چند یادگار نغمے
ماخذ: ہندی سیمنا کے بھولے بسرے فن کار
دلی-2016
۱۹۵۴ء میں اداکارہ شیاما اور ایک اداکار دیپک کے ساتھ ایک موسیقی ریز فلم ’’شرط‘‘ آئی تھی۔ آج کے فلم بین شاید اس فلم کو بھول چکے ہیں۔ اس فلم کی ایک واضح خصوصیت اس کی دلفریب موسیقی ہے جسے موسیقار ہمینت کمار (پورا نام ہمینت کمار مکھوپا دھیائے) نے ترتیب دیا تھا۔ اس فلم کا نمائندہ گیت ’’نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے، مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے‘‘ ایک ٹینڈم سونگ کی شکل میں تھا جسے خود ہمینت کمار اور گلوکارہ گیتا دت نے ایگ ایگ گایا تھا۔ اس فلم کے شاعر آنجہانی ایس ایچ بہاری (پورا نام شمس الہدیٰ بہاری) تھے۔ یہ گیت ایک لازوال اور یادگار گیت ہے جو کہ ہمیشہ زندہ اور جوان بنا رہے گا۔ نظامِ قدرت کے مطابق مرورِ وقت کے ساتھ انسان ضرور بوڑھا ہو جاتا ہے مگر سریلے نغمے کبھی بوڑھے یا آؤٹ آف ڈیٹ نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ جوان اور سدا بہار بنے رہتے ہیں اور تازہ پھولوں کی طرح ہر سمت اپنے رنگ و خوشبو بکھیرتے رہتے ہیں۔ ہماری تین نسلوں نے اس گیت کو پسند کیا اور اس کی پذیرائی کی ہے۔ آج بھی جب یہ ریڈیو پر بجتا ہے تو وقت کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور اسے سننے والا سامع کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔
اتّفاق سے ۱۹۵۵ء میں ہی لاہور کی ایک فلم ’’سسی پنّوں‘‘ میں اس دھُن اور انہیں بولوں پر مشتمل ایک گیت پیش کیا گیا۔ یہاں تک بھی کوئی انوکھی بات نہیں تھی کیونکہ لاہور کے فلمسازوں اور موسیقاروں کا یہ ایک مرغوب فارمولہ تھا کہ کامیاب ہندوستانی فلموں اور گانوں کی نقل کر کے وہاں سستے میں شہرت اور منافع کما لیں اور اکثر وہ حضرات اس کارِ خیر میں پیش پیش رہتے تھے مگر پرانی فلمی موسیقی کے شوقین لوگوں کی انتہا نہیں تھی جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ لاہور کی فلم ’’سسی پنّوں‘‘ کے موسیقار کوئی چھوٹی موٹی شخصیت نہیں بلکہ ’’جی اے چشتی‘‘ ہیں۔ لاہور ہجرت سے قبل چشتی بابا بمبئی کے ایک سینئر موسیقار رہ چکے تھے اور وہاں کے کئی بڑے موسیقار ان کے شاگرد رہ چکے تھے اور ان کے زیرِ دست موسیقی کا ہنر سیکھنے کا شرف حاصل کر چُکے تھے۔ انہوں نے بمبئی کی کئی یادگار فلموں میں بہترین موسیقی ترتیب دی تھی اور ملک کی تقسیم کے بعد بمبئی سے ہجرت کر کے لاہور چلے گئے تھے۔ لاہور میں بھی انہوں نے موسیقی کے پارکھیوں سے اپنے فن کا لوہا منوا لیا تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے دفتر میں روز صبح کے اردو اخبار کی خبریں پورے سُر تال میں گا کر سنا دیا کرتے تھے۔ چشتی صاحب جیسے با ہنر شخص سے یہ اُمید کرنا کہ وہ خُود سے جونیئر موسیقار ہمینت کمار کے کسی گانے کی نقل کے مرتکب ہو سکتے ہیں بعید از قیاس تھا اور سب لوگ یہی سوچنے پر مجبور تھے کہ ہو نہ ہو ہمینت کمار نے ہی بابا چشتی کے گانے کی نقل کی ہو گی۔
اس معّمے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے شائقین نے لاہور کے ذرائع سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ لاہور کی فلم ’’سسی پنّوں‘‘ کے فلمساز جے سی آنند (پورا نام جگدیش چند آنند) نے بابا چشتی پر زور دیا تھا کہ وہ بمبئی کے موسیقار پمینت کمار کی اس لازوال تخلیق کی نقل کر کے اپنا گیت بنائیں۔ بابا چشتی نے نقل کا فعل بہ رضا و رغبت نہیں بدرجۂ مجبوری انجام دیا تھا۔ بمبئی میں سسی پنّوں کے نام سے ۱۹۳۲ء میں ایک فلم بن چُکی ہے جس کے موسیقار پران سکھ نائیک تھے اور اسی نام کی دوسری فلم ۱۹۴۰ء میں بنی جس کے موسیقار بی آر دیودھر تھے۔ بمبئی میں اسی نام کی تیسری فلم ۱۹۴۶ء میں بنائی گئی جس کی موسیقی پنڈت گوبند رام نے ترتیب دی تھی۔
یہاں یہ بتا دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ فلمساز جے سی آنند کی لاہور ساختہ فلم ’’سسی پنّوں‘‘ کا گیت ’’نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے، مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے‘‘ پاکستان میں بھی از حد مقبول ہوا تھا اور آنند صاحب نے اس فلم سے بہت روپیہ کمایا تھا۔ لاہور والی فلم ’’سسی پنّوں‘‘ اور بمبئی کی فلم ’’شرط‘‘ دونوں بازار میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ ہندوستانی فلموں کا چربہ کرنے کی اپنی اس بے لاگ حکمتِ عملی کی بدولت لاہور کے فلمسازوں نے کافی دولت کمائی۔ فلمساز جے سی آنند نے بمبئی کے فلمساز گرو دت کی کامیاب فلم ’’مسٹر اینڈ مسز ۵۵‘‘ کی نقل کرنے کے لیے بمبئی سے ہدایت کار روپ کے شوری اور ان کی اہلیہ اداکارہ مینا شوری کو لاہور بلایا اور ان سے فلم ’’مِس ۱۹۵۶‘‘ بنوائی جس سے انہیں کافی منافع ہوا۔ بعد میں آنند صاحب بھی لاہور میں فلمسازی کے لئے نامساعد حالات کے پیشِ نظر بمبئی آ گئے تھے۔
موسیقار سردار ملک کو اب لوگ بھولنے لگے ہیں۔ وہ بمبئی کی فلم صنعت کے ایک باصلاحیت اور نہایت سریلے موسیقار تھے۔ انہوں نے ہندوستانی فلموں کو کئی یادگار اور لازوال نغمے دئیے ہیں جن میں ’’میں غریبوں کا دل ہوں وطن کی زباں‘‘ (فلم آبِ حیات/ ۱۹۵۵/ ہمینت کمار)، ’’ہاں دیوانہ ہوں میں ہاں دیوانہ ہوں میں (فلم سارنگا/ ۱۹۶۰/ مکیش)، ’’ہے بڑھ کے فرشتوں سے بھی انسان تری شان، خود کو ذرا پہچان تو خود کو ذرا پہچان (فلم ماں کے آنسو/ ۱۹۵۹/ محمد رفیع) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ سردار ملک گیت کار حسرت جے پوری کے بہنوئی اور موسیقار انّو ملک کے والد تھے۔
ایک بار موسیقار سردار ملک کی فلم کے کسی گانے کی ریکارڈنگ کی ریہرسل چل رہی تھی جس کے شاعر ساحر لدھیانوی اور ایک چوٹی کی گلوکارہ ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں موجود تھے۔ اس گلوکارہ کو ساحر لدھیانوی کے گیت میں اردو کا کوئی لفظ ثقیل لگا تو انہوں نے کہا کہ اس لفظ کو بدل دیجیے۔ اس مطالبے پر ساحر صاحب بولے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں انہیں پر چھوڑ دیجیے اور آپ کا کام گانا ہے آپ مشورہ دینے کی بجائے صرف گائیے۔ اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر اَڑ گئے۔ دونوں اپنے میدان کی مقتدر اور مستحکم ہستیاں تھیں۔ ان دونوں کے مقابل سردار ملک کی حیثیت سے سے کمزور تھی۔ وہ بڑی بے بسی سے ان دونوں ہاتھیوں کی لڑائی اور اپنے مستقبل کی بربادی کا تماشہ دیکھنے پر مجبور تھے۔ اس ناگہانی جھگڑے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں معحارب پارٹیاں ناراض ہو کر بنا ریکارڈنگ کرائے اسٹوڈیو سے واپس چلی گئیں۔ سردار ملک اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ اس ناخوشگوار واقعے سے نہ صرف ان کی ریکارڈنگ رد ہو گئی تھی اور تمام کیے کرائے پر پانی پھر گیا تھ بلکہ فلم انڈسٹری میں بحیثیت موسیقار ان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ اس سنگین تصادم کے بعد وہ گلوکارہ ساحر لدھیانوی کا تو شاید کُچھ نہ بگاڑ پائیں مگر ان کا تمام تر قہر کمزور موسیقار پر ضرور ٹوٹا اور وہ سردار ملک سے خفا رہینے لگیں۔ ملک صاحب نے گلوکارہ سے ناراضگی کا سبب معلوم کرایا تو جواب میں ملا کہ ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے جھگڑے میں ساحر کی مخالفت اور گلوگارہ کے موقف کی حمایت کیوں نہیں کی؟ یعنی بندر کی بلا طویلے کے سر۔ سردار ملک بولے کہ بحیثیت موسیقار میں اس پوزیشن میں تھا ہی نہیں کہ کسی کی بھی مخالفت یا موافقت کر پاتا چنانچہ اس تنازعے کے وقت غیر جانب دار بنے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ آہستہ آہستہ اس گلوکارہ کی ناراضگی رنگ لائی اور خمیازے کے طور پر سردار ملک کو ریکارڈنگ اسٹوڈیو کی تاریخیں ملنی بند ہو گئیں۔ جب بھی وہ اپنی کسی فلم کے گانے کی ریکارڈنگ کے لیے اسٹوڈیو بُک کرانے جاتے تو جواب ملتا کہ مطلوبہ تاریخ میں اسٹوڈیو خالی نہیں ہے کیونکہ کسی نامعلوم موسیقار نے اسے پہلے سے بُک کرا رکھا ہے۔ وہ پریشان ہو گئے کیونکہ ان کے لیے اپنے گانے ریکارڈ کرانا مشکل ہو گیا تھا۔ نتیجتاً آہستہ آہستہ انہیں کام ملنا کم ہوتا گیا۔ گھر کا خرچ چلانے کے لیے پہلے بیوی کے زیورات بکے، کار بکی پھر ایک ایک کر کے گھر کا دیگر ساز و سامان بکا اور ایک لمبا عرصہ بیروزگاری و تنگدستی میں گزرا جب تک کہ ان کا بڑا فرزند انّو ملک ہندی فلموں کا ایک کامیاب موسیقار بن کر نہ ابھرا اور اس نے بے اندازہ دولت کما کر ان کے قدموں میں لا کر نہ ڈال دی۔
ایک زمانے میں ساحر لدھیانوی اور وہی چوٹی کی گلوکارہ دونوں ایک ہی ڈاکٹر سے علاج کراتے تھے۔ ایک مرتبہ ساحر صاحب بغرضِ علاج ڈاکٹر کے کلینک میں گئے اور انتظار گاہ میں بیٹھ کر اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگے کیونکہ ڈاکٹر اپنے مطب میں کسی اور مریض کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ انہیں ڈاکٹر کے کیبن سے اس گلوکارہ کے بولنے کی آواز آئی جو کہ ڈاکٹر کی معلومات میں گرانقدر اضافہ کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل تو فلموں کے گیت گلوکاروں کے گلے کے کمال کی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں مگر یہ شاعر اور گیت کار لوگ دنیا بھر میں اپنے فن اور قابلیت کے ڈنکے پیٹتے پھرتے ہیں۔ اب تو حد ہو گئی ہے کہ ریڈیو پر گلوکار کے ساتھ اپنا نام بھی اناؤنس کرانا چاہتے ہیں اور اس مقصد سے دلّی تک بھاگے پھر رہے ہیں۔ شاعر ہو یا موسیقار بھلا ایک باکمال گلوکار کے آگے اس کی کیا اوقات ہے۔ ایک گلوکارہ کے منہ سے صاحب قلم برادری کے لیے ایسے تضحیک آمیز الفاظ سن کر ساحر صاحب بھنّا گئے اور ڈاکٹر کے کیبن کا دروازہ کھول کر بغیر اجازت اندر گُھس گئے اور ڈاکٹر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس گلوکارہ سے مخاطب ہو کر بولے کہ ’’مادام، اگر ہمّت ہے تو آج کے بعد آپ میرے لکھے ہوئے گیت ہرگز نہ گائیے گا۔ ہم بھی دیکھیں گے کہ اچھی شاعری کے بغیر آپ کیسے کامیاب ہوتی ہیں‘‘۔ اس گلوکارہ نے وہاں بیٹھے ہوئے ان کا چیلنج تو قبول کر لیا مگر عملی دنیا میں اپنے سنگین مسابقے کے پیشِ نظر دو دن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔
ایک بار فلمساز گرو دت نے موسیقار روی (پورا نام شنکر شرما) کی موسیقی سے مزین فلم ’’مہندی‘‘ (۱۹۵۸) دیکھی اور اس کی دلفریب موسیقی سے مراثر ہو کر انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جب کبھی مسلم پس منظر کی کہانی پر فلم بنائیں گے تو موسیقی کے لیے روی کی خدمات حاصل کریں گے۔ چنانچہ جب انہوں نے فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ (۱۹۶۰) بنائی تو موسیقی کے لیے روی کی خدمات سے استفادہ اٹھایا۔ موسیقار روی نے فلم کے گیتوں کے لیے شاعر شکیل بدایونی کا نام تجویز کیا تو گرو دت بولے کہ وہ تو صرف موسیقار نوشاد کے لیے گیت لکھتے ہیں معلوم نہیں ہمارے ساتھ آنے پر آمادہ ہوں یا نہ ہوں۔ روی بولے کہ کوشش کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ انہوں نے شکیل صاحب سے بات کی تو وہ آمادہ ہو گئے۔ بقول روی صاحب شکیل صاحب نے کہا کہ بھئی میں نے ایک موسیقار کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ کام نہیں کیا ہے کہیں اونچ نیچ ہو جائے تو سنبھال لینا۔ اس پر روی بولے کہ جب ہم موجود ہیں تو پھر فکر کی بھلا کیا بات ہو سکتی ہے۔ روی نے شکیل صاحب کے سامنے فلم کا ٹائیٹل سونگ کی سچویشن رکھی اور ایک موذوں گیت لکھنے کی توغیب دلائی اور یونہی کسی استاد شاعر کا مصرعہ دہرا دیا کہ ’’چودھویں کا چاند ہو‘‘۔ شکیل صاحب نے اسے پورا کیا ’’یا آفتاب ہو‘‘ اور پھر وہیں پورا گیت لکھ لیا گیا۔ روی نے اسی وقت اس کی دُھن تشکیل کی اور گرو دت کو فون کیا کہ شکیل صاحب میرے گھر پر موجود ہیں اور ہم نے آپ کی فلم کا ٹائیٹل سونگ تقریباً مکمل کر لیا ہے۔ گرو دت نے جواب دیا کہ ’’فوراً آ جاؤ۔ گرما گرم بریانی آپ کی منتظر ہے‘‘۔ روی شکیل کے ساتھ گرو دت کے گھر پہنچے اور ہارمونیم پر پورا گیت انہیں گا کر سنایا۔ گرو دت اس سحر آفریں نغمے کو سن کر جھوم اُٹھے اور اس کی جی بھر کر تعریف کی۔ گرو دت نے شکیل کو بتایا کہ آپ نے فلم میں جانی واکر کے لیے درگاہ کے بازار کا جو کامیڈی گیت ’’شاہی فقیر ہوں، مستانہ پیر ہوں‘‘ لکھا ہے وہ انہیں کچھ زور دار نہیں لگا اور وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔ شکیل صاحب نے مکھڑے کے بول تبدیل کر کے ’’یہ دنیا گول ہے اوپر سے خول ہے، اندر جو دیکھو پیارے بالکل پولم پول ہے‘‘ کر دیا۔ گرو دت کو یہ لائنیں بہت پسند آئیں۔ پردے پر جانی واکر کے لیے اسے رفیع صاحب نے گایا ہے۔
فلم ’’دو بدن‘‘ (۱۹۶۶) میں موسیقار روی نے شاعر شکیل بدایونی کی کئی مرصّع غزلوں کو گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیتوں کے طور پر ریکارڈ کیا تھا جن میں سے ’’رہا گردشوں میں ہر دم مرے عشق کا ستارہ‘‘، ’’نصیب میں جس کے جو لکھا تھا وہ تیری محفل میں کام آیا‘‘،’’بھری دنیا میں آخر دل کو بہلانے کہاں جائیں‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں اور ان غزلوں نے سامعین کے درمیان راتوں رات مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناظرین فلم ’’دو بدن‘‘ کو تو بھول گئے مگر موسیقار روی نے اپنی مسحور کن دھنوں کے جادو کا جو تابا بانا فلم کی کہانی کے چاروں طرف بنا تھا اس کی بدولت اس فلم کا نام ابھی تک پرانے لوگوں کی زبان پر باقی ہے۔ یہ فلم روی کی بہترین موسیقی کے باعث ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ سردار ہرمندر سنگھ ہمراز کے ’’ہندی فلم گیت کوش‘‘ کے مطابق ۱۹۶۰ء میں جب موسیقار روی اور شکیل بدایونی جیمنی پکچرز کی فلم ’’گھونگھٹ‘‘ کے گانے تیار کر رہے تھے جس میں اداکار پردیب کمار اور آشا پارکھ مرکزی کرداروں میں تھے تو روی نے شکیل بدایونی کی غزل ’’رہا گردشوں میں ہر دم مرے عشق کا ستارہ‘‘ کو گلوکار مکیش کی آواز میں اسی دھُن میں ریکارڈ کروایا تھا مگر کچھ وجوہات کی بنا پر اسے فلم میں شامل نہیں کیا گیا۔
اگر یہ گیت مکیش کی آواز میں ایک بار ریکارڈ ہو چکا تھا تو اب تک سننے میں کیوں نہیں آیا اور آخر چلا کہاں گیا؟ قصبہ آملہ ضلع بیتول (مدھیہ پردیش) کے رہنے والے مدن لعل گگنانی نے ایک مرتبہ روی صاحب سے فون پر مکیش والے گیت کے بارے میں استفسار کیا تو روی صاحب اس سوا پر بری طرح جھلّا گئے اور جواب دینے کی بجائے فون بند کر دیا۔ مدن لعل کے علاوہ بھی اور بہت سے لوگوں نے روی صاحب سے اس گیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی مگر معلوم نہیں مکیش کی آواز والے اس گیت کے ساتھ روی صاحب کی کون سی ناخوشگوار یادیں وابستہ تھیں کہ وہ اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔
ستّر کی دہائی کے اوائل تک عوام کو تفریح کے کوئی خاص ذرائع میسّر نہیں تھے۔ اس زمانے میں ڈی وی ڈی، انٹرنیٹ، فیس بُک، کمپیوٹر، کلر ٹی وی وغیرہ کی ایجادیں عالمِ وجود میں نہیں آئی تھیں۔ صرف کالا سفید سینما، ریڈیو اور گراموفون دستیاب ہوتے تھے۔ آڈیو کیسیٹ پر آواز رقم کرنے کا نظام ستّر کی دہائی کے اواخر کی دین ہے۔ ان دنوں پنجاب کے شہر لدھیانہ کے رہنے والے ایک سیدھے سادے سردار مہندر سنگھ دہلی کے قرول باغ میں معمولی درزی کا کام کرتے تھے۔ انہیں جوانی کے دنوں سے ہی اپنی پسند کے گراموفون ریکارڈ جمع کر کے رکھنے کا شوق ہے۔ سردار جی کو بہت دنوں سے دلیپ کمار اور مدھو بالا کی فلم ’’سنگدل‘‘ (۱۹۵۶) کے جادو اثر نغمے ’’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی تری اک ادا پہ نثار ہے‘‘ کے ۷۸/ آر پی ایم والے گراموفون ریکارڈ کی تلاش تھی۔ اس گیت کو شاعر راجندر سنگھ نے لکھا اور مخملی آواز والے گلوکار طلعت محمود نے گایا ہے۔ سردار جی کو کسی ذریعہ سے پتہ لگا کہ بمبئی کے چور بازار میں آلاتِ موسیقی کے ایک دوکاندار حاجی ابراہیم کے پاس مطلوبہ ریکارڈ موجود ہے۔ تھوڑی خط و کتابت ہوئی اور حاجی صاحب کی منہ مانگی قیمت تین سو روپے پر سودا طے پا گیا۔ ستّر کی دہائی میں تین سو روپے آج کے تقریباً دس ہزار روپے کے مساوی ہوتے ہیں اور اس زمانے میں دہلی کی نئی کالونیوں میں زمین سو روپے فی گز سے بھی کم مل جاتی تھی۔ خط میں طے شدہ تاریخ کو سردار جی گولڈن ٹیمپل میل کے ذریعہ بمبئی پہنچے اور حاجی صاحب کو قیمت ادا کر کے خُوشی خُوشی مطلوبہ ریکارڈ کو اپنے قبضے میں لیا۔ حاجی ابراہیم کی دوکان کے ایک کونے میں ایک حضرت بیٹھے ہوئے مسکرا کر مسلسل انہیں دیکھے جا رہے تھے۔ جب سردار جی حاجی صاحب سے الوداعی مصافحہ کرنے لگے تو وہ بولے کہ ان صاحب سے نہیں ملیں گے۔ سردار جی بولے کہ میں تو بمبئی میں آپ کے علاوہ کسی سے بھی واقف نہیں ہوں اور معاف کیجیے گا ان بھائی صاحب کو تو میں نے بالکل نہیں پہچانا۔ تب حاجی صاحب نے ان کا تعارف کرایا کہ یہ اس گراموفون ریکارڈ میں پوشیدہ نغمے کے موسیقار سجاد حسین ہیں جو کہ اس اشتیاق میں آپ سے ملنے آئے ہیں کہ ہندوستان میں میرے سنگیت کا ایسا کون شیدائی ہے جو میرے ایک ریکارڈ کی قیمت بخوشی تین سو روپے ادا کر رہا ہے اور صرف اسی مقصد سے بمبئی کے سفر کی صعوبتیں جھیل کر آیا ہے۔ سردار جی نے جھک کر سجاد حسین سے مصافحہ کیا اور بولے آج میں اپنے اصلی دلیپ کمار سے مل رہا ہوں اور گلے مل کے رونے لگے۔ سجاد حسین نے سردار جی کو ہوٹل میں لے جا کر کھانا کھلایا، انہیں بمبئی کی سیر کرائی اور رات کو دہلی کی واپسی ٹرین میں سوار کرا دیا۔ سردار جی اب خیر سے ۸۵ برس کے ہو چکے ہیں اور قرول باغ میں خاموشی سے اپنا درزی کا کام کرتے ہیں اور اپنے چابی والے گراموفون اور فولادی سوئی سے ۷۸/ آر پی ایم کے پرانے گانوں کے ریکارڈ سُن سُن کر زندگی سے مطمعن ہیں۔ وہ موسیقار حسن لعل بھگت رام کی موسیقی میں گائے ہوئے ثریّا اور محمد رفیع کے گانوں کے رسیا ہیں اور صبح کی چائے کے ساتھ بلا ناغہ گھنٹوں انہیں سُنتے ہیں۔
دیو آنند کے فلمساز ادارے نوکیتن کی شاہکار فلم ’’کالا پانی‘‘ (۱۹۵۸) میں ایس ڈی برمن نے موسیقی ترتیب دی تھی اور ان دنوں جے دیوان کے معاون موسیقار تھے۔ برمن صاحب کو ایک گیت کی سچویشن دی گئی تھی کہ ہیرو دیو آنند نشے کی حالت میں اپنی غزل موزوں کرتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع و محل کے لیے کئی دھُنیں آزمائیں مگر ان کا دل کسی سے بھی مطمئن نہیں ہوا۔ برمن صاحب نے اپنے معاون جے دیو کو کسی کام سے بلایا مگر وہ کسی ٹیون کو بنانے میں مصروف تھے اس لیے آنے میں کچھ دیر لگ گئی۔ برمن کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ابھی جب وہ اسٹوڈیو آ رہے تھے تو راستے میں ایک مسجد کے قریب سے گزرے جہاں اذان ہو رہی تھی۔ موذّن کی آواز کی لے ابھی تک ان کے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ اسی کو گنگنائے جا رہے تھے۔ برمن بولے کہ ذرا زور سے سناؤ۔ جے دیو نے جس طرح اذان سنی تھی وہ با آوازِ بلند سنائی۔ برمن صاحب بولے کہ یہ تو راگ کھماج اور راگ چھایانٹ سے بہت ملتی ہے۔ جے دیو نے حضرتِ موذن کی اذان کی لے اور راگوں کے مرکب سے فلم ’’کالا پانی‘‘ کے گیت ’’ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے‘‘ کی ٹیون بنا ڈالی۔ حالانکہ فلم کی کاسٹ میں موسیقار کے خانے میں ایس ڈی برمن کا نام آتا ہے مگر حقیقت میں اس نغمے کی دھُن کے خالق ان کے معاون جے دیو ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“