چہار درویشنیں : از شفیق زادہ – عرب امارات
قسط نمبر 02 ۔
( حالات کے بے رحم تھپیڑوں پر جیتے، خود ناراضی کا شکار اپنے آپ سے لڑتےایک شخص کی کہانی، جس نے زندگی سے انتقام لینے کی ٹھانی ہوئی تھی، چاہے اِس کوشش میں چاہت اور چہیتے ہی کیوں نہ بھسم ہو جائیں۔ جدید دور کی ایکتا کپوری ٹرینڈ! چار شرعی بیویوں کا دھماکہ خیز اتحاد، جس نے راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا تورا بورا کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ رومانویت اور مزاح کا حسین امتزاج، جس میں چار بیویاں اپنے اکلوتے شوہر پر دعویدار ہیں۔ چہار درویشنیں حالات کا وہ آئینہ جس میں ہر مرد کو اپنی عکسی خواہش نطر آسکتی ہے جسے مسخ کرنے کے لیے زنانہ بریگیڈ بھی میسّر ہوتی ہے ۔)
گزشتہ سے پیوستہ :
پری کہانی
زندگی مزے سے گزر ہی تھی اور محسوس ہی نہ ہوتا کہ آنے والا دن عید کا ہے، یا گزری رات شبِ برأت تھی۔ عیش کوشی کے تمام لوازمات موجود تھے۔ خالہ نے اپنی تمام توجہ اور محبت کا مرکز خالو کو مان لیا تھا۔ شروع شروع میں تو ہر لہجہ اور ہر لمحہ ہی رومان پرور اور ہیجان خیز تھا جو بہت دن گزرنے کے بعد بھی ویسے کا ویسا رہا۔ دونوں کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، مگر احساسات بدلنے لگے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ دھیرے دھیرے اُنہیں لگنے لگا تھاکہ کچھ ایسا ہے جو کہ نارمل نہیں ہے۔ خالہ کو اچانک کسی کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ اسے کچھ نام دینے سے قاصر تھیں۔ پھر اِس مبہم احساس نے اپنی گرفت مضبوط کرلی اور اپنی موجودگی کو محسوس کرانا شروع کردیا۔ اجنبی احساسات کے بوجھ تلے خالہ نے خالو صاحب سے ایک انوکھی فرمائش شروع کردی، جو کہ خالوکے لذّتِ کام ودہن میں رکاوٹ بننے لگی تھی۔ خالو حضور کے لیے یہ ایک ایسی انوکھی مانگ تھی کہ جسے پورا کرنے میں وہ کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
خالہ کے مائکے والے اگر رئیس نہ تھے، تو گئے گزرے بھی نہ تھے، کوئی ایسا شوق نہ تھا کہ جو پورا نہ کیا گیا ہو۔ کوئی تمنا اور آرزو نہ تھی جو کہ حصول کے عمل سے نہ گزری ہو، مگر کوکھ سونی رہے تو بھلا عورت بھی مکمل ہوتی ہے۔ ایک جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے کھلونے کی چاہ اُن کو اُداس رکھنے لگی ۔ خالہ کی بے زبان خلش کو ایک نام مل گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ مرد کا ساتھ عورت کے ادھورے پن کو ختم کرتا ہے، مگر عورت کی تکمیل صرف تخلیق کے کرب سے گزر کر ہی ہوتی ہے۔ قدموں تلے جنت نہ فرشتوں کا اور نہ ہی مرد کا، بلکہ صرف اور صرف ماں ہی کا اعزاز ہے، استحقاق ہے، مقدر ہے۔ خالہ اپنے مقدر کے حصول کے لیے بے کل رہنے لگی۔
خالو کو اَب خالہ جان کی یہ بے تان کی بھیرویں بہت گراں گزرنے لگی تھی۔ کبھی کبھی تو انہیں ایسا محسوس ہوتا کہ کسی نے بمباٹ ٹھرّے کی بوتل ختم ہوتے ہی بڑا سا رَس بھرا لیموں معدے میں اُتار کر خوب نچوڑ دیا ہو۔ ایک دن کسی دوست سے کہا، ’پتا نہیں، سالی کو آج کل بچے پیدا کرنے کا مسخرہ پن کیوں سوجھ رہا ہے ، زندگی حرام کردی ہے۔ حد ہے کہ جب نشاط سر چڑھ کر بول رہا ہو تو یہ باؤلی بچہ بچہ کی بھیرویں بکواس شروع کردیتی ہے۔ اپنی تو یہ کیفیت ہوجاتی ہے ، جیسے کہ بیچ چڑھائی پر گاڑی کا پیٹرول ختم ہوجائے! لگتا ہے مڈٹرم سلیکشن کر کے قائدِ ایوان بدلنا ہی پڑے گا، بھائی میاں! اپنی یہ گھریلواسمبلی کی بانی رکن لائف ٹائم اَچھیو منٹ ایوارڈ نہ لے سکے گی‘۔
خالو نے تو جوانی کی پختگی کوچُھو لیا تھا اور خالہ نوجوانی کی حدود سے نکل کر بھرپور جوانی کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں۔ جیون ساتھی سے اُن کا تصوّ ر شوہر کے روپ میں ایسا ساتھی تھا، جو زمانے کی تکالیف اور زندگی کی مشکل شاہراہ پرمحافظ اور مضبوط سہارا ثابت ہو، پر خالو کو یہ باریکیاں اور نزاکتیں کہاں سمجھ آتیں۔ ایک اچھی لگی بندھی نوکری اور اِس پر اندرونِ صوبہ واقع زمینوں سے ہر سال وافر مقدار میں فصل کی رقم اُن کے اللّے تللّے پورے کرنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ تھے۔ بے چاری خالہ نے جس پہلے مردکو محبوب کے روپ میں دیکھا، وہی شوہر بھی ثابت ہوا کہ اِس سے پہلے نہ کبھی کوئی تھا اور نہ آگے کوئی ہوگا۔ مشرق کی مٹی سے ڈھلی اور ایک روز اُسی مٹی کی چادر اُوڑھ کر سو جانے والی جنم جلی کبھی دل کاحال زبا ں پر لا نہ سکی۔
ویسے خالو اپنے تئیں اِن خیالات میں صریحاً غلط نہیں تھے۔ عورت کے روپ میں ماں کو اپنے ہوش سنبھالنے اور اُس کے ہوش گم ہونے تلک باپ کے ہاتھوں صرف ایک جنس کی طرح استعمال ہوتے دیکھا۔ جب بھی ماں کی طرف نظر گئی ، متوّرم دیدوں اور آنسو بھری آنکھوں سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔انہیں اپنی ماں کے چہرے کو کبھی غور سے دیکھنے کی ہمت نہ ہو سکی، شاید اِسی لیے ماں کا ہیولہ بھی تصوّر میں نہیں رہا۔ بے چاری ماں صحیح طور سے جوانی کی دہلیز بھی نہ پار کرسکی کہ خِرد وہوش سے بیگانہ ہوگئی، مگر باپ اِس کے باوجود بھی اپنی ترنگ سے باز نہ آیا۔ وہ ایک دن یوں سوئی کے پھر کبھی نہ اُٹھی۔ لڑکپن گزارتے خالو کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اچھا ہوا کہ بُرا۔ پاگل ماں کی موت بھی باپ کے پاگل پن کو ختم نہ کرسکی۔ پیسہ بہت اور عیاشی کے راستے اُس سے بھی کہیں زیادہ ، باپ تو ’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘کے مصداق اپنے آپ میں ہی مصروف ہی رہا۔ ان کے دل کے آبگینے ٹوٹنے کی صدا اس خا موشی میں بھی نہ سن کا، شاید سننا ہی نہ چاہتا تھا۔ سو اِسی طرح رُلتے لڑھکتے خالو بھی بلوغت کی دہلیز کے پار ہوہی گئے، مگر اپنے اَن چاہا ہونے کا دُکھ نہ کسی سے بیان کر سکے اور نہ دھیان سے نکال سکے۔
خالو اپنی ماں کو ہی اس کی قابلِ رحم حالت کا ذمّہ دار ٹھہرانے لگے تھے۔ وہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ماں کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی وفا شعاری اور نیکو کاری ہی اس کے لیے عمر قید مع بد ترین مشقت کا باعث تھی۔ وفا، خدمت اور ایثار و نثار جیسے اظہارسے اُنہیں چڑ ہونے لگی تھی۔ اُنہیں معلوم نہ تھا کہ چڑ کی یہی چنگاری شعلہ بن کر ایک دن خود اُن کی اپنی زندگی میں ہی آگ لگا دے گی۔ مگر وہ اِس کا ادراک نہ کرسکے اور نہ اس کے لیے تیار تھے۔ وہ اپنے آپ سے ہی شکست خوردہ تھے اور اِس پر خوش بھی۔
ممتا اور بپتا دو ایسے اجنبی احساسات تھے کہ جن سے خالو کو کبھی آشنائی نہ ہو سکی۔ انہوں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ جس لاپروائی اور بیگانگی کے ماحول میں اُن کی پرورش ہوئی ، وہ اپنی اولاد کو اِس کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ اُنہوں نے اپنی اِس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طے کر لیا تھا کہ وہ کبھی اولاد کے بکھیڑے میں نہیں پڑیں گے۔ وہ اپنی بدنصیبی کا انتقام انجانے میں شاید اپنے ہی چاہنے والوں سے لینا چاہتے تھے۔
شادی کودو سال ہو چلے تھے اوراُنہیں اب خالہ کی چیں چیں بہت بُری لگنے لگی تھی۔ شہر میں نائٹ کرکٹ کا بخار نیا نیا پھیلا تھا، جس نے نائٹ میچ ٹورنامنٹس کے روپ میں من چلوں کی پاپی چُلو، یعنی موج مستی کا سامان پیدا کردیا تھا۔ خالو نے بھی کرکٹ کا روگ پال لیا او ر بطور جادوئی فنگر اسپنر پورے شہر میں مشہور ہوگئے۔ دُور دُور سے ٹیمیں اُن کو اپنی طرف سے کھیلنے کی دعوت دیتیں اور اِسی بہانے وہ اکثر راتوں کو گھر سے غائب ر ہنے لگے۔
اِدھرخالہ تنہا جلتی بھنتی رہتیں اور پھر ایسا وقت آیا کہ اُن کی راتیں مُصلّے پر گزرنے لگیں، جہیز والی جاء نماز کی سجدے کی جگہ کثرتِ سجدہ کی وجہ سے بے رنگ ہو چلی تھی ۔ وہ تو اِس پر بھی قانع تھیں کہ کاش کوئی ننھا معصوم وجود ہوتا، جس کو گود میں بھر کر کلیجے سے اُٹھتی ہُو ک کو ٹھنڈا کرلیتی، مگر یہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔
اُن کے دل میں اولاد کی خواہش کم تو نہ ہوئی، پر عمر میں صدیوں جیسے دس سال ضرور بڑھ گئے۔ خالو پہ گزرتے زمانے اور بدلتے حالات کا کچھ اثر نہ ہوا، خالہ کی انوکھی فرمائش کے مقابل اُنہوں نے بھی اِنہیں اپنے مطالبوں کی یک نکاتی فہرست پکڑادی۔ یہ مطالبہ جان کر خالہ نے تلخی سے سوچا،’مرد کو صرف اپنا اور وہ بھی یہی شرعی حق کیوں یاد رہتا ہے‘۔
رشتوں کے اسیر زوجین کے درمیان فاصلے تو تھےہی ، اب جدائی بھی گہری ہوتی چلی گئی۔
جس دن چاندی کا پہلا تار اُن کے بالوں میں جِھلملایا، خالہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں، وہ اِ س بُری طرح بِلکیں کہ تین سال پہلے باپ کی میّت اُٹھتے سمے بھی نہ روئی تھیں۔ آنسوؤں کے پار سامنے لگا آئینہ بھی دھندلا گیا تھا، شاید خود بھی رو رہا تھا کہ اُس نے کبھی خالہ کو ہنستا کھیلتا، مسرور دیکھا تھا۔
خالہ کی زندگی کے افسانے کاخوب صورت موڑ تمام ہونے والاتھا۔ پھر ایک وہ دن بھی آیا کہ اُنہوں نے دل کے ارمانوں کی قبر پر تنہائی کی بھاری سِل رکھ کرخالو کی یک نکاتی فہرست کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے سوتن کی اجازت دے دی:
چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
تعارف روگ ہو جائے تو اُس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوب صورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
خوشی سے پھولے نہ سماتے خالو حضورنے عقد ثانی میں آٹھ پہر بھی نہ لیے اور کوٹھی میں تیسرے مکین کا اضافہ ہوگیا۔ خالو کے لیے وقت نے اُلٹی چال شروع کردی اور خالہ کے سنّاٹے میں اور اضافہ ہوگیا۔ چھ مہینے پہلے بِکے زرعی زمین کے ایک بڑے مربع نے اِس شادی کو فائینانس کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ تین مہینے تک تو پتا بھی نہ چلا کہ خالو کب آئے اور کب گئے۔ خالہ کو آمدو رفت کا بھلے پتا نہ چلا ہو، مگر پردے کے پیچھے کے مناظر سے خوب آگاہی تھی اور ہوتی بھی نہ کیسے کہ عشرہ پہلے وہ خود بھی اِس پری کہانی کا ایک کردار رہ چکی تھیں، مرکزی کردار۔
زمانہ بدل رہا تھا اور ساتھ خالو کے سوچنے کا انداز بھی، اب کی بار خالو کو نائٹ کرکٹ کا بخار دس مہینے میں ہی چڑھ گیا،اور اِس طرح ایک شام دونوں سوتنوں کی ملاقات ہوگئی۔
بھیگتی شام رات کی بانہوں میں گھلنے لگی تو فاصلے سمٹنے لگے۔ یہ فاصلے مٹے تو لب کھلے اور لبوں کے ساتھ حالات کے گتھم گتھا پیچ بھی کُھلنے لگے۔ دونوں عورتیں ایک دوسرے کا آئینہ ثابت ہوئیں۔ کربِ نسواں کی گتھی سلجھنے لگی تھی۔ اُن کی شکل و صورت میں بھلے کوئی مماثلت نہ تھی، پر عورت ہونے کا دُکھ دونوں کا یکساں تھا۔
——————– قصہ چہار درویشنیں ابھی جاری ہے —————-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔