مولا اسے خوش رکھے شاہد کہا کرتا تھا کہ یہ چوک جنت کا ٹکڑا ہے۔ عجائب گھر کے سامنے گئے دنوں کا زمزمہ چوک جہاں Kim’s Gun اپنی بہار دکھاتی ہے اور دانہ چگتے کبوتر غول درغول اترتے ہیں۔
آپس کی بات ہے، لیکچر تھیٹرمیں سائنوسائڈ کےلہریوں سےغش کھائے ورکشاپ کےبرقی چکاچوند والےریزسٹرز کےڈسے الیکٹریکل کےتھیٹے جب سپورٹس کومپلیکس کےرہائشی کابکوں سے باہر نکلتےتو لاہورکےہرقریے پر جنت کاگمان ہی ہوناتھا۔
لیکن ہمارے یار دلدار شاہدکوعجائب گھرکےسامنے والےچوک سے ایک خاص انس تھا۔
بعدکےسالوں میں جب انجینئرنگ کی گریجوئیشن کیپ سےنظریں چراکرمیں نےگنری کی بلیو بیرٹ پہن لی تھی اورسیالکوٹ کےچھاؤنی زدہ ویک اینڈ سےبھاگ کرلاہور کی شاموں میں گئےدنوں کا سراغ کھوجنےکو پلٹتا توکچھ پل اس چوک پربھی ٹھہرتاکہ اسی سےایک یارِطرحدار کی یاد لپٹی ہےاور کچھ محبتوں کاسراغ ملتاہے یہیں سےایک روش نیشنل کالج آف آرٹس کو جاتی ہےجہاں کی ’بچیاں‘ گئے دنوں کی کہاوت کے بقول بہت خوبصورت ہواکرتی ہیں۔ دیکھیے آپ زیرِ لب مسکرانے لگ گئے
کسی کمزور لمحےکی رو میں بہک کرفرحت عباش شاہ نےبھی توکہہ دیا تھا
نہر کے کنارے پر
تتلیاں اُترتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو
چھیڑ کر گزرتی ہیں
توہم نےبھی عجائب گھرکے چوک پراپنےپھول رکھ دیئےہیں تو این سی اےکی تتلیوں کواُتر لینےدیجیے
دیکھیےہم بلاوجہ کی صفائی دیتےراستےسےہی بھٹک گئے۔ توہم عجائب گھروالےچوک پرکھڑےتھے۔ وہیں بغل میں پرانی انارکلی ہے۔
بانوقدسیہ کی انارکلی جہاں خریداروں سے زیادہ رش شاہ عالمی یا رنگ محل کے مسافروں نان چھولے مکسڈ چائے لےجاتے پہنچاتے لونڈوں یا پھر لڑکیاں تاڑنے آئے طالبعلموں کا ہوتا ہےجواپنی آمدورفت یا پھر نظروں کے زور پر انارکلی کے ٹریفک کا بہاؤ روک روک دیتے ہیں۔
یہیں پڑوس میں ہی کہیں اولڈ کیمپس کے ہاسٹل کا وہ کمرہ ہے جہاں راجہ گدھ کی بے دیار سیمی ، لکڑی کی ہیل پہنے آفتاب کی اپنی کشمیرن کزن سے شادی کا ماتم کرنے آئی تو قیوم کے بستر پر اپنا رومال چھوڑ گئی۔
رات گئے ایک بے رونق انارکلی کی سنسان سڑک پر ٹہلتے بھیگتی آنکھوں سے رومال کو ٹہلاتے ایک مردار پر ریجھتے قیوم کے دل کے بازار سے کچھ خریدے بغیر سیمی وہاں انارکلی کا سارا ٹریفک بند کر گئی تھی ایک بعد کے دنوں کی سویر میں اور راشد منہاس (اسوقت کے فلائٹ لیفٹیننٹ رحمان ارشد) مال روڈ کو قدموں سے ناپنے نکلے تو یو ای ٹی کے شاہد کی تقلید میں لارنس گارڈن کے ریسٹورنٹ سے انڈے والا برگر اور شیزان کی بوتل کا ناشتہ اور زمزمہ چوک پر رفتنی ٹریفک کی گزشتنی ’پُوہنڈی‘ دونوں شامل تھے۔
دیکھیے گئے دنوں کے دوست شاہد کو یاد کیا تو زمزمہ چوک سے جڑی کتنی یادوں نے دھاوا بول دیا۔ مگر ان میں سب سے پائیدار اور سیر حاصل ایک اور یاد ہے جب میں شہاب صاحب کے افسانے چندراوتی کوکھوجتا لاہور اترا تھاتو اسی عجائب گھرکے چوک پر کھڑا تھااور پنجاب پبلک لائبریری پہنچنےکو پرتولتا تھا۔
’جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسراروز تھا‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...