گلیلیو نے ٹیلی سکوپ ایجاد کی، گراہم بیل نے ٹیلیفون، مارکونی نے ریڈیو۔ یہ وہ کہانی ہے جو بچپن میں بتائی جاتی ہے۔ یہ ٹھیک تو ہے لیکن مکمل نہیں۔ سائنسی ترقی اور ایجادات کسی خاص دور میں کسی خاص علاقوں میں ہوتی رہی ہیں اور یہ علاقے ہمیشہ وہ رہے ہیں جو نہ صرف بڑے شہر تھے بلکہ تجارتی مرکز بھی۔ یہ محض اتفاق نہیں۔
پرنٹنگ پریس سے پہلے کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ ہاتھ سے لکھی کتاب اس قدر مہنگی ہوا کرتی کہ یہ عام لوگوں کی رسائی میں نہیں تھی۔ پرنٹنگ پریس آنے کے بعد یہ عام لوگوں کے ہاتھ میں پہنچنا شروع ہوئیں۔ لوگوں کی قریب کی نظر کمزور ہونے کا اس کے بعد لوگوں کو احساس ہوا۔ محدب عدسے سے الفاظ بڑا کرنے کی ٹیکنالوجی پہلے موجود تھی۔ اس نئی ضرورت سے اس میں جدت آئی۔ یہ عدسے براہ راست آنکھ کے ساتھ لگائے جا سکتے تھے اور ان کی سپورٹ دی جا سکتی تھی، یہ عینک کی ایجاد تھی۔ یہاں پر نزدیک کی عینکوں کی مارکیٹ بنی۔ اس جگہ، جہاں چھاپے خانے کی وجہ سے کتابیں چھپنا شروع ہوئی تھیں۔ عینک سازوں نے تجربات شروع کئے جس سے عینک کی ٹیکنالوجی اور آپٹکل فزکس کی سمجھ بہتر ہوئی۔ لینز پر تجربہ کرتے ہوئے گلیلیو ٹیلی سکوپ تک پہنچا اور رابرٹ ہکس دو عدسوں کی مدد سے مائیکروسکوپ تک۔ رابرٹ ہکس نے چھوٹی چیزیں دیکھ لیں اور پھر خلیے تک پہنچ گیا۔ گلیلیو مشتری کے چاند دیکھتا ہوا نظام شمسی تک۔
گراہم بیل نے ٹیلیفون ایجاد کیا لیکن یہ ممکن نہیں تھا اگر اٹھارہویں صدی میں بنائی گئی کانوں کی اناٹومی کی ڈایاگرام اس نے نہ دیکھی ہوتیں۔
کوئی بھی ترقی، کوئی بھی ایجاد، کوئی بھی دریافت اکیلے میں نہیں ہوتی۔ گلیلیو کا ٹیلی سکوپ ایجاد کر لینا اور نظام شمسی کی سمجھ میں انقلاب برپا کر دینا کمال تھا لیکن اس کے لئے وہ حالات بھی شرط تھے جن سے یہ کرنا ممکن ہوا۔
عدسوں کی یہ ٹیکنالوجی خود دنیا میں صرف ایک مقام پر ہی کیوں پروان چڑہی اور آج بھی شیشہ گری کی صنعت میں یورپ میں رہنے والے ترک نژاد ہی کیوں آگے ہیں؟ یہ اب آپ خود ڈھونڈیں۔ اشارہ یہ کہ اس کا تعلق قسطنطنیہ کے سقوط کے بعد ہونے والی ہجرت، وینس میں لکڑی کے گھروں اور شیشے کے زیادہ درجہ حرارت پر پگھلنے سے ہے۔
ایک عینک کو غور سے دیکھا جائے تو ہم اس کے ذریعے کوانٹم فزکس اور پھر ایلیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کے مختلف سے تعاملات تک پہنچ سکتے ہیں اور اگر ایک دوسری ڈائمنشن میں اس کو دیکھیں تو دنیا کی معاشی، سائنسی اور سیاسی تاریخ تک۔