چہار درویشنیں
قسط نمبر 03 ۔
ازدواجی کیر م بو رڈ!
اور یہیں سے شروع ہوتی ہے خالو کی’ درگت دی گریٹ‘ ۔ اگلے سال موسلا دھار بارشوں کے بھیگے موسم میں دونوں خالاؤں نے مل کر ’ نیو گھر آرڈر‘ کی سازش میں ایک اور ٹیم ممبر کا اضافہ برداشت کرلیا۔ سوتنوں کی اِس تگڑم نے چنڈال چوکڑی کا روپ دھارنے میں صرف چندمہینے اورلیے۔چھوٹی والی نے اپنی کم عمری اور نسب میں چھوٹے خاندان کے بَل پر خالو کی ہنڈیا سے بچا کچھا مال ملیدہ صرف اپنے ہی نام کرنے کی جو سعئ نا تمام کی، وہ تگڈم نے کمالِ صفائی سے ناکام بنا دی۔ پھر ہوا یوں کہ ریاست کے تین ستونوں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں آج کل جس بدمعاشی اور دھڑلّے سے میڈیا گھس آیا ہے، اِسی کی نقّالی پر چھوٹی نے بھی شروع شروع میں اندرونِ خانہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لینے کی غیر جمہوری کوشش کی۔ اُس کے انداز اور ہتھکنڈوں کو پہلے تو ’مثلثِ افواجِ ازواج ‘نے نظراندازی کے اوزار سے قابو کرنے کی کوشش کی، جس کو محترمہ پسپائی سمجھ بیٹھیں اور ناز اور نخرہ کے مصالحے سے پورے گھر پر سکّہ جمانے کی کوشش شروع کی۔
اُ ن کاگمان تھا کہ میاں جی کے دل میں اگر پُرانی والیوں کے لیے مزید گنجائش ہوتی تو بھلا مفتوحہ کرنے کے لیے منکوحہ بناکر رال گراتے میرا گھونگٹ اُٹھانے اور ’نتھ سیریز‘ ناولوں کی ٹریڈ مارک رسم کی ادائیگی کی زحمت کیوں گوارا کی جاتی۔ اس خود پسند خود اعتمادی نے اُنہیں کوئی نفع تو نہ پہنچایا، مگر تجربہ کار سوتنیں کلا بتّو کی طرح سے اُٹھتے بیٹھتے اُلجھنے لگیں۔ وہ جب شوہرِ نامدار سے مدد کی طالب ہوئیں تو ٹکاسا جو جواب ملا، اِس کا مطلب اُنہوں نے یہی اخذ کیا کہ میرے، تمہارے اور ہمارے تعلقِ زن و شو میں کوئی کجی ہے تو اظہار کرو، عاجز ہر ممکن راحت بہم پہنچانے کی سعی کرے گا۔ ازدواجی حد بندی کے باہر کے تمام معاملات میں کسی طرح کی دخل اور عمل بشمول حمل بندۂ عاجز کے دائرۂ افکار اور اختیار سے ماورا ہے۔ جو کچھ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی، اُس کے لیے اِس مکھن چپیڑ مشکل لشکری زبان کی ضرورت ہرگز نہ تھی، جو کہ نائیکاؤں اور بازارِ حسن کے دلالوں اور بھاڑوؤں نے بھی عرصۂ دراز ہوا ترک کردی ۔ آسان سا مطلب تھا ’ہم تم ہوں گے، بادل ہوگا، رقص میں سارا جنگل ہوگا‘، دورانِ رقص اگر پیروں پر نظر پڑجائے تو تمہارے آنسوؤں میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ مشکل الفاظ کھرچ کھرچ کر جو مطلب واضح ہوا تو یہ کہ تم اپنی جنگ لڑو اور ہمیں طلبِ نشاط سے عاجز نہ کرو کہ زندگی کے دن چھوٹے سہی، مگر راتیں طویل بنائی جاسکتی ہیں۔ اس تعمیری کام میں اگر مدد کرسکو تو ٹھیک، ورنہ؛
ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے
جو بھی راہ میں ملا ہم اُسی کے ہولیے
چھوٹی خالہ کو خود سے سینیئر تینوں سکھی سہیلیوں کے مزاحمتی عزم دیکھ کر ماجرا سمجھنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔ تنہا رہ جانے کا غم اور آنے والی مہیب تنہائی کے احساس نے اُنہیں سُجھا دیا کہ بقا کے لیے سہاگ نہیں، بلکہ کھٹراگ کی ضرورت ہے ،جس کے لیے جوگنوں کا جھمگٹا جوائن کرنا ہی پڑے گا۔ وہ بغیر کسی مزید حیل و حجت ،پکّے آم کی طرح ٹپک کر اِس گروہ برائے تحفظِ حقوق سوتناں میں شامل ہوگئیں، جس پر فی الوقت شوہر کے نسیاں کا پردہ گرا ہوا تھا۔
خالو اکثر اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں پر سر دُھنتے تھے کہ جس نے نوٹوں پر اکسیر جملہ لکھوایا، ’حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا‘۔ ہر خالہ کو یہ حکم تھا کہ نکاح نامہ کی ایک مائکرو کاپی تعویذ ی موم جامے میں باندھ کر منگل سوتر کی طرح ہر وقت اپنے گلے میں طوقِ سہاگن بنا کر لٹکائے رکھیں ۔ خود خالو بھی چار مائکرو نقلیں تیار کرا کر ہمہ وقت شلوار کی جیب میں رکھتے تھے۔ انہوں نے بشری اور بدنی کمزوری کی وجہ سے خاص اہتمام کیا تھا کہ ہر نقل پلاسٹک کوٹڈ مگر نوکدار کونے والی نہ ہو۔ تمام خالاؤں کو شادی کی پہلی رات کو ہی معجل اور موجّل مہر ہڑپ ( بہ صورت زور و زبر دستی یعنی رضا بالجبر)کرنے کے بعد اگلی ہدایت براۓ خوشگور ازدواجیات کرنسی نوٹ کی اکسیر عبارت کے مطابق دیتے کہ اب خالاؤں کی نتھ اور نکیل اُن کے ہاتھ میں تھی اور یہ معاملہ عین حلال بھی تھا۔ نکاح اور نکاح نامہ کی موجودگی میں تمام خالاؤں کے لیے اسٹیٹ بینک کی کرنسی ادائیگی والی پالیسی پر عمل کرنا لازمی قرار تھا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں کے حلقے اور خالاؤں کی سہیلیوں کے جھرمٹ میں خود کو حاملِ ہذا سے متعارف کرواتے اور انگشت شہادت کا اشارہ موقعۂ واردات پر موجود کسی خالہ کی طرف ہوتا۔
خالو نے گھر میں کیبل ٹی وی کا کنکشن لگوا لیا تھا، اُن کے خیال میں دو سو روپے میں لاکھوں کے مزے، سودا مہنگا نہیں تھا۔ یہی سب دیکھنے کے لیے ہی تو جاگیر سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ کاش! اِس قسم کی ٹیکنالوجی کچھ عرصہ پہلے آجاتی تو کوٹھے جا کر گانا سننے اور ناچ اور نیچا گریبان دیکھنے کے شوق میں مال ومتاع نہ لٹانا پڑتا۔ اب ایکتا کپوری انڈین ڈرامے دن میں خالاؤں کی عملی تربیت اور انگلش بے ہودہ قسم کے لیٹ نائٹ ایڈونچرز خالو کے رت جگے کا سامان تھے۔
رات بھر کے جگے ہوئے تماشبین خالو کو دن بھر خالاؤں کے نپے تلے اور با مقصد وار سہنے پڑتے۔وہ ہر دومنٹ میں بازار کو دوڑائے جاتے کہ تین نمبر کو سات سو سات نمبر کا صابن اور دو نمبر کوایک نمبر کی مرچی کی ضرورت ہوتی۔ ابھی ایک چکر لگا کر فارغ بھی نہ ہوتے کہ دوسری بیوی کوئی تیسرا کام بتاکر چکراتے خالو کو چوتھی کے حوالے کردیتی۔ عورتوں کو کم عقل اور بشری کمزوریوں سے بھرپور سماجی جانور سمجھنے والے خالو کو سماجی جانوروں کی ماداؤں نے سہاگ کے سماجی رشتے سے باندھ کر انور رٹول بنا کر پلپلا کرنا شروع کردیا تھا۔ خالو اپنے ہی پیدا کردہ حالات کے آنول ڈورکا شکار ہوگئے تھے، جو پھندا بن کر اَب اُن ہی کے گلے میں لپٹ رہا تھا۔ ڈاکٹری زبان میں بولے تو ’اِن ٹینگل منٹ‘۔ فلم ’چارلیز اینجلز ‘کے بر عکس خالو کو تین کی بجائے چار خوبرو، مگر خرانٹ خوخیاتی خواتین یعنی مکمل و مستعد بیویوں کے خودکش حقوق حاصل تھے۔
تمام خالاؤں نے اپنی ایکتا اور جوڑسے مل جل کر خالو حضور کی درگت بنا دی تھی۔ حوّا کی بیٹیوں نے شوہر کا ہوّا ختم کرنے کے لیے اِکٹھ کرلیا تھا۔ ویسے بھی اگر غور کیا جائے تو آپ بھی مان جائیں گے کہ سانپ سے کوئی کتنا ہی خوف کھائے، مگر پھر بھی وقت پڑنے پر لاٹھی سے مار مار کربُھرکس نکالنے کو تیار ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ لیکن اگر کہیں سانپ کے چار منہ ہوجائیں تو بندہ بشر تو نظر پڑتے ہی بے ہوش ہوجائے۔ یہاں پر تو اُن کا پالا چار انسانوں سے تھا، بلکہ انسان کی سب سے خطرناک شکل عورت سے ، جو کہ بیک وقت منکوحہ بھی تھیں اور سوتن بھی۔ اوّل الذکر صورت میں مفتوح اور بعد الذکر صورت میں ناگن کی خصلت رکھنے والی اِن چہار درویشنیوں نے خالو کو ایوانِ صدر کا مکین بنا کر آئینی اور شرعی حق سے بھی محروم کر دیا تھا۔ اب خالہ اوّل ’ون وومن آرمی‘ نہیں رہیں، بلکہ ’سواٹ‘ ٹیم ممبر بھی تھیں۔ وہ بیک وقت رہنما بھی تھیں اور وقت پڑنے پر رہزن بھی۔
ڈھلکتی عمر کے ساتھ نہ تو خالو کا لونڈیار پن غائب ہوا، نہ ہی شوہرانہ حقوق کو سود خور لالہ کی طرح باقاعدگی سے بے قاعدہ وصولی کی عادت۔ اِن چاروں کو یقین ہوچلا تھا کہ خالو نے شادی کا بندھن صرف اس لیے گوارہ کرلیا تھا کہ اِس بہانے چار بے زبانوں کو قید و بند کرکے وقت بے وقت مفت میں ازدواجی کیرم بورڈ کے مزے لُوٹ سکیں ۔ مگر اِدھر تو معاملہ ہی اُلٹا ہو گیا اور خالو اسٹرائیکر سے کیرم بورڈ کی کوئن بن کر رہ گئے تھے ۔ چاروں خالاؤں نے ایک ٹیم کی صورت اپنے جوڑ اور جُٹاؤ سے اپنے اکلوتے حاملِ ہذا کی خوب رگڑ گھس شروع کردی۔ رگڑائی اور رگیدنے کے اِس کدّو کش عمل میں نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ پہلے سے موجود کوئی پتلون کمر پہ ٹکنے کو تیار نہ تھی اور پیٹی باندھنے کی صورت میں آخری سوراخ پر بھی پتلون بمشکل ٹکتی۔ کمر کے لحاظ سے خالو چالیس اور پچاس کی دہائیوں کی ہالی وڈ فلموں کی ہیروئن نظر آتے اور باقی جسامت سے اکیسویں صدی کے گٹکے اور مین پوری کے مارے فرہاد۔ ہر اگلے نکاح کو اپنی مردانہ طاقت کا اعجازسمجھنے والے خالو کو چوتھی بیوی کے چوتھے والے روز ہی احساس ہوگیا تھا کہ اُن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ خالو کے بال اور فطری خواہش تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئے۔ جب اِس کمی نے وزن کا رُخ اختیار کیا اور پتلون ڈھیلی پڑنے لگی تو خالو کو ریڈ لائٹ جھلمل کرتی نظر آنے لگی اور وہ سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ کہیں کوئی گڑبڑ تھی۔ ان بیبیوں نے خالو کو شطرنج کے بادشاہ کی طر ح کو نہ پکڑوا کر ضیق کرنا شروع کر دیا تھاU۔
بے چارہ مرد اور وہ بھی زن گزیدہ، نہ گھر کا رہا، نہ باہر والیوں کا ۔
وقت مُون واک کرتا پھسلتا گیا، جس کے ساتھ ساتھ چہار درویشنیں بھی ایک دوسرے کے نقشِ پا کے تعاقب میں عمر کی منزلیں طے کرتی ادھورے پن کا بوجھ اُٹھائے آگے بڑھتی گئیں۔
——————- قصہ چہار درویشنیں ابھی جاری ہے —————-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔