’چہار درویشنیں‘
قسط اوّل
ہم نا سمجھ!
برسوں پہلے جگت خالو سے ہماری پہلی ملاقات فخریہ ، دوسری اتفاقیہ، اور تیسری رسمیہ تھی۔ اُس کے بعد کی باقی ملاقاتیں بس ملاقاتیں ہی تھیں، جن کو ہم کوئی نام دینے سے قاصر تھے۔ مگر اُن کے لیے ہمارے دل میں احترام اور کہیں کہیں رشک اور ستائش کے جذبات بھی تھے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا پڑے گا۔ سادگی اور سچائی کے اس زمانے میں محلے کے سب رشتے اپنے ہی ہوتے تھے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت تو ہوئی تھی کہ ہمارے محلے دار’ جگت خالو ‘ کی دوسری شادی، پہلی خالہ نے اور تیسری شادی، پہلی اور دوسری خالاؤں نے مل کر کروائی تھی۔ لیکن جب پہلی، دوسری اور تیسری خالائیں مل کر خا لوحضور کی چوتھی شادی کے چکر میں پڑیں تو ہمیں بڑی کُھد بُد ہوئی۔ ہم خالہ کو سلام کرنے کے بہانے ملنے پہنچے اور بہت ڈرتے ہوئے پہلی خالہ صاحبہ سے سوتن در سوتن کے عذاب سہنے کی وجہ دریافت کرنی چاہی تو وہ نہایت اطمینان سے سروتہ کے درمیان چھالیہ پھنسانے کے عمل کو روک کر بولیں’اے بیٹا! تم کو معلوم ہے کہ یومِ مئی کیوں منایا جاتا ہے‘؟ ہم نے اثبات میں سر ہلادیا۔ ایک ہلکا سا ہنکارا بھر کے بولیں’ اس ملک میں عورتوں کے حقوق نسواں دراصل مرد کے حق نفسانی کا متبادل نام ہے۔ بے چاری بیوی کو تمہارے خالو جیسے مردوے انسان نہیں، بلکہ ہیومن ریسورس سمجھتے ہیں، جس سے ذاتی مقاصد ایفیشنسی اور خانگی ذمّہ داریاں ایفیک ٹیولی پورے کیے جاسکیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے ایک ہٹے کٹے گول مٹول چھالیوں کا بد معاش چن کر سروتے کے گلوٹین میں پھنسا کر اس کا تقسیم ہند کیا اور پھر ہمیں مخاطب کر کے بولیں ’ شادی کے پہلے ہی سال خالو کی حسنِ کارکردگی دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اگر کمک، یا مزید رسد بہم نہ پہنچی تو اِس ملک میں عورتوں کی اوسط عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اوپر پہنچ جاؤں گی۔ تب ہی میں نے طے کر لیا کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے سوتن برداشت کرنا پڑے گی، کیوں کہ اکلوتی بیوی ہونے کا فخر انجوائے کرنے کے لیے کم اَز کم زندہ رہنا ضروری ہے۔ اب میرے پاس دو راستے تھے کہ یا تو اکلوتی زوجہ بن کر جوانی ہی میں انہیں رنڈوا کردوں یا پہلوٹھی بیوی کا خطا ب اپنا کر چند دن اورچار دن کی چاندنی میں چاندی کے چمچے سے چٹنی چاٹوں یعنی سانس اور دوا لیتی رہوں۔ تمہارے خالو کی شوہرانہ محبت دیکھ کر مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ میں بھی جلد تمہارے خالو کے لیے کراچی کی کالعدم ٹرا م سروس ثابت ہوں گی، جو کہ اب صرف ندیم اور محمد علی کی پُرانی فلموں میں ہی نظر آتی ہے۔ کسی یادگاری تصویر کی صورت خوب صورت فریم میں مر جھائے پھولوں کا ہار پہن کر ٹنگنے سے کہیں بہتر ہے کہ سائیڈ لائن پر بیٹھ کر خالو کو کسی نئے کھلاڑی سے بھڑا کر ان کے ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جائے‘۔
خالو کی بے اعتدالیوں اور بگڑے شوق دیکھ کر خالہ کو اُن کے قبل اَز وقت رٹائر ہونے میں کوئی شک نہیں تھا اور خالہ کے علم میں یہ بھی تھا کہ گریجویٹی تو ملتی ہی بعد اَز ریٹائر منٹ ہے۔ تو رٹائرمنٹ فنڈ کا حلوہ ہڑپنے کے لیے انتظار کا زہر گھونٹ گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ادھرتو معاملہ ’ فیوچر از برائٹ ‘ والا تھا۔ ہم خالہ اوّل کی اسٹریٹیجک پلاننگ اور وِژن سے ہم آہنگ مشن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور دل ہی دل میں ہی عش عش کرتے اُن سے اجازت چاہنے کے لیے اُن کی طرف دیکھا تو وہ ماحول سے لا تعلق سی لگ رہی تھیں اور سروتے کی کٹ کٹ بھی میکانکی عمل کی مانند جاری تھی۔ گبلو ببلو چھالیہ اب تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذر رہا تھا ، بولے تو بالکنا یئیزیشن ۔ ہم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہنکارہ بھرکر اُن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو وہ چونک کر ہمیں دیکھنے لگیں، اتنی خالی آنکھیں ، ہم گھبرا گئے تھے ۔ ۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا ’ مجھے پتا ہے کہ تم کو شاعری سے شغف ہے، منیر نیازی کو پڑھا ہے‘۔ ہمارے جواب سے پہلے ہی اُنہوں نے یہ نظم پڑھنی شروع کر دی:
ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمالِ ابروباراں میں
یہ ناآباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہوگی
محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی
ہم کچھ نہ سمجھتے ہوئے سلام کر کے اُٹھ گئے، مگر ہماری طبیعت کو چَین نہیں تھا۔ نہ جانے کیوں استعجاب بڑھتا جا رہا تھا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا کہ بیان کردہ تھا، کچھ اَن کہی بھی ہے، ہم نے مزید سُن گُن لینے کی ٹھان لی۔
خالہ اوّل نے ا بتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی، جو کہ اُن کی گریجویشن سیریمنی بھی ثابت ہوئی۔ اپنی زندگی میں کبھی اسکول کی شکل نہ دیکھنے والی خالہ اوّلین کی دُور اندیشی اور دُوربینی نہایت متاثر کن تھی۔
کافی غور و خوص کے بعد صورتِ حال دھیرے دھیرے ہمیں سمجھ آنے لگی ۔ بزنس اور مینجمنٹ کی تعلیم سے نابلد خالہ اوّ لین نے انجانے میں اُ س مشہور مینجمنٹ تھیوری کا سہارا لیا تھا، جس کے مطابق کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اُس مسئلہ کو اُس کے جزئیاتی ٹکڑوں میں توڑ لیا جائے اور پھر ایک ایک کرکے حل کرلیا جائے۔ انگریزاسے ’ ڈیوائیڈ اینڈ رول ‘ اور ان کے پالتو اسے مفاہمتی پالیسی کا نام دے کر حسب منشا قوم کو کاٹنے اور حسب توفیق بھنبوڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ رول بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی رُلاتے بھی ہیں، عوام کو بس انجوائے کرنے سے غرض ہے سو بار بار ہاتھ پاؤں جوڑ کر پارلیمان میں لا پٹختی ہے ۔ مگر خالہ اوّل مفاہمتی پالیسی کی کسی ایسی گیدڑسنگھی کی قائل نہ تھیں، جو قوم کی بولتی بند کر کے رکھ دے، ساتھ میں ہوا، پانی، بجلی، روٹی اور زبان کی بندش اضافی بونس، جیسے السّان العربی میں خلیج ممالک کی سپر مارکیٹوں کے باہر بڑے بڑے پوسٹرز میں ’ خصمِ خاص‘ یعنی بولے توانگریزی کا ’اسپیشل آفر‘ اور اُردو میں ’این آر او‘ لکھا اور کہا جاتا ہے۔ وقت گزرتا گیا، دن ماہ وسال میں بدلنے لگے ا ور ہم بھی اپنے سوالات کا جواب گزرتے وقت کی دھول میں کھوجتے کھوجتے اُس کے ساتھ بہتے رہے۔
کہیں دل ملے، کہیں دل جلے
ہم نے اپنے لڑکپن میں خالو کی جوانی دیکھی تھی۔ چھ فٹ سے بھی اُبھرتا ہوا قد، سلیقے سے سنورے ہوئے بال (جس کی ایک لٹ پیشانی پہ جھول کر اُن کے رومان پسند ہونے کا اشارہ دیتی) کِھلتا ہوا گندمی رنگ اور کشادہ سینہ۔ چہرے پر مستقل چھائی معصومیت اور نرمی ایسی کہ کوئی بھی لڑکی دل ہار کربھی جیت کی خوشی منا نے میں فخر محسوس کرے۔ شاید ہی کوئی حسینہ اِس بات سے واقف ہوگی کہ اِن کے چہرے پہ یہ نرم تاثرات کسی بھی خلافِ طبیعت بات پر ایسی کرختگی میں بدل جاتے کہ اگر گالی نہ بھی دیں تو مخالف کو اُس کا احساس ضرور ہو جاتا۔ ہمارے ایک کر کٹر دوست نے بتایا کہ بولنگ کے دوران خالو کبھی ایمپائر سے اپیل نہیں کرتے، بس چہرے کے تاثرات تبدیل کرلیتے، وہی ایک ابرو اوپر اور ایک نیچے ، آبرو بچانے کے چکر میں باقی کام ایمپائر خود ہی کرلیتا۔ ایک انگلی کا ہی تو سوال ہوتا ، خود اٹھنے سے اس کو اٹھانا زیادہ آسان تھا۔ بے چارہ ایسا نہ کرے تو بات نکلتی ہے، جو پھر دُور تلک جاتی ہے۔ اُ ن کی آواز ایسی پاٹ دار کہ آج بھی بہتیروں کو اُن سے فون پربات مکمل کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ خالو کے اکثر کاروباری سودے صرف اس لیے ٹوٹ جاتے کہ دوسری پارٹی اُن کی آواز کی گھن گرج سے خوفزدہ ہوکر گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیتی۔ مگر اِسی آواز میں جب مہندی، شادی یا دوسری تقریبات میں مقصد یا بِنا مقصد ایسے ہی موقع کی منتظر لڑکیوں سے دھیمی لے میں کلام کرتے تو بے چاریوں کو رات رات بھر نیند نہ آتی۔ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے تکیے پر ٹوٹے بال دیکھ کر مائیں بیٹی کی جوانی میں ہی گنجی ہونے کے ڈر سے تِل ملے سرسوں کے بدبو دار تیل سے مالش شروع کردیتیں۔ بعد میں اسکول یا کالج کاکام لینے کے بہانے ایک دوسرے کے گھر جا کر کمرہ بند کرکے دبی دبی آواز میں اپنے اپنے پوشیدہ جذبات سے بے خبر خالو پر حق جتایا جاتا اور ایک دوسرے سے کٹّی کی جاتی، جس کی وجہ جاننے کے لیے دونوں اطراف کی مائیں سر توڑ ناکام کوشش کرتیں اور یہ مان کر چپ ہو بیٹھتیں کہ اِس بار امتحان کچھ زیادہ ہی ’سخت‘ ہے۔ محلے کی لڑکیوں میں اُن کے کھوئے کھوئے لہجے، بکھرے بال ، کھلے گریبان اور سجیلے پن کی دُھوم تھی ۔ وہ شادی شدہ، منگنی شدہ اور تازہ تازہ جوان شدہ اِن معاملات میں تھوڑی بہت شُد بُد رکھنے والیوں کے حلقے میں اپنی اپنی پسند کے فلمی ہیرو کے مطابق وحید مراد، ندیم اور محمد علی مشہور تھے۔ کچھ ’ایڈوانسڈ یوزرز‘ یعنی حقیقت پسند بیاہی خواتین اور اپنے سرکاری ملازم ’غیر فعال ‘ شوہر کو ’نکھٹّو بکارِ خاص‘ سمجھنے والیاں، آنکھیں موند کر سپنوں میں اُن میں ’ سلطان راہی‘ کو بھی کھوجتی تھیں ۔ محلے کے کسی نرکو اِن سے اُلجھنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ بھولو برادران کے گارڈن والے اکھاڑے میں باقاعدگی سے زورکرنے اور بھری بھرکم ڈمبل اُٹھائے کسرت کرنے جاتے تھے۔ ا س سے بڑھ کر یہ حقیقت بھی کہ زنانہ نظروں کی تیر اندازی کو اُنہوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا اور کبھی بھی اندرون یا بیرون محلہ کسی کو نہ قریب آنے دیا اور نہ کسی کے قریب گئے، البتہ ہر کسی کے دُکھ سُکھ میں بوجھ اُٹھانے کے لیے اُن کے چوڑے اور مضبوط کاندھے سب سے پیش پیش ہوتے۔
جب اندرونِ صوبہ شورش شروع ہوئی تو کراچی کا رُخ اختیار کیا اور یہیں پرقبلہ سسر صاحب سے اُن کی پہلی ملاقات ہوئی۔ کراچی جیسا بڑا شہر، جس کی ہر چیز خواب سے بھی بڑھ کر فسوں خیز تھی۔ اس شہر کی بڑی سڑ کیں، بڑی عمارات، بڑے ہوٹل،بڑی دکانیں، بڑے لوگ اور اِن سب سے بڑھ کر بڑی بڑی خواہشات، جن کو پورا کرنے کے لیے بڑی بڑی دوڑیں اور پھر بڑی جیت، جس کے بعد بڑی بڑی دشمنیاں، جن کو نبھانے کے لیے چھوٹی سی زندگی۔ عجب گورکھ دھندا تھا یہ شہر ، اندھی ممتا کی ماری ماں کے آنچل کی طرح سب کو سمیٹے ہوئے اتنا مہربان کہ محوِ خواب ہونے سے پہلے ہر پیٹ میں روٹی ضرور پہنچے۔ اور اتنا بے لوث کہ ہر اگلی صبح ناخلف مقیمین کے ہاتھوں مسترد ہونے کا دُکھ بھی سہے، مگر نہ شکوہ نہ شکایت۔ دُکھ کے موسم اور بیگانگی کے عذاب سہنے کے باوجود کسی کھمبی کی ما نند بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، ہر سائز کے بٹوے اور کم ظرف کے احسان فراموشوں کے لیے۔ اپنی بڑی جاگیر کو جلد اَز جلد چھوٹا کرنے کی اَن چاہی خواہش اِن کو جلد ہی بلبل ہزار داستان اور ریس کورس تک لے گئی، جہاں پر وہ پیروں فقیروں کے گھوڑوں کے مقابلے پر بازی لگاتے اور بغیر کسی تعویذ کے جیت بھی جاتے۔
اُنہی دنوں سانگھڑ سے نووارد خالہ اوّل کی فیملی میں اِن کا عمل دخل شروع ہوا۔ پہلے پہل محلے کی پرچون کی دکان پر پھر سینما گھر اور بالآخر ریس کے میدان میں خالہ اوّل کے قبلہ والد صاحب سے دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ ان دونوں حضرات کی عمروں میں بھلے کافی فرق تھا، مگر شغل بہت مماثل تھے۔ بڑھؤ خرچ کرنے کے شوقین اور یہ شوقین پر خرچ کرنے والے۔ چند ہی مہینوں میں رفتہ رفتہ بڑے میاں اِن کے اتنے مقروض ہوگئے کہ خالو کا اُن کے گھر میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ قرض کے اضافے کے ساتھ ساتھ گھر کے معاملات میں بھی اِن کو راہداری ملنی شروع ہوئی اور یہیں ایک روز کبوتروں کو ہلّا شیری دیتی ،گنگناتی، ہانک لگاتی،تمتماتے گلابی گالوں اور گہری سیاہ آنکھوں والی سرو قد خالہ اوّلین اُن کے دل میں کُھب گئیں۔ موصوفہ بھی اِن کی ناموری اور کارناموں سے انجان نہیں تھی، شاید اسی لیے مقناطیسی کشش کی مانند اُن کی طرف کھنچی چلی آئیں۔ نظریں ملنے سے دل ملنے تک کا مرحلہ بڑی سرعت سے طے ہوا، مگر اِس سے آگے کا مرحلہ پار کرنے کی ہمت دونوں ہی جوڑ نہیں پارہے تھے۔ اس غیر مرئی تعلق کو دستاویز کی شکل دے کر قابلِ حمل بنانے کے لیے بڑھؤ کی منظوری بہت ضروری تھی۔
بے وقوف کہتے ہیں کہ پیسہ بڑی شے ہے اور سیانے کہتے ہیں کہ پیسہ کچھ بھی نہیں ، اور اِس معاملے میں بھی جمہوری رواج کے مطابق سیانوں کو شکست ہوگئی۔ پیسہ نامی چالو جن نے یہ مشکل مرحلہ بھی دستی طے کروادیا اور نیب زدہ سیاسی لوٹوں کے ہڑپ کیے ہوئے قرضوں کی مانند بڑھؤ کے تمام قرضے معاف ہوگئے۔ بڑھؤ کے کاندھوں سے قرض اور فرض دونوں کا بار ختم ہوگیا، دختر نیک اختر بالآخر پرائی ہوئی۔ اور اِس طرح خالہ اوّلین اُن کی زندگی میں داخل اور دخیل ہوئیں۔ اِدھر بڑھؤ اپنے بڑے پن کے عوض تا حیات مالی امداد کے حق دار ہوگئے ۔
ان دونوں کی شادی بھی خوب تعلق ثابت ہوئی، بالکل آگ اور پیٹرول کی دوستی کی مانندکہ بھڑکتی کو بجھانے کی ہر کوشش مزید بھڑکنے کا سبب بنتی۔ دونوں نوجوان مہم جو ازدواجی مہم جوئی کی پیاس کو قربت کے نمک سے بجھانے کی کوشش کرتے، اِس سے بھلا پیاس کیا تو بجھتی، نا آسودگی اور بڑھ جاتی۔ مگر بادلوں کی طرح تیرتے ہنسوں کے اِس جوڑے کو پیاس بجھانے کی کوئی جلدی تھی بھی نہیں، زندگی تو ابھی شروع ہی ہوئ تھی۔
خالہ اور خالو کی یہ جوڑی خوب شہرت حاصل کررہی تھی۔ اب تو محلے سے باہر بھی دُور تک خالو کی مردانہ وجاہت اور خالہ کی مسحور کن خوب صورتی کے قصّےآج کل کے سیاسی ٹاک شوز کی طرح مشہور ہونے لگے تھے۔ خالو کا ماننا تھا کہ ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘۔ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر خالو سے چپک کر بیٹھی خالہ، جب کچی اور ٹوٹی سڑک پر اپنا توازن سنبھالنے کی کوشش میں خالو سے کچھ اور چپک جاتیں تو خالو کو موٹر سائیکل سنبھالنے اور دیکھنے والوں کو نظریں ہٹانے میں بہت دِقت ہوتی۔ دونوں ہی سماج اور سماج کے ٹھیکیداروں کے جلنے بھننے کا خوب سامان کر رہے تھے۔ گہرے گریبانوں کا فیشن شریف زادیوں نے ابھی تک نہیں اپنایا تھا، لہٰذا چادر نما دوپٹے سے بدن کو ڈھانپ کر چہرے اور سر پر لپیٹنے کے بعد جو کچھ تھوڑا بہت عیاں ہوتا ، نظر باز اُسی کو دیکھ کر سرد آہ بھر لیتے۔ استخوانی بدن والی ماڈلز ابھی رسالوں کے سرورق پر نمودار ہونا شروع نہ ہوئی تھیں اور بھرے بھرے جسم والی کَسی کَسائی خواتین خوب صورتی کا پیمانہ تھیں۔ اس حقیقت سے کسی کو تردّد نہ تھا کہ اِس پیمانے کے لحاظ سے خالہ اُس زمانے یادَ ور کا اسٹینڈرڈ پیس تھیں، جس کو ایک دل جلے کے بقول ، پیرس کے اسٹینڈرڈ ہاؤس میں ٹمپریچر اینڈ اینوائرمنٹ کنٹرولڈ شوکیس میں ہونا چاہیے تھا، مطلب سماجی رشتوں کی چیرہ دستیوں اور شوہرانہ دست برد سے محفوظ۔ اتنا محفوظ کہ امتدادِ زمانہ بھی جسے چھو نہ سکے۔
( جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔