کھولا ۔
"ایک کتنے کاہے” ؟
"تیس روپے کا "۔
دو اور بُھٹے لیکر چھلی والے کو سو کاآخری نوٹ دیا تو دس بقایا لیتے ہوئے ابو کو کانی آنکھ سے دیکھا ۔
وہ اب نہیں دیکھ رہے تھے.
میری کہانی کا دوسرا ہدائتکار میری ماں تھی ۔
سب ماؤں کی طرح جس کے دماغ میں بھی بیٹی بیاہنے کی ازلی ہُڑک جاگی رہتی ۔
اس کا خیال تھا کہ
اگے کیوں پڑھنا ہے ایویں فضول خرچہ۔۔
نہیں کرنی نوکری تو رشتے والی خالہ کو بلاتی ہوں، ڈھونڈے تیرے لیئے کوئی بَر۔۔!
میرا ہاسا نکل گیا۔۔
” ابو سے میرے جوتے کپڑے پورے نہیں ہوتے، جہیز کیسے پورا کریں گے۔۔؟
شادی بیاہ پہ جو خرچ کرنا ہے وہ مجھ پہ لگا دیں۔،دو چار سال اور پڑھ لوں، کم ازکم میرے تو دن پھر جائیں گے ۔”
میں نے اپنے سپنے اماں کی آنکھوں میں سجانے کی کوشش کی تھی ۔
سوچا تھا بس چلے گی تو یادیں دماغ سے نکل جائیں گی ۔مگر بس چلتے ہی پچھتاوے ساتھ دوڑنے لگے ۔
تینوں بچے چھلیاں کُتر رہے تھے اور مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ہم پانچ بچے ماں باپ کو کتُر رہے تھے ۔اسی جنجال پورے میں میرا اکھڑ پن باپ اور بیٹی کے بیچ فاصلہ بنا تھا۔ پھر کبھی ابو سے آگے پڑھنےکانہیں سنا۔
بس آگے جارہی تھی ۔زندگی وہیں رکی رہی.
امی بظاہر تو ہٹلر کی فوٹو کاپی لگتیں،پر اندروں اندریں بہت ڈرپوک تھی ، اسے بیٹیوں کو بیاہنا سوکھا لگتا تھا ، پڑھانا مشکل۔
زمانہ کیا کہے گا ۔؟
بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔
صرف ایک تو ہی بوجھ تو نہیں، ایک سل سرکے۔۔تو باقی دو بھی اٹھاؤں۔۔!
غیر کی چاکری سے سسرال کی نوکری اچھی۔۔۔
جوتوں کپڑوں سے تو نہیں رہے گی۔۔
ابو کا جھکا ہوا سر کچھ اور جھک جاتا ،کاش ابو تب ہی اماں کو ٹوک دیتے۔۔!
"میں بوجھ ہوں ۔”۔!
دل سسکنے لگتا ۔ پہلے کونسی خوشیاں چھاجوں برس رہی ہیں سفید پوش گھرانوں کی زندگی کس سے چُھپی ہے۔؟ صبح پیٹ بھر گیا تو شام کا پتہ نہیں۔
رشتے والی خالہ تو جیسے انتظار میں تھی،شام سے سویر نہ ہونے دی اور ہتھیلی پہ سرسوں کی طرح رشتہ لا جمایا۔۔وسوسوں بھرے دل
سے میں سسرال پہنچی تو صاحب بہادر کا مزاج عیاشانہ تھا ۔جہاں سُسر ٹیڑھے ہوں، وہاں سَس سیانی ہی ہوتی ہے۔
میری بھی ایسی ڈپلومیٹ کہ نہ اپنے شوہر کے آگے چوں چرا کرتی،نہ بہو کی شکائیت پہ کان دھرتی۔
اک چپ ہزار سکھ !
سسر کماؤ تھا تو بیٹا ویہلا نکما ۔
چنانچہ سال بھر کی روٹیوں کے سنگ جوڑے بھی دو ہی رہے ۔کبھی ہاتھ نہ کھلا۔۔
میں اچھی بھلی راہ سے کراہ پڑ گئی ۔
کبھی اماں کی عقل پہ غصہ آتا ۔
واہ نی میرئیے مائیں ۔دو جوڑے ایک جوتی کے عوض اچھی نوکری لگوایا ہے! زندگی گرم پانی میں ڈوبی نمک کی ڈلی بن کر رہ گئی ، نہ بھی ہلاؤ پھر بھی گھلتی ہی جائے۔کاش ابو آپ ہی کچھ کہہ ہی دیتے۔؟
میں نے سر گھما کر ابو کی جانب دیکھا جو ساتھ والے مسافر کے ساتھ جانے کس بین الااقوامی مسئلے میں الجھے ہوئے تھے ۔
بچے موبائل کیلئے لڑ رہے تھے۔تو میں نے چھوٹی کوثر کو گود میں لےلیا ۔ اسے کھڑکی سے باہر دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔
بچیاں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بہل جاتی ہیں ۔جیسے میں اپنے سارے سپنے جہیز کی پیٹی میں رکھ کر ساتھ لے آئی تھی کہ شائد ظہیر انہیں اپنی آنکھوں میں سجالیں! ۔۔
کئی سال تک میرے کالج کا یونیفارم رضائیوں، کھیسوں کے بیچ پڑا سڑتا رہا ۔بہت دنوں تک خواب میں کالج کے ٹانگے والے کی ٹخ ٹخ پکارتی رہی۔کیا دن تھے یونیفارم پہننا، تیار ہونا،نیند میں بھی فکر رہتی کہ مجھے کالج جانا ہے۔
کچے خواب ٹوٹ جائیں تو صبر نہیں آتا۔
جوتوں کپڑوں کی یہ قیمت بہت زیادہ تھی ۔
اب نہ دن اپنا تھا نہ رات۔
صرف وہ اپنا تھا جس کا کردار ابو کے سوٹ کی طرح سلوٹوں بھرا تھا ۔
تین سال میں تین بچے ہوئے تو سسر کی آنکھ بند ہوگئی ۔مگر بچوں کی ضرورتوں نے میری آنکھیں کھول دیں.
زندگی ایسے کیسے گزرے گی۔؟
سسر کے مرنے کے بعد توظہیر کا گھر میں دخل ویلے کویلے تک ہی رہ گیا تھا۔
میں جن دنوں دستیاب نہ ہوتی تو وہ بھی نہیں رہتا۔
آخر کار ان گنت تھپڑوں کیساتھ تین لفظ طلاق کے سمیٹ کر ابو کو فون کیا.
ابو آئے تو انہوں نے کچھ نہیں پوچھا ،بیٹی کا حال نواسوں کی حالت بتارہی تھی ۔
نظریں چراتے ہوئے بس اتنا کہا
"غریب کی بیٹی کو بَر۔۔ایسا ہی ملتا ہے۔میں کہتا تھا ناں ۔نوکری کرلے”
میرے دل سے آہ نکلی، کوشش کے باوجود نہیں کہہ سکی ۔
کاش آپ کی بات مان لی ہوتی.
کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا تو ابو نے ہزار کا نوٹ نکال کردیا ۔
” کتنی سواریاں ہیں "؟
ابو نے ایک نظر مجھے دیکھا ۔
"چار سواریاں "
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...