چند الجھے خیالات
ہماری عقل ایک ایسی مردہ، لاغر اور بےبس کنیز کی طرح ہے جسے جذبات کے گدلے تالاب سے نمودار ہونے والے بدبودار تعصبات کو خوشنما دلائل کا لباس پہنانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ جذبوں کی یہ رکھیل نت نئےتجربات سے گزر کراپنے آقا کو خوش رکھنے کے فن میں طاق ہو چکی ہے۔ نظریاتی معاملات ہوں، سیاسی مباحث ہوں، عقائد کی دنیا ہو یا کہ سماجی اقدار، ہم نے اپنے پالے ہوئے تعصبات کے جواز تلاش کرنے کے لئے عقل نامی ذہین و فطین کنیزاپنی ذات کے حرم میں رکھی ہوئی ہے۔
دیکھا جائے تو عقل قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ ہے جسے سچائی تک رسائی یا اس کے قریب تر پہنچنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ جب اسے جذبوں کی غلامی تک محدود کر دیا جائے تو یہ اس تحفے کی بہت بڑی ناقدری ہے۔ازل سے انسانوں کی بہت بڑی اکثریت یہی کچھ کرتی آئی ہے۔ یہ غلامانہ رویہ شخصیت پرستی، عقیدے کی شدت اور اقدارکے جامد ہونے پر اصرار کے ذریعے سامنے آتا ہے۔
آپ مولانا مودودی، جاوید احمد غامدی، قائد اعظم، علامہ اقبال، نواز شریف ، عمران خان جیسے افراد پر تنقید کریں تو ان کے چاہنے والوں کے اندر فوری طور پر ایک معاندانہ جذبہ پیدا ہو گا جو اپنے اظہار کے لئے عقل نامی کنیز کو زور سے پکارے گا تاکہ اس سے بے معنی دلائل کا دفتر لکھوا کر اپنی عصبیتوں کو تسکین پہنچا سکے۔یہ کبھی آپ کا مذاق اڑائے گا، کبھی اپنی پسندیدہ شخصیت کے قدکاٹھ سے موازنہ کر کے آپ کی سوال اٹھانے کی اہلیت کو مشکوک قرار دے گا اور کبھی بھونڈے دلائل اور منطقی مغالطوں پر مبنی مباحث کے ذریعے آپ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ بہت تلاش کے بعد شائد کوئی ایسا فرد مل جائے تو آپ کے نکتہ نظر کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی کوشش کرے، دلیل کو تولے، اس کے حسن و قبح پر غور کرے اور خوب ٹھوک بجا کر یا اسے تسلیم کر ے یا ایک مضبوط متبادل بیانیہ پیش کرے۔ایسے لوگ کمیاب ہوتے ہیں لیکن نایاب نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس اکثر افراد شخصیت پرستی کی جادونگری میں ایسے سحر زدہ ہو کر بھٹکتے ملیں گے جیسے کسی تنویمی عمل سے گزرے ہوں۔ نظریاتی طور پر تسلیم کریں گے کہ ان کی محبوب شخصیت سے بھی غلطی کا صدور ممکن ہے لیکن عمل اس کے برعکس گواہی دے گا۔ تمام عمر اپنے ممدوح کے تصورات کے ایک ایک جزو کی غلامی میں مصروف رہیں گے۔
یہی صورتحال عقائد، نظریات اور اقدار کی بحث میں ملتی ہے۔ ہم نے جو تعصبات پالے ہوئے ہیں ان میں سب سے اہم وہ ہیں جو ہمیں والدین کی طرف سے ورثے میں ملی ہیں۔ پوری دنیا میں یہی چلن ہے کہ انسان اپنے والدین سے ملنے والے نظریات و تصورات سے عمر بھر چمٹے رہتے ہیں۔ ایسے افراد فکری سطح پر سماج کو کچھ نہیں دے پاتے کیونکہ یہ پچھلی نسل کی ایک بےکار سی نقل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ جو کسی ردعمل کا شکار ہو کر اپنے والدین کے نظریات سے بالکل مخالف سمت میں جا کھڑے ہوں، وہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ انارکسٹ بن جاتے ہیں اور معاشرے کے انتشار میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ ان میں اور موروثی تصورات سے چمٹے ہوئے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ محبت جب نفرت میں بدل جائے تو یہ ظاہری تبدیلی ہوتی ہے ورنہ اپنی اساس میں یہ ایک ہی جذبہ ہے۔
نئی نسل کو پرانی نسل سے مختلف ہونا چاہئے لیکن متضاد نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے لوگ بہت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں جوعقل کو جذبوں کی غلامی سے آزاد کر کے اس کے پوٹینشل سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ایسے لوگ نئے دور کے تقاضوں کی تفہیم کے لئے قدرت کے اس تحفے کا استعمال کرتے ہیں اور وراثت میں ملنے والے نظریات اور تعصبات کو ٹھوک بجا کر ان میں درسیع کرتے رہتے ہیں۔ یہ بڑے لوگوں کے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ان کے ذہنی غلام نہیں بن جاتے۔
انسانی عقل کی تربیت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے جذبوں سے ابھرنے والے تعصبات اور شخصیات کی غلامی سے دور رکھا جائے تاکہ یہ آزادی کے ساتھ تجربے کرے اور ہر معاملے میں حقیقت سے قریب تر پہنچ سکے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے فلسفی، مصلح، ادیب اور مفکر پیدا ہوئے ہیں انہوں نے یہی رستہ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں سے ان کی ذہنی رسائی مختلف ہوگئی۔ ہمیں بھی کوشش کر کے اسی رستے پر چلتے رہنا چاہئے۔ یہ سفر کٹھن ہے لیکن جتنا آگے بڑھتے جائیں اتنا ہی حقیقتیں اپنا جلوہ دکھانے لگتی ہیں اور فکری گہرائی نصیب ہوتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“