جوگیندرپال نے اپنی عمرِ عزیز کے اسّی سال پورے کرلئے۔
ایک خیال کے مطابق ان کی پہلی کہانی ۴۵-۱۹۴۴میں شائع ہوئی تھی۔ اس طویل مدّت میں انھوں نے اردو افسانوی ادب کو تقریباً دس افسانوی مجموعے، چھ ناول یا ناولٹ، اس کے علاوہ سفر نامے،آپ بیتی، مضامین، مکالمے اور نجانے کیاکیا۔ تقریباً ساٹھ سال کے پھیلے ہوئے سفر میں انھوں نے اتنا لکھا اور اس قدر لکھا کہ بقول جوگیندرپال کہ وہ اپنے آپ میں بے شناخت ہوگئے جبکہ ان کی اپنی شناخت ہونی چاہئے لیکن ریاضت و عبادت کی ایک منزل گمشدگی کی بھی ہوا کرتی ہے۔ پال کے ساتھ یہی ہوا کہ وہ کہانیوں میںگم ہو گئے اور کہانی ان میں گم ہو گئی۔ ایک اسٹیج یہ آئی کہ ان کو کہنا پڑا—”میں کہانی نہیں لکھتا۔ کہانی مجھے لکھتی ہے“۔ انھوں نے کہانی کے بارے میں۔ ادب کے بارے میں، زندگی کے بارے میں فکروفلسفہ کے ایسے ایسے نکتہ ہائے دور رس چھیڑے، ایسے ایسے رموز و نکات وا کئے، ایسی ایسی فلسفیانہ مو شگافیاں کیں کہ شاید ہی ان کے عہد کے کسی فنکار نے ایسا اور اس انداز سے سوچا اور لکھاہو—اس لئے کہ جوگیندرپال صرف سادے اور سپاٹ سے افسانہ نگار نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مفکّر، دانشور اور اسکا لر بھی ہیں۔ ان کے اندر کا فنکار ہمہ وقت ان اوصاف سے متصادم رہا ہے اور شکست وریخت کا شکار بھی رہتا ہے۔ کبھی افسانہ فلسفہ پہ غالب اور کبھی فلسفہ افسانہ پر حاوی۔ جس سے یہ تو اندازہ ہوتا ہی ہے کہ انھوں نے صنفِ افسانہ کو محض تفنن طبع کی چیز نہیں سمجھا بلکہ فلسفۂ حیات کا موثر پیرایۂ اظہار جانااور گردانا۔ کچھ یہ بھی کہ انھوں نے صرف عمر نہیں کاٹی بلکہ زندگی بسر کی ہے۔ دردر کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ پاکستان سے پنجاب، پنجاب سے نیروبی، اورنگ آباد اور پھر آخر دہلی ان کا مسکن ٹھہرا — – ہجرتوں اور اذیتوں سے بھری یہ دربدری انھیں ٹھوکریں تو کھلاتی رہی لیکن ان کے عقل و خرد کے در کھولتی رہی۔ ان کی حسیت کے بال و پر وا کرتی رہی جس سے ایک جوگیندرپال مرتا رہا تو دوسرا پیدا ہوتا رہا۔ فکر و خیال کے در بھی کھلتے اور بند ہوتے رہے۔ آپ اتفاق کریں یا اختلاف لیکن ان کی سنجیدگی و سپردگی، بلاغت و بصیرت سے انکار نہیں کر سکتے۔ ان کا مفکرانہ ذہن، ان کی دانشورانہ بصیرت اور ان سب پر حاوی ان کی خلاقانہ صلاحیت نے معاملاتِ قلب و جگر یا وارداتِ جنّ و بشر کو چلتے پھرتے انداز سے نہیں لیا۔ اس میں فکروفلسفہ کی ایک دنیا تلاش کی۔ تحیرو تجسس کے ہیولے تیار کئے اور اردو کے افسانوی ادب کو ایسے ایسے افسانے اور ناول دئیے جن کا جوگیندرپال سے قبل تصور کر پانا مشکل تھا۔ ان کے مجموعوں کے عنوان ہی دیکھئے۔ میں کیوں سوچوں، مٹی کا ادراک، لیکن، بے محاورہ، بے ارادہ، کھلا وغیرہ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جوگیندرپال سے قبل اردو کہانی میں فلسفہ نہ تھا۔ پریمچند جیسے سادہ سمجھے جانے والے افسانہ نگار کے یہاں بھی زندگی کے فلسفے رچے بسے تھے لیکن وہ کہانیاں پہلے تھیں فلسفہ بعد میں۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے بھی زندگی کی بے رحم و برہنہ حقیقتوں کو فلسفہ بنانے کی کوشش کی لیکن جوگیندرپال کی دنیا ان سب سے الگ ہے۔ الگ اس لئے کہ ان کاسفرِ حیات بھی خاصا مختلف ہے اوران کا دورِ حیات بھی– اس لئے کہ جوگیندرپال نے جب ہوش و حواس کی آنکھیں کھولیں ترقی پسند افسانہ روبہ زوال تھا اور جدیدیت کا دور دورہ تھا۔ سب کچھ نیا نیا اور عجیب و غریب تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ نیا پن جوگیندرپال کا اپنا ہے یا جدیدیت سے مستعار۔ یہ سوال اس لئے بھی جنم لیتا ہے کہ جس فنکار کا پہلا مجموعہ دھرتی کا کال (۱۹۶۱ء) اور اب تک کا آخری مجموعہ کھودو بابا کا مقبرہ (۱۹۹۴ء) ان کے عنوانات میں ایک معنوی ربط ہے۔ لیکن درمیان کا سفر بے محاورہ ہے اور اس میں خاص قسم کی بے ارادگی لیکن اس بے ارادگی میں ارادہ کا سراسر دخل۔ کبھی فلسفی فنکار کے یہاں بے ارادگی میں ارادہ اور ارادہ میں بے راہ روی جھلکتی ہے جو اکثر سیدھے سادے قارئین و ناقدین کو گمراہ بھی کر دیتی ہے۔ اس لئے جوگیندرپال جیسے سنجیدہ گہرے فنکارانہ انتشار یا انتشاری فکروفن میں غرق افسانہ نگار کو صراطِ مستقیم میں سمجھ نہیںجا سکتا۔ اس کے لیے ان کے افسانوں سے قبل ان کی تحریروںکو سمجھنا ہوگا جو انھوں نے اپنے اور اپنے افسانوی سفر یا نقطۂ نظر کے بارے میں رقم کی ہیں۔ اکثر ان حوالوں سے فن اور فنکار کے مابین کنفیوژن بھی پیدا ہوتا ہے تاہم یہ تو سمجھا ہی جا سکتا ہے کہ ان تحریروں میں ایک فن کار، افسانہ نگار، افسانہ اور افسانۂ حیات کو کس قدر اور کن صورتوں میں سمجھتا اور پیش کرتا ہے۔
جوگیندرپال کی اچھی یا بری بات یہ ہے کہ وہ زیادہ لکھتے ہیں اور زیادہ لکھتا بھی وہی ہے جو زیادہ سوچتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ سوچ اور فکر ہی انسان کا سرمایۂ افتخار ہے اور سرمایۂ اظہار بھی، بالخصوص ایک فنکار اور افسانہ نگار کیلئے ،لیکن سوچ میں ترتیب و توازن ، خیال و استدلال کی بھی ایک منزل ہوتی ہے جو بڑی مشکل سے آتی ہے ۔ جس کے لئے صرف علم کافی نہیں بلکہ عمل اور عملی سروکار بھی نا گزیر ہوا کرتے ہیں۔ کسی فنکار کے یہاں اس کی ضرورت سے زیادہ تلاش بے سود سی معلوم ہوتی ہے کہ فنکار بہرحال پہلے فنکار ہے مفکر و دانشور بعد میں۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر فنکار میں مفکر اور انسان ، علم اورگیان دھیان کچھ اس طرح مدغم ہو جاتے ہیں کہ قارئین تو کیا خود مصنف کو بھی دونوں کو الگ الگ کر پانا مشکل ہوا کرتا ہے۔ جوگیندرپال کی خوبی یا خرابی یہی ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ یہی ان کی اصل شناخت ہے جسے وہ بے شناخت کہتے ہیں ذرا ان کی یہ تحریر ملاحظہ کیجئے:
”بحیثیت ادیب میں اپنی ذات میں بے شناخت ہوں یا میری شناخت کے نقوش کائنات کے سبھی مظاہر میں مُضمر ہیں۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہی بن جاتا ہوں۔ یہی میری شناخت ہے۔“
ایسے فلسفیانہ خیالات بلکہ ارتعاشات ان کی ابتدائی تحریروں میں کم بعد کی تحریروں میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں چنانچہ بعد کے دور کی تحریروں کو زیادہ غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تضادات و تصادمات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ایک مفکرودانشور فنکار کے یہاں فکری، فطری انداز سے مدغم ہو جایا کرتے ہیں۔ انھیں اختلاف کی رو سے کم ،اور امتزاج و ابشتراک کے حوالے سے ہمدردی سے پڑھے اور سمجھے جانے کی ضرورت ہے۔
جوگیندرپال کا ایک مضمون ہے خودو فاتیہ (Self Obituery)عجیب و غریب مضمون جو ،جوگیندرپال ہی لکھ سکتے ہیں جس کے پہلے حصّہ میں زندگی کا جغرافیائی سفر ہے، پڑاﺅ ہے۔ انبالہ، سیالکوٹ، نیروبی، اورنگ آباد اور پھر دہلی–یہ سارے پڑاﺅ بلکہ چار جنم—جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
”یقین کیجئے کہ مجھے اپنے پچھلے چاروں جنم ہو بہو یاد ہیں۔ پہلے میں سیا لکوٹ میں پیدا ہوا اور بائیس برس تک جیا۔ پھر انبالہ میں میری پیدائش ہوئی اور ابھی میں کوئی ڈیڑھ برس کا ہی تھا کہ میرا انتقال ہو گیا اور میں نے نیروبی میں آنکھ کھولی۔ اورنگ آباد میں میرے چوتھے جنم کے دوران میرے ایک دوست صفی الدین صدیقی نے مجھے بتایا کہ تمھارے پُرکھے ضرور کبھی نہ کبھی یہیں آبسے ہوںگے اور یہیں ڈھیر ہوئے ہو ںگے ورنہ تم سمندر پار سے ایک یہیں کیوں آتے؟۔۔۔ اجنتا ایلورا کی بعض تصویروں میں ڈھیروں عام لوگوں کے اجتماع بھی شامل ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہراک کے چہرے پر نظریں گاڑ کر سوچتا یہی میرا پہلا پُرکھ تو نہیں جو قدروں سے قطع نظر صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے بڑی معصومیت سے کرشن یا کنس کے ساتھیوں میں شامل ہو گیا تھا اور اب اپنے اس پانچویں جنم میں دلی آ پیدا ہوا۔“
کتنے سفر، کتنے پڑاؤ اور کتنے مقاماتِ آہ و نفاں، جددجہدِ حیات،پہلے افکارِ حیات اور پھر اس کے بعد فلسفۂ حیات میں تبدیل ہوتے رہے، اس لئے کہ جو گندر پال ایک عام آدمی نہ تھے ایک فنکار اور افسانہ نگارہونے کے ناتے حقیقت افسانہ اور افسانہ حقیقت میں تبدیل ہوتے رہے۔ وہ کبھی تنہا نہیں رہے۔ کہانی ہمیشہ ان کے ساتھ رہی اپنی تمام تر اذیتوں و ہجرتوں کے ساتھ، گیان اور دھیان کے ساتھ۔ اذیتوں و ہجرتوں سے نئی نئی سچائیوں کے باب روشن ہوتے ہیں۔ جب وہ اورنگ آباد میں تھے تو ان کی فکر یہ تھی :
”نئے امکانات کی ٹوہ میں اپنی سرگرمی میں کہانی کو و قوعے کے کھلے میں پاؤں پاؤں نہتے جا لینے کے بجائے ہم راستے میں علوم کی بکترنبد گاڑیوں میں جابراجمان ہوئے—-“
یا یہ جملہ دیکھئے :
”ایک فنکار ہونے کے ناتے بھی مجھے سدا الفاظ کی خارجی خلل اندازی سے چڑسی رہی ہے۔ فن اور زندگی ہر دو میں بات بنے تو تب ہی بنتی ہے—-“
یہ وہ دور تھا جب جدیدیت کے دھند لے بادل ادب کی فضا میں منڈلا رہے تھے اور اس کی یا اورنگ آباد کی سرد و گرم فضا میں جو گیندر پال بھی بہہ رہے تھے یا یوں کہئے کہ ان کی دانشورانہ افتادِ طبیعت جدیدیت کو راس آرہی تھی کہ سب کچھ کھُلا کھُلا سا نہ ہو کہ زندگی ندات خود جتنی کھلی ہے اتنی ہی بند بھی ہے اور اس کے معاملات —-”اک معّمہ ھے سمجھنے کا نہ سمجھنے کا“—-لیکن کہانی کے تعلق سے اس کی کچھ اپنی بھی حقیقتیںہوا کرتی ہیں جن کا علم و عرفان ذرا دیر سے ہی ہوا کر تا ہے تو پھر اسی قلم سے ایسے جملوں کا برآمد ہونا فطری ہوتا ہے :
” اعلیٰ سے اعلیٰ علم جب گھٹنا میں گھٹ کرپیش نہیں ہوتا اس وقت تک بے سیاق اور غیر آباد ہونے کے باعث با معنی نہیں ہوتا—-“
اور وہ جلدہی”میں“ یا ”میں بھی“ کے حصار سے نکل آتے ہیں یعنی کھل جاتے ہیں اور بے ارادہ، بے محاورہ لکھی جانے والی کہانیوںمیں عرفان و آگہی کا در کھلتا ہے اور پھر اپنے ایک اہم مجموعہ کا نام ہی” کھلا “رکھتے ہیں اور لکھتے ہیں:
”ساری عمر بیت جانے پر کہیں کھلے میں سانس لینا نصیب ہو تو ہو اور ایسا ہو پا ئے تو ڈھلتی عمر زندگی بھر کی تگ و دو کا انعام معلوم ہوتی ھے۔ اپنی یہ نئی کہانیاں مجھ پر اس طرح بیتی ہیں کہ اپنے ان کرداروں پر مجھے اپنے آپ کا بھی گمان ہوا ہے اور مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں نہیں رہوں گا تو کیا؟یہ سارے کردار تو رہ جائیں گے۔ زندگی کا جو ہر تو وہی ایک ہے ۔اپنی تخلیق میں مستقل ہو جانے کی جہد، ازل سے انسان کی اس چاہ سے عبادت رہی ہے کہ وہ اپنی عدم موجودگی میں بھی آئندہ کی برتر کی زندگی میں برابرشریک ر ہے۔ میں بھی عین فطری طور پر پہلے بہ تامل اور رفتہ رفتہ بے تامل اسی کھلے میں اُترتا چلا گیا کہ اپنے وجود سے باہر اور وں میں بھی جی پانے کی خواہش پوری کر سکوں“
اس بے تامل کھلے پن نے ایک نئے اور اہم جو گیندر پال کو جنم دیا۔ زندگی سے تو وہ پہلے بھی ورستیہ تھے لیکن انفرادی انداز میں، اپنی ذات کے حوالے سے، لیکن اس وسعتِ نظرسے انھیں اپنے وجود سے باہراوروں میں بھی جی پانے کی خواہش ہونے لگی،ایسا نہ تھا کہ سب کچھ ان کی اپنی ذات ہی تھی کائنات نہ تھی لیکن اس کا حوالہ محدود مشروط ضرور تھا لیکن وسعتِ نظر نے زاویۂ نظر کو تبدیل کا اور وہ ترقی پسند فکر جس سے وہ دور دور تھے قریب آنے لگے۔ دلّی جیسے بڑے شہر کے تقاضے بھی اورنگ آباد سے بہت مختلف تھے۔ یہ شہر صرف ایک شہر نہ تھا بلکہ ایک تاریخ و تہذیب، ایک زندگی تھا، جگمگاتے ہوئے اس شہر کو کھلی آنکھوں سے دیکھا تو کمبخت نابینا لگا اور انھوں نے نادید جیسا اہم ناول لکھ ڈالا جو اورنگ آباد جیسے شہر میں نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ دلی کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
”دلّی آکر مجھے یہ سہولت فراہم ہوگئی کہ کہانیوں سے ساتھ پڑے پڑے ایک پورا یگ بِتادوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرا یہ تمام عرصہ گھر سے باہر ہی گزرا اور میری خیریت کی اطلاع دوستوں کو میرے کرداروں کے ذریعہ ہی بہم پہنچتی رہی۔ ان دوستوں میں جو نقاد تھے وہ کبھی اتفاقی ملاقات پر چھوٹتے ہی میرے کرداروں کے اَن ہونے پن کی شکایت کرنے لگتے۔ اب میں کیا کہتا۔ نقاد حضرات کا ذکر اس اصطلاح کے جامد معنی میں کرتے ہیں ۔ سچائی یہ ہے کہ ہر کہانی کا کوئی وقوعہ یا کردار بذاتِ خود قابلِ یقین ہوتا نہ ناقا بلِ یقیں۔ بلکہ جیسا بھی ہوتا ہے کہانی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جسے ہم یا ہمیں جو کچھ بھی پیش آتا ہے ہماری مخصوص زندگی کے حوالے سے۔ اگر کسی کہانی کا کردار کہانی میں واقعی بس جائے تو بظاہر ان ہونا معلوم ہونے کے باوجود سچ مچ ہوتا ہے اور کہانی اسی کی طبع زاد منطق کے مطابق ناگزیر انجام پاتی ہے۔ “
زمیں بدلی، فلک بدلا، نظامِ زندگی بدلا توزندگی کا اندازِ نظر بھی بدل گیا۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ وہ دماغ سے زیادہ دل کی طرف مڑ گئے—”میں؟ مجھے کیا پتہ تھا۔ بھیڑ میں کہیں کچھ کھویا ہوا تھا لہٰذا موقع پاتے ہی اپنی تلاش میںدل کی طرف منہ موڑ لیا۔“
جوگیندر پال انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر ہو گئے۔ ایک سوچ اور نظریہ کے ساتھ۔ کئی سال صدر رہنے کی وجہ سے انھوں نے نجانے کتنی کانفرنسیں، سیمینار مذاکرے وغیرہ میں شرکت کی۔ اب ان کا مکالمہ اپنی ذات سے کم اپنے عہد سے زیادہ ہونے لگا۔ پندرہ بیس سال کے اس سفر میں اگرچہ ان کے دوہی مجموعے آئے ’کھلا‘ اور ’کھودو بابا کا مقبرہ‘ لیکن اس عہد کے افسانوں میں ان کا نظریہ، وژن اور کھلاپن واضح طور پر سامنے آیا اور اسی دور میں انھوںنے عفریت، گرین ہاﺅس، فاختائیں، کھودو بابا کا مقبرہ جیسے عمدہ اور اہم افسانے بھی خلق کئے اور مشہور ہوئے۔ کھودو باباکا ، اورگنگا رام، رحمن بابا، جیسے عوامی کرداربھی ان کی کہانیوں میں مرکزی حیثیت اختیارکرنے لگے اور وہ زندگی کی کھلی شاہراہ پر آکر زندگی کی عام سی صورتوں سے آنکھیں چار کرنے لگے۔
نیا سفر میں مطبوعہ ان کا تازہ مضمون’ مکالمہ اپنے عہدسے‘ میں اگرچہ اکثر خیالات نئے نہیں ہیں تاہم اس میں مہک نئی نئی سی ہے۔محفلوں کی گہما گہمی دوستوں کی بے تکلفی ، شراب نوشی وغیرہ کا ذکرتو ہے ہی لیکن اسی سرور میں یہ سچی بات بھی ہے:
”اورنگ آباد پہنچ کر کہانی میں میری دلچسپی اتنی بڑھ گئی تھی کہ سارا دن کالج کے بعد میں ساری رات لکھنے پڑھنے میں بتا دیتا اور اس سے بھی خوشگوار بات یہ ہوئی کہ میں کہانی کی سیدھی راہ سے بھٹک گیا اور متعین اور محفوظ مقام پر جا لینے کے بجائے بھٹک بھٹک کر بعض نئے مقامات کی ٹوہیں محسوس کرنے لگا۔ جن کی واضح تر شناخت سے میں ابھی جوں کا توں قاصر تھا۔“
دن رات کی عبادت صراطِ مستقیم پر لاکھڑا کرتی ہے لیکن ادب کی منزلیں نرالی ہوتی ہیں وہ صرف عبادتوں سے طے نہیں ہوتیں اس کے لئے گمرہی اور بھٹکاﺅ ضروری ہے۔ جوگیندر پالجو بھٹکاﺅ کو ضروری عمل مانتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ جب تک ٹھوکریں نہ ہو دنیا ٹھوکر میں نہیں آتی۔زندگی کا تیکھا و سچا عرفان بھی نہ ہوگا۔ نئے نئے امکانات اور مقامات تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی اس لئے کہ بڑی فنکاری، عظیم دانشوری، راستی میں گمرہی اور گمرہی میں راستی تلاش کرتی رہتی ہے اور نامکمل پن کا اضطراب اسے در در پھراتا رہتا ہے۔ جو لوگ کہانی کو صرف ایک ادبی و تخلیقی عمل سمجھتے ہیں وہ ان رموز و نکات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، جو کہانی میں زندگی کی حقیقت اور حقیقت میں نروان کی راہ تلاش کرتے ہیں وہ ہمہ وقت واضح نشانات اور امکانات سے قاصر و محروم ہی محسوس کرتے ہیں۔ جوگیندر پالکے اس تفکرانہ و مجاہدانہ عمل نے جہاں سہل پسند قارئین و ناقدین کے سامنے مشکلیں کھڑی کیں۔ ان کے بارے میں بڑے بڑوں کی ایک مخصوس رائے قائم ہونے لگی۔ وزیر آغا نے لکھا:
” جوگیندر پال ان ادیبوں میں سے ایک ہیں جن کی تحریروں میںسوچ کا عنصر روشنی کی درخشندہ گزرگاہوں کی طرح صاف نظر آتا ہے۔ادب میں سوچ کے عنصر کی آمیزش ایک نہایت نازک کام ہے کیونکہ ذراسی کو تا ہی بھی تحریر کو ادب کی سطح سے نیچے اتار کر صحافت کی سطح پر لا سکتی ہے۔“
پر وفیسروہاب اشرفی نے بھی کہا :
”جوگیندر پال کا افسا نوی ماحول سطحی نظر میں افسا نوی نہیں معلوم ہوتا۔مجھے احساس ہے کہ وہ حضرات جو افسانے کو کومل نازک سیدھا سپاٹ فن سمجھتے آئے ہیں انھیں جوگیندر پال کو پڑھ کر سخت مایوسی ہوگی۔“
مثالیں اور بھی ہیں جن میں ان کی شکل پسندی پر اتفاق ہی کیا گیا ہے۔ ایک نئے ناقد ارتضیٰ کریم جنھوں نے جوگیندر پالکے فکر وقت پر وقیع کام کیا ہے۔ وہ بھی کہتے ہیں :
”دراصل جوگیندر پال گہرے فکر کے آدمی ہیں چنانچہ ان کے افسانوں کی قرأت اگر عام افسانوں کی مانند کی جائے تو پھر یہ افسانے‘ افسانہ کے زمرے سے ہی باہر نظر آئیںگے۔ چونکہ اس میں بظاہر نہ تو کہانی پن کا گمان ہوگا نہ ہی آغاز، انتہا اور نہ کوئی نقطہ عروج۔ کہا جا سکتا ہے کہ جوگیندر پال کے فکشن کی اپنی بوطیقا ہے۔“
غور کرنے کی بات یہی ہے کہ یہ بوطیقا کیا ہے اور اس بوطیقا کا بوجھ افسانے کا فن اُٹھا سکنے کے لائق ہے یا نہیں ؟جیسا کہ ارتضیٰ کریم نے بھی سوال قائم کیا :
”اگر جوگیندر پال کے فن کی شناخت استفہام اور فلسفہ میں پوشیدہ ہے تو کیا کہانی کافن، فلسفہ کی پیچیدگی اور خشکی کا بار اُٹھانے کا متحمل ہے نیز کیا جوگیندر پالفلسفہ کو کہانی میں یا کہانی میں فلسفہ کو پیش کرتے ہوئے کہانی کے بنیادی تقاضے یعنی کہانی پن یا دلچسپی کو پورا کرتے ہیں—-“
عام قاری، سطحی نظر، صحافت یا کہانی پن سے متعلق جوگیندر پالکی کہانیوں کے حوالے سے بہت سارے سوالات قائم ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیے کہ ایک بڑے فنکار کی عظمت اور معنویت ان سوالوں میں بھی پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔ ڈی ۔ ایچ۔لارِنس نے بھی کہا تھا کہ بڑے فکشن کا نقطہ عروج یہ ہوتا ہے کہ وہ فلسفہ ہو جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب میں فلسفہ کی منزل ہمیشہ بعد میں ہی آتی ہے۔ ادب پہلے ادب، فکشن پہلے فکشن ہوتا ہے۔ بڑا فن ہمیشہ آسانی سے مشکل کی طرف جاتا ہے اور وہ عظیم بھی اسی لئے ہوتا ہے کہ خاص قاری سے لے کر عام قاری تک کا آئینہ بن جاتا ہے۔ جس میں ہر سطح کا قاری اپنے عکسِ جمیل کا نظارہ کر لیتا ہے۔ بڑا ادب، بڑاافسانہ زندگی کے مختلف شیڈ، مختلف رنگوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ اسی لئے پال ہمیشہ زندگی کی ہی بات کرتے ہیں یہ ضرور ہے کہ وہ پہلے رمزیہ اسلوب اپناتے ہیں بعد میں کھلے انداز کو اختیار کرتے ہیں ۔ان کے افسانوں میں بھی یہی عمل کارفرما ہے کہ وہ شروع ہوتا ہے بوجھل انداز میں لیکن جیسے جیسے آگے بڑھیئے اس کی پرتیں کھلتی ہیں اور پھر کھلتی ہی چلی جاتی ہیں کہ اس میں زندگی کے وسیع تجربات و امکانات پوشیدہ رہتے ہیں۔ فنکار حساس ہو اور اس پر مفکرو دانشور بھی تو پھر دلّی جیسے شہر سے بھی چین و سکون کہا۔ اسے تو سارتر کا یہ فلسفہ ہی راس آتا ہے کہ احساسِ غم ہی اعلیٰ ترین تحریروں کا زاویہ اور راستہ ہوا کرتا ہے تبھی تو کسی شاعرنے بھی کہا تھا—غم گیا ساری کائنات گئی—لیکن موجودہ دور میں ادیب غم اور نقصان کا کوئی کھیل کھیلنے کو تیار نہیں۔ زندگی کے تمام غموں کے ساتھ پال کو یہ بھی غم ہے۔ کیا بلیغ بات کہی ہے:
”زندگی کتنی دشوار ہے اور مشرق میں ہم اس ڈائلما کے عناصر سے ہی دو چار رہتے ہیں۔ ہماری مشکل شاید یہ ہے کہ ان عناصر کے تاکیدی ادراک کی پہلی اور آخری شرط عبادتی انہماک ہے جسے ہم بیشتر لکھنے والے اپنے اپنے روٹین سے خارج رکھتے ہیں اور یوں اپنے آپ کو تلاش و انکشاف کی واردات سے محروم کر دیتے ہیں اور اپنے نام کی ہجّے لکھ لکھ کر ہی سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی تخلیقی مہم سر کرلی۔“
پال کی دانشورانہ شخصیت اور خلاقانہ فنکاریت کا سب سے بڑا وصف یہی عبادتی انہماک ہے جس نے ان کو ادب کا پجاری، افسانے کا صوفی اور گیان دھیان کا مسافر بنا دیا ہے۔ افسانوی ادب میں تاریخ، فلسفہ، اشتراک، جمال وغیرہ سب کچھ ہے لیکن گیان دھیان اور فلسفہ کے ایسے عناصر کم کم ہیں جو تصوف اور بھگتی کی راہوں پر پہلے بھٹکے پھر سنبھلے یا سنبھلے پھر بھٹکے۔ ایسی مبہم صورت میں افسانہ کو افسانہ بنے رہنا، روایت کا روایت بنے رہنا، قرأت کا قرأت بنے رہنا مشکل تو ہے۔ افسانے کی مشکل تو ہم سب سمجھنے کو تیار ہیں لیکن زندگی کی وہ مشکل جو پال کے قلب و جگر میں فلسفہ بن کر پیوست ہوگئی ہے وہ کون سمجھے اور کیسے سمجھے۔ زندگی بھر کا علم، تجربہ، فلسفہ بھی چھوٹا لگنے لگے اور یہ دنیا بھی:
”زندگی کے ان آخری دنوں میں مجھے ساری دنیا چھوٹی سی معلوم ہونے لگتی ہے اور مرنا اس لیے واجب لگتاہے کہ ایساہوپانے پر میرابے انت سے بھی مکالمہ ہوگا—کیسے؟—کس زبان میں؟—عربی میں؟ — – سنسکرت میں؟—کس زبان میں؟—اورکس میں؟ اپنی تخلیقی زبان میں!—تو آئیے، اُس تخلیقی زبان کی تہذیب کے قابل ہوپانے کی تدبیر کریں۔“
زندگی کے نروان کا راستہ نکل آئے تو ادب اور فکشن کا راستہ تو خود بخود نکل آئے گا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ادب ہویا فکشن یا دوسری اصناف، زندگی کے عرفان اور نروان کے ہی ذرائع ووسائل ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے فنکار و فلسفی، جو مشکل راستوں کو آسان بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ہر چند کہ اس جدوجہد میں اکثر یہ خطرہ بھی بنا رہتا ہے کہ اس کی شدتِ عبادت اس کی ذات کو تو نروان کی منزل پر پہنچادیتی ہے لیکن اپنے پڑھنے والوں کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے بصیرت، بلاغت اور حکمت کے ایسے ایسے مراحل و منازل چھوڑ جاتا ہے کہ جن پر روشنی کم پڑتی ہے، سر مغزی زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہ عمل شعبۂ فلسفہ کے لئے تو قابلِ قبول ہوتا ہے لیکن شعبۂ ادب کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
جوگیندرپال نے جدوجہد، تگ ودو، مطالعہ و مشاہدہ سے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ دیا۔ بے پناہ سنگھرش، بے لوث عبادت اور بے غرض خدمت میں معصومانہ و مفکرانہ انداز سے کچھ ایسا غرق ہوئے کہ انجانے میں یہ فلسفہ ہاتھ سے نکل گیا کہ ادب کی تکمیلیت و دائمیت میں جتنا دخل فکرو فلسفہ کا ہوتا ہے اتنا ہی اس کی پیش کش میں سادگی اور سہل انگاری کا۔ جتنا خواص کا اتنا ہی عوام کا۔ یہاں مشکل میں آسانی ہے اور آسانی میں مشکل۔ یہی وجہ ہے کہ کوری مشکل پسندی اور پیچیدگی عظیم ادب کا مقبول حوالہ کبھی نہیں بن پاتی۔ عوامی سطح پر اس کی مقبولیت ، مقبولیت کی نفی کر جاتی ہے۔ ادب کی اُفتادِ طبع اور اس کا فطری مذاق بالخصوص کہانی کا مقبول ترین ان امور کا متحمل نہیں۔ زندگی کے تقاضے کچھ اورہوتے ہیںادب کے کچھ اور—اور کہانی کے تو بالکل ہی کچھ اور—یہ تو کہنے سننے کے عمل میں ہی سب کچھ کہہ جایا کرتی ہے اس لئے بیانیہ ناگزیر ہے۔ مشکل بات کو اگر مزید مشکل انداز سے کہا جائے تو کیا فن کا حق ادا ہوسکے گا۔ لطف تو یہ ہے کہ بڑی سے بڑی پیچیدہ اور گھمبیر بات کو آسان بنا کر پیش کیا جائے۔ دنیا کا بڑا ادب، بڑافکشن انھیں بنیادوںپہ کھڑا ہے اسی لئے وہ خواص و عوام دونوں میں یکساں مقبول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔