سائینسی تحقیقات کے مطابق زمین پر پانی
ایسٹرائیڈز اور کومٹس کے ذریعہ سے پہنچا اور چاند کے پانی کے بارے میں بھی سائنسدانوں کا یہی خیال ہے کہ یہ پانی اس دور میں كومٹس اور ایسٹرائیڈ ز کے ذریعے پہنچا جب نظامِ شمسی میں خلائی تصادم عام تھے
یہ 5۔3 ارب سال پہلے کی بات ہے جب زمین کی عمر ایک ارب سال تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی کی چاند پر منتقلی کا صرف یہی ایک سبب سمجھا جاتا رہا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کائنات اور اس کے باسی اپنے اندر ہزاروں راز چھپائے پھرتے ہیں۔۔۔۔ کبھی کبھی اپنے ایک آدھ سے انسانوں کو آگاہی دے کر حیران کر دیتے ہیں۔۔۔
چاند پر پانی کے معاملہ میں بھی یہی ہوا۔۔۔۔
بالکل تازہ تحقیقات نے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا کہ چاند نے اپنے اندر موجود پانی کا ایک بڑا ذخیرہ زمین کے ماحول (Atmosphere) سے (اکسیجن اور ہائیڈروجن کے آئنز کی صورت میں) کھینچا۔۔۔ وُہ کیسے؟
ہے ناں حیرانگی کی بات؟….
ماہرین کو تحقیقات پر مبنی یہ پوسٹ پوری پڑھیے اور فطرت کے مہارت پر عش عش کیجئے کہ فطرت کس حیرت ناک طریقہ سے نظامِ کائنات کو چلا رہی ہے۔۔۔۔
ساتھ میں فطرت کے ان کھوجیوں کی تگ و دو کو بھی خراج تحسین پیش کرنا مت بھولئے گا۔۔۔
کیونکہ یہ حضرت انسان ہی تو ہے جس نے فطرت کے اس حسین اور انوکھے کمالات کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔۔۔ جس نے بڑے کائناتی ڈھانچوں کی ہیبت کو جانا، ایک ایٹم کی انوکھی خصوصیات کو پہچانا۔۔۔
اگر انسان نہ ہوتا تو کون تھا جو اس کائنات اور اس کے باسیوں کو سمجھتا؟
سچ پوچھیں تو کائنات کا ہر باسی حضرت انسان کے بغیر اپنی گمنامی پر روتا۔۔۔
یونیورسٹی آف الاسکا فیئر بینکس (UAF) جیو فزیکل انسٹیٹیوٹ کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق زمین کے سب سے اوپری ماحول (میگنیٹو سفیئر) سے اکسیجن اور ہائیڈروجن کے آئنز (ions) کا خارج ہونا اور چاند پر جمع ہونا چاند پر معلوم پانی اور برف کے ایک بڑے ذخیرے کی وجہ ہو سکتا ہے
یہ UAF جیو فزیکل انسٹیٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر گنتھر کلیٹسکا کی سربراہی میں چاند کے شمالی و جنوبی قطبین پر پانی کی موجودگی کے بارے میں تحقیقات میں نئی پیش رفت ہے۔۔۔
۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔
پانی کی تلاش ناسا کے پروجیکٹ آرٹیمس کا بنیادی مقصد ہے۔۔۔ یہ پروجیکٹ در اصل چاند پر انسان کی طویل مدتی رہائش کی ممکن بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔۔۔ ناسا اسی دہائی کے دوران انسانوں کو ایک بار پھر چاند پر بھیجنے اور اس کے ساؤتھ پول پر بیس کیمپ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، زمین کی بالائی فضاء میں پیدا ہونے والے پانی کے ائینز کو خلا بازوں کے لائف سپورٹ سسٹم میں استعمال کو ممکن کرنے کا بھی کوشش جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ چاند کے قبطی علاقوں میں 3500 مکعب کلومیٹر، 840 کیوبک میل یا اس سے زیادہ پانی کے ذخیرے موجود ہیں۔۔۔
ان ذخیروں میں زیادہ تر پانی زمین کی فضا سے فرار ہونے والے آئنوں (ions) کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔۔۔
قوی امکان یہی ہے کہ شمسی ہوا زمین کی فضا سے نکلنے والے آئنوں کو چاند پر منتقل کرتی ہے جہاں وہ پانی کے مالیکیولز کی صورت میں جمع ہو سکتے ہیں
یہ تحقیقات 16مارچ 2022 کو ایک جریدے “سائنٹیفک رپورٹس” میں ایک مقالے میں شائع ہوئیں
یہ مقالہ گنتھر کالیٹسکا، جیو فزیکل انسٹیٹیوٹ کے PHd سٹوڈنٹ نیکولس ہاسن اور یونیورسٹی آف نادرن انجنئیرنگ میں UAF واٹر اینڈ انوائرمنٹل ریسرچ سینٹر کے کئی کولیگز کی مشترکہ تصنیف ہے۔۔۔
کلیٹسکا اور کولیگز نے بتایا۔۔۔ جب چاند زمین کے میگنیٹو سفیئر کے قریب سے گزرتا ہے تو یہ وہاں سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے آئنوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔۔۔ چاند زمین کے گرد اپنے ماہانہ سفر کے 5دن اس کرہ کے نزدیک ہوتا ہے
میگنیٹو سفیئر زمین کی میگنیٹ فیلڈ سے تشکیل پانے والا ایک آنسو کی شکل کے بلبلے جیسا ہے جو زمین کو چارج شدہ شمسی ذرات کے مسلسل بہاؤ سے بچاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
معتدد خلائی ایجنسیز (ناسا، یورپین اسپیس ایجنسی، انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن، جاپان ایرو اسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی) کی حالیہ پیمائش نے میگنیٹو سفیئر کے اس حصے میں( چاند کی قربت کے دوران) پانی بنانے والے آئنوں کی نمایاں تعداد کا مشاہدہ کیا۔۔۔
میگنیٹو سفیئر کا حصہ جو میگنیٹو ٹیل کہلاتا ہے۔۔۔ چاند کی قربت کے اس پر عارضی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔
مقناطیسی فیلڈ کی تمام لائنیں دونوں سروں پر سیارے سے جڑی ہوئی نہیں ہیں بلکہ کچھ ایک سرے سے ٹوٹی ہوئی ہیں، یہ لائنیں میلوں دور خلا میں پہنچ جاتی ہیں
تصور کیجئے کہ یہ لائنیں دھاگے ہیں جن کا ایک ایک سرا ایک کھمبے سے جڑا ہے اور کمبا تیز ہوا کی راہ میں کھڑا ہے اور دور دور تک یہ دھاگے اُڑ رہے ہیں۔۔۔
چاند کی موجودگی ان ٹوٹی ہوئی کچھ لائنوں کو ان جیسی دیگر ٹوٹی ہوئی لائنوں سے جوڑ دیتی ہے۔۔۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس دوران زمین کی فضا سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اکسیجن اور ہائیڈروجن کے اینز الٹے قدموں واپس لوٹنے لگتے ہیں
اور واپسی کے دوران بہت سے آئن چاند کی کشش ثقل کے زیر اثر اسکی سطح پر برس پڑتے ہیں۔۔۔
اور پھر یہی آئن مل کر قمری پرما فراسٹ بناتے ہیں
اور بعض اوقات کے خلائی تصادم کے زیر اثر بہت سا پانی زیر سطح بھی چلا جاتا ہے۔۔۔
تحقیقی ٹیم نے کئی بڑے قمری گڑھوں کے ساتھ قطبی علاقوں کی تحقیق کیلئے ناسا کے
Lunar Reconnaissance Orbiter
کے کشش ثقل کے ڈیٹا کو استعمال کیا
خلائی تصادم سے بننے والے گڑھوں میں کشش ثقل کی پیمائشوں میں بے ضابطگیاں (Anomalies) اُن مقامات کی نشاندھی کر رہی تھیں۔۔۔ جو پانی اور برف کیلئے موزوں جگہیں ہیں۔۔۔
کشش ثقل کی پیمائشیں چاند کی سطح کے نچلے مقامات (subsurface locations) میں پانی اور برف کی موجودگی کی طرف اشارہ بھی دیتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاحال فطرت کا یہ فعل سمجھ سے باہر ہے کہ فطرت چاند پر پانی اور برف کے ذخیروں کو زمینی فضا کے ذریعہ سے بڑھا کر کیا تشکیل کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...