چاند، چکور اور چاندنی کا تعلق بہت پرانا ہے۔لیکن چاند اور دیوانے اور چاند اور عورت کا تعلق بھی کتابوں میں مذکورملتا ہے۔ چودھویں رات کے چاند کی چاندنی کا نظارہ چاہے آپ چوراہوں سے کریں، چاہے چناروں سے اور چاہے چوباروں سے آپ پر ایک عجیب سا سحر طاری کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ چکور پورے چاند کی رات کو نورانی رات کی بلندیوں پر اترتے ہوئے چاند تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیچارے کو رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ شاید ابن انشا نے چکور کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا
چاند کسی کو ہو نہیں سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاند کسی کا ہوتا ہے؟
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے اے میرے اچھے انشا چاند
عورتوں میں بعض اوقات دیوانگی کی ایک بیماری جنم لیتی ہے جس کو ڈاکٹر LUNACY کا نام دیتے ہیں۔ یہ بیماری عورت پر چاند کے اثرات کے تحت پیدا ہوتی ہے۔یاد رہے کہ یہ لفظLUNA سے ماخوذ ہے جو شاید ہمارے چاند کا نام ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاند کے اثرات انسانوں ، پرندوں اور جانوروں پر کس قدر پڑتے ہیں۔ بانو قدسیہ کا یادگار تمثیلی ناول راجہ گدھ بھی چاند نی راتوں میں چاند کے جنونی اثرات کو بیان کرتا ہے۔ گدھ جاتی کے راجہ پر الزام لگتا ہے کہ وہ حرام اور مردار کھانے کے وجہ سے مجنون ہو چکا ہے۔ جب بیچ جنگل میں پرندوں اور جانوروں کا اجلاس ہوتا تو راجہ گدھ جنونی ہونے کا الزام قبول کر لیتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ واقعی جب چاندنی راتیں ہوتی ہیں تو جانے مجھے کیا ہو جاتا ہے کہ میں درخت کی بلندی سے نیچے اندھے جنگل میں گر جاتا ہوں۔ میری یہ جنونی حالت چاند کے اثرات کے سبب ہوتی ہے۔
چاند کو محبوب سے بھی ملایا جاتا ہے یا پھر محبوب کو چاند سے ۔ یاروں اور پیاروں کے حسن کو چاند سے مشابہہ قراد دینے کی یہ رِیت بھی بہت پرانی ہے۔ تشبیہ اور ستعارے کے فرق کو سمجھنا یا سمجھانا ہو تو جون ایلیا کے یہ دو اشعار اکسیر کا کام دیتے ہیں
تجھے تشبیہ کا دوں میں آسرا کیا
تُو خود چاند ہے تو پھر چاند سا کیا
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا ؟ ؟ ؟
پچھلے دنوں SUPER MOON کا خوب چرچا ہوا۔ چاند پہلے سے کتنا بڑا دکھا اور کیوں دکھا یہ سائنس جانے اور سائنس جاننےوالے، ہمارے لیے تو یہی کافی تھا کہ ہر آدمی کی زبان پر چاند کا چرچا سننے کو ملا۔ اس رات یہ اندازہ بھی ہوا کہ رومانویت ہر آدمی کے اندر موجود ہوتی ہے۔ ہاں کچھ عرصے کے لیے دنیاوی دھندے ہمیں اس سے کوسوں دور لے جاتے ہیں لیکن اس کو ہمارے من سے ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کر سکتے۔ اس رات جیسے ہی سُپر مون کی کہانی شروع ہوئی ہر آدمی نے اپنی اوقات ، حالات اور عمر کے مطابق اس روشن مظہرِ فطرت کے خوب مزے لیے ۔
چاند اور چاندنی دوسرے شاعروں کی طرح ابنِ انشا کا بھی محبوب موضوع تھا۔ انشا جی کا یہ خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں،
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
ایک اور غزل میں انشا جی نے کیا خوب کہا
انشا جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی رِیت یہی ہے
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند