(Last Updated On: )
چاندنی رات ہے تارے ہیں تنہائی ہے
پھر طبیعت کسی پہ آئی ہے
تم جو ہوتے نہیں قریب میرے!
جانے کیوں جان لبوں پہ آئی ہے
جان دے دی کسی کی الفت میں
پھر بھی کہتے ہیں یہ سودائی ہے
تلخ کر دی ہے زندگی جس نے
کتنی میٹھی زبان پائی ہے
آ تجھے ایک بار دیکھ لُوں!
زندگی نام بے وفائی ہے
اُن کی زلفوں کی چھاوں میں اکثر
میں نے سمجھا بہار آئی ہے
جاتے جاتے وہ رو دئیے اکرم
کیا میں سمجھوں کہ اب جدائی ہے