چہار درویشنیں ؛ قسط نمبر 04-
’ شفیق زادہ ‘ کے قلم سے، جدید دور کی ایکتا کپوری ٹرینڈ بیویوں کا دھماکہ خیز اتحاد جس نے راہ میں آنے والی ہررکاوٹ کا تورا بورا کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی
گذشستہ سے پیوستہ ——–
جلی رسّی کا بَل :
پھر یوں ہوا کہ سیم و تھور کی ماری زمینیں ایک ایک کر کے کوڑیوں کے مول بکتی گئیں، چنانچہ ایک ایسا وقت آیاکی نہ جاگیر رہی نہ جاگیرداری۔ خالو کی جاگیرداری گئی تو اُنہوں نے مکھن خور نوکیلی مونچھیں منڈوا کر ایک نوکری پکڑ لی کہ دال دلیے کا آسرا چلتا رہے، مگر وڈیروں اور جاگیرداروں نے بھی بھلا کبھی کسی کی خدمت کی ہے؟ پیغام بہت سادہ تھا، ’لُوٹ نہیں تو لُٹ‘ ،جس کے بعد اِس قبیل کے طبقے نے وہ وطیرہ اپنایا کہ عوام الناس کاستیا ناس کرکے چودہ طبق روشن کر دیے ۔ مشینوں کے پرزے بنانے والی اِس کمپنی کا سپروائزر ہونے کے ناطے خالو پر کوالٹی کنٹرول کی براہِ راست ذمّہ داری تھی، مگر اِدھر پروا کس کو تھی۔ وزرائے ریاست کے کیے گئے غبن کی طرح کسی کو بھی کبھی معلوم نہیں چل سکا کہ کمپنی کے بڑے بڑے پرزہ جات اور مشینوں کے یک دم فیل ہونے میں اِن کی لا پروائی کا کتنا ہاتھ ہے۔ کمپنی کی کوالٹی پالیسی کا تقاضا تھا کہ ہر اسٹاف معیار اور عمدگی کی ذمّہ داری برابری سے نبھائے۔ اور یہ حضرت ہمیشہ اپنا کام یہ سوچتے ہوئے ادھورا یا غیر معیاری چھوڑ دیتے کہ باقی لوگ تو درست کام کرہی چکے ہوں گے، لہٰذا میرے کچھ کرنے یا نہ کرنے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔ اب یہ اور بات ہے کہ اِن ہی کی کسی لاپروا اور غیر ذمّہ دار حرکت کی وجہ سے اکثر پرزہ جات فیل ہوتے، جس کی وجہ سے کمپنی کو بھاری ہرجانہ دینا پڑتا، مگر آج تک کوئی جان نہ سکا کہ پیداواری زنجیر کی سب سے کمزور کڑی کون ہے۔ وہ دوسروں کی نظرمیں بہت شریف تھے شاید اسی وجہ سے نوازے بھی بہت گئے۔ اپنا کام جیسا تیسا چاہتے کرتے چاہے پراڈکٹ کی ایسی تیسی ہو جائے، مگر شریفی شان ایسی کہ کبھی کمپنی کے نقصان یا اپنے فائدے کی فکر نہیں کی۔ وہ جس طرح چاہتے، جیسا چاہتے کام کیا کرتے اور مہینے کے آخر میں جو بھی تنخواہ ملتی وصول کرلیتے، بنا کسی گنتی اور حساب کتاب کے۔ یہ اور بات ہے کہ کمپیوٹر کا نظام ہونے کے باعث کبھی ایک پائی کم نہ ملی اور کمپیوٹر ہی کے نظام کا نظم نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو کبھی پتا نہ چلا کہ اُن کے ذمّہ جو کام کیا گیا، اُس کے ساتھ اُنہوں نے کیا سلوک کیا۔ بھائی چارے کے نظام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بے چارے اور چارہ گر میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
گھریلو چخ چخ، ٹخ ٹخ نے دفتر میں بھی اِن کو پریشان کیے رکھا اور بالآخر چو تھی شادی کے پانچویں مہینے ہی خالو کو قبل اَز وقت ریٹائر کر کے خاموشی سے فارغ کر د یا گیا ۔اس کی وجہ بتائی گئی کہ دفتری معاملات میں خالو کا ’آئی کیولیول‘ پرائمری کلاس کے کسی بچے سے بھی گیا گزرا ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک متفقہ نوٹ بھی لکھا گیا تھا کہ’ کہانی گھر گھرکی‘ نامی انڈین سوپ ڈرامے نے خالو کی زندگی پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا۔ وہ خود کو رائے سلطان حسن کی بجائے پاروَتی بھابی سمجھنے اور برتنے لگے تھے۔شک ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ ’ملٹی پل پرسنالٹی ڈِس آرڈر ‘ یا کثیر الجہتی شخصیت‘ نامی نفسیاتی بیماری میں نفسانی طور سے مبتلا ہو چلے تھے ۔ ایک بدخواہ نے تو اس کیفیت کو ان کے سیاسی کیریر کی جانب پیش قدمی بھی قرار دیا۔
نوکری چھوٹنے کے بعد جب حساب کتاب شروع ہوا تب ہی ’بی چا روں‘ کو پتا چلا کہ جناب پر بے پناہ قرض ہے، جو واجب الادا بھی ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے تلخ یاد کی مانند ایک کے بعد ایک قرض خواہ بدکتا، بھڑکتا ، برستا نمو دار ہوتا اور پھر جَھڑپتا،جِھڑکتا اورجھگڑتا لوٹ جاتا۔ انفرادی قرض خواہ تو خیر چھوٹی موٹی گالم گلوچ پر اکتفاکرلیتے، جس میں خالو کا پلڑا ہی بھاری پڑتا کہ بلبل ہزار داستان کی ’لغولغت‘ ذہن میں بری یاد کی مانند محفوظ تھی ۔ مگر بینک والے کچھ زیادہ ہی پرابلم کرتے ، بہرحال خالو اُ ن کو بھی رام کر ہی لیتے کہ نیپئر روڈ کے دلّالوں اور ایوب خانی بی ڈی ممبروں سے بھاؤ تاؤ کرنے میں ہمیشہ ان کو چِت ہی کیا ۔ یہ سودخور بنکاری بابو بھی اُسی محلے سے ہائر کیے گئے تھے جن کی ایچ آر پروفائل اورجاب ڈسکرپشن میں ری لوکیشن کے علاہ کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ پہلے یہ گھر آئے کسٹمر کوبہلا پھسلا کرمال سپلائی کیا کرتے ، اب ڈرا دھمکا کر کسٹمر کے گھر جا کر مال وصولی پر لگے ہیں ۔ پہلے دھندہ اور اب ہفتہ ، بات ایک ہی تھی۔ ویسے تو خالو حضوراب بھی ہاتھ سینے پر باندھ کر سیدھے کھڑے ہو جائیں تو کرکٹ گیند کی مانند دونوں بازو ؤں سے مچھلیاں نمایاں ہوجاتیں جو بدنسلی سود خوروں کے لیے لاحول کا کام کرتیں۔ البتہ تنہائی میں بیٹھ کر دل ہی دل میں خوب ہنستے کہ اگر قرضہ لوٹانے کے اہل ہوتے تو لیتے ہی کیوں۔
اب جو رقم فکسڈ ڈپازٹ میں میں لگی ہوئی تھی، وہی گزری سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں معاون تھی۔ پیارے میاں نے ایک دن اُن کو بک اسٹال سے پنجاب اور مہران بینک کے صدور کی وہائٹ کالر مالیاتی جرائم کا پریکٹیکل مینیول المعروف خود نوشت آپ بیتی بھی خریدتے دیکھا تھا۔ سر پر ہر وقت بنکاری نا اہلی کی تلوار بے نیام ہوئی لٹکی رہتی۔ زندگی بھر جو نیک نامی کمائی تھی وہ کریڈٹ بیورو کے ہاتھوں بے حرمت ہوئی چاہتی تھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔