اس دنیا میں ہمارے ارد گرد یہ سب کچھ کیا ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں نے اس کو چار عناصر میں تقسیم کیا۔ مٹی، ہوا، پانی اور آگ۔ یہی خیال دو ہزار برس تک دنیا میں مقبول رہا، پھر اس کا مقابلہ سائنس سے ہو گیا۔
مٹی اور آگ اپنی حیثیت پہلے ہی کھو چکے تھے۔ مٹی خود کئی معدنیات پر مشتمل ہے جبکہ آگ خود ایک عنصر نہیں بلکہ “ایونٹ” ہے۔ سترہویں صدی سے قبل ہی کیمسٹ اس حقیقت تک پہنچ چکے تھے۔ اگلی باری ہوا کی آئی۔
ہوا مختلف گیسوں پر مشتمل ہے، آج تو ہم یہ سب جانتے ہیں لیکن اس کی دریافت کا سفر بڑا لمبا رہا ہے۔ جوزف بلیک نے پہلی مرتبہ ہوا میں الگ گیسوں کی شناخت کی۔ دریافت ہونے والی اور الگ کی جانے والی پہلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ تھی جو 1754 میں انہوں نے کر کے دکھایا۔ انہوں نے ہی یہ دریافت کیا کہ جب ہم سانس میں ہوا باہر نکالتے ہیں تو اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگلی کئی دہائیوں میں کئی سائنسدانوں کے تجربات نے ہوا کے راز کھول دئے۔
بلیک کے ایک شاگرد ہنری کیونڈش تھے جن کی سائنس میں بہت کنٹریبیوشن رہی ہے۔ بینک آف انگلینڈ میں جتنا بڑا اکاوؐنٹ کیونڈش کا تھا، شاید ہی کسی اور کا ہو۔ جہاں پر وہ بہت امیر تھے، وہاں پر ان کی سوشل لائف نہیں تھی اور دوستوں کی تعداد صفر تھی۔ رائل سوسائٹی کی میٹنگ میں شرکت کرتے تھے۔ اگر کوئی ان سے غیررسمی بات کرنے کی یا بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اپنے گھریلو ملازمین سے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس کے ذریعے بات چیت کرتے۔ (آج جب ہم ان کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کو شائد آٹزم تھا)۔ برطانیہ میں کیونڈش سے زیادہ شاندار دماغ رکھنے والے کم ہی لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے زمین کی کثافت معلوم لی۔ اس کی کمیت معلوم کی۔ اپنے گھر سے نکلے بغیر اور صرف سیسے کی چار گیندوں اور تار کی مدد سے۔ انہوں نے 1766 میں ہائیڈروجن دریافت کی۔ یہ دریافت انہوں نے مختلف دھاتوں پر تیزاب ڈال کر کی۔ ایسا کرنے سے تیزی سے بلبلنے نکلتے تھے۔ کیونڈش نے اسے “جلنے والی گیس” کا نام دیا کیونکہ جب شعلے کے قریب اس کو لایا جاتا تو شعلہ بھڑک اٹھتا۔
کیونڈش نے ہائیڈروجن کے بارے میں ایک اور اہم دریافت کی۔ ایک روز انہوں نے ہائیڈروجن کو شیشے کی ایک ٹیوب میں ہوا میں ملا کر بند کیا۔ ایک نیا (اور بہت ہی مہنگا) برقی جنریٹر انہوں نے اس سے پہلے جوڑا تھا۔ اس کی مدد سے اس میں برقی کرنٹ دیا۔ ٹیوب کے اندر “اوس” بن گئی۔ اوس کے بننے کا تجربے سے تعلق نہیں تھا۔ لیکن کسی بھی اچھے سائنسدان کی طرح انہوں نے اس اوس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ان کے لئے انتہائی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ پانی تھا۔ کیونڈش اس کے بننے کی پوری تفصیل نہیں سمجھ سکتے تھے کیونکہ جدید کیمیکل تھیوری ابھی موجود ہی نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ جلنے والی دو گیسیں، ہوا (آکسیجن ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی) اور ہائیڈروجن مل کر پانی میں تبدیل ہو گئی تھیں، جو جلتی آگ کو ہی بجھا دیتا ہے۔
آج بھی اگر اسے سوچیں تو حیران کرتا ہے۔ اس وقت تو اس عمل نے کیونڈش کا سر چکرا دیا ہو گا۔ لیکن یہ تجربہ قدیم یونانی کلاسیکل عناصر کے تابوت پر آخری کیل تھا۔ مٹی اور آگ بہت پہلے ہی خارج ہو چکے تھے۔ ہوا پر سے پردہ کھسکتا جا رہا تھا۔ پانی ابھی تک بچا ہوا تھا۔ لیکن ٹیوب پر آنے والے چند قطرے اور ایک مشاق سائنسدان کی آنکھ نے پانی کی حقیقت کو بھی آشکار کر دیا تھا۔ پانی خود بنیادی نہیں تھا، دو چیزوں سے مل کر بنا تھا۔ دو ہزار سال تک زندہ رہنے والے فلسلفے کو بالآخر اس شرمیلے سائنسدان نے مکمل طور پر دفن کر دیا تھا۔
کیمسٹری آگے بڑھ رہی تھی۔ اصل عناصر کو پہچاننے کی دوڑ شروع ہو چکی تھی۔ کیمسٹری کے پیرئیوڈک ٹیبل تک پہنچنے کی شروعات تھیں۔ سو سے زیادہ عناصر اپنے پہچانے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔