ہر دفعہ کی طرح اس برس بھی جمعتہ الوداع کے دن ساؤتھ لندن کے اسلامک سینٹر میں اعلان کردیا گیا کہ اس مرتبہ عید تیس روزوں کے بعد مورخہ دس اپریل بروز بدھ ہوگی، عید کی نماز کا پہلا اجتماع ۔ ۔ ۔ ۔ الخ
دیارِ غیر میں سائنس شریف کی برکتوں سے تیار شدہ قمری کیلنڈر پر پہلے سے طے شدہ عیدِ سعید کا سچ پوچھیں تو سارا مزہ پھیکا پڑ جاتا ہے۔
وطنِ عزیز میں گزرے بچپن اور پروان چڑھی جوانی کا کیا کریں کہ اس دِل کو ابھی بھی عید کے چاند کو نظر بھر دیکھنے کا ہڑکا ہے۔ رویتِ ہلال ہماری بڑی پیاری بہت ہی محبوب روایت ہے۔ بعد از انتیسویں افطاری و باجماعت نمازِ مغرب مسجد کے صحن میں دور افق پر شام کے تارے کی سمت نظریں ٹکائے ہلالِ عید کی زیارت کے شوق میں ایک بچپن آج بھی پباں بھار کھڑا ہے۔
لیکن صاحبو رویتِ ہلال کی اس سادہ بھولی بھالی روایت کو ایک کمیٹی اور عینی شہادتوں کی نظر لگ گئی۔ اب تو لگتا ہے کہ مولویوں کا ایک ٹولہ ہے جو چاند دیکھنے نہیں بلکہ ہلالِ عید کو باقاعدہ بازیاب کروانے اور اہلِ وطن کو اس کی باضابطہ زیارت کروانے کے لیے بیٹھتا ہے۔ کمیٹی والی بات متنازعہ ہوجائے گی، لہٰذا کمیٹی والی مائی معاف کیجیے گا مولویان کو چھوڑ شہادت کی بات کرتے ہیں۔ عینی شہادت کے بھی دو درجے ہیں۔
سادہ شہادت اور پوپلزئی شہادت۔ آسانی کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ گئے وقتوں کے فرنٹیئر اور آج کے ’کےپی‘ یعنی خیبر پختونخواہ کی مٹی آنکھ والوں کے لیے اکسیر ہے۔ کسی سبب سے اس اکسیری نسخے کا ایک سرمچو کسی پشاوری آنکھ میں پھر جائے تو انتیسویں رمضان کی شام مزید روشن اور اجسام فلکی میں ہمارا چاند مزید نمایاں ہوجاتاہے۔ قبائلی خوانین اور ہلالِ عید میں تمام حجاباتِ من و تو اٹھ جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک دُور مار نشان بر ہلال کوہاٹی نظر کے تو ہم خود بھی گواہ ہیں۔ ٹل چھاؤنی میں گزارے چند برسوں میں کم و بیش تین رمضان تو ہم نے بھی گزارے۔ اٹھائیس کا بھلے ہو تو ہو ہم نے کوئ مہینہ تیس روزوں کا نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ توچشمِ خدِمخ (ٹل کی وادی کا سب سے بلند اور حسین پہاڑ جسکے نام کا لغوی مطلب ہے پری چہرہ) نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ٹل اور گردونواح میں عید کی خوشیوں کا دور دورہ تھا اور چھاؤنی کے باسی سوکھے منہ کے ساتھ سرکاری رویت کےاحکام کی بجا آوری میں روزے سے تھے۔ وہ محاورہ الٹے منہ ہم پر صادق آتا تھا کہ عید کے دن شیطان روزے سے ہوتا ہے۔
بات ٹل چھاؤنی میں گزارے روزوں کی ہورہی تھی۔ ہوتا کچھ یوں تھاکہ 29 واں روزہ افطارکرتے ہی ٹل اوراس کےمضافات میں ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کرم ایجنسی و وزیرستان کے قبائلی عید کے اعلان کے لیے کسی رویت کے محتاج نہ تھے۔ ویسے بھی کچھ ہی دیرمیں پشاورسے ایک پوپلزئی شہادت کی توثیق تو موصول ہو ہی جانی تھی۔ ایسی ہی ایک انتیسویں شام کا ذکر ہے کہ چھاؤنی کے فوجی افطار سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ چواطراف جاری ہوائی فائرنگ کی تڑتڑاہٹ میں کچھ سیکنڈ کے درمیانی وقفے میں یکے بعد دیگرے تین آوازیں آئیں دھپ ۔ دھپ ۔ دھپ
ابھی ہمارے کان ہی کھڑے ہوئے تھے کہ اتنے ہی وقفے سے ایک نزدیکی فاصلے پرتین گولوں کے یکے بعد دیگرے پھٹنے کی آوازوں سے ہم خود کھڑے ہوگئے۔ صاحبو فاٹا میں زمانۂ امن کی بے پروائی کا دور دورہ تھا، ابھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاوروں سے مسافر بردار جہاز نہیں ٹکرائے تھے اور وار آن ٹیرر کا عفریت نصف دہائی کے فاصلے پر تھا۔ چھاؤنی میں خطرے کی گھنٹی تو نہیں بجی ہاں مگر ڈیوٹی آفیسر یہ خبر لایا کہ سی ایم ایچ کی طرف چھاؤنی کے بیرونی حصار کے باہر کچھ مارٹر گولے آکر گرے جو عید کی خوشی میں داغے گئے تھے۔ ہنگامی بنیادوں پر سٹیشن کمانڈر کو ٹل کے اکابرین کو بلا کر سمجھانا پڑا کہ کلاشنکوف کی گولیوں کے برعکس مارٹر کاگولا داغا تو اوپر ہی جاتا ہے مگر پھٹتا زمین پر آکر ہی ہے لہٰذا عید کی ساعت سعید کے چھوڑے پٹاخوں میں سے مارٹر اور دیگر بھاری ہتھیاروں کو نکال دینا ہی بہتر ہوگا۔
یہ بات پرانی ہوئی، مارٹر کے گولوں کی چاند ماری میں گزری چاند رات کو اب دیارِ غیر کی بے پرواہ اداس شاموں کی نظر کھا گئی۔
ـــ
پسِ تحریر: اوپر مارٹر کے گولوں کی دھپ دھپ اور یکے بعد دیگرے دھماکوں کا ذکر ہوا تو کچھ اور بھی یاد آیا۔ ٹل سی ایم ایچ کے پڑوس میں گرے مارٹر گولوں سے بہت دور، ہمالیہ کے برفاب پہاڑوں اور ان پر بنے کنکریٹ بنکروں کا ذکر ہے۔ بے آب و گیاہ پہاڑوں اور ان کے بیچ کی وادیوں میں جب توپخانے کا فائر کُھلتا تھا تو ایک بازگشت کی گونج پہاڑوں میں سفر کرتی اوپر بنکروں تک آتی تھی۔ مگر ایک آواز اور بھی تھی جو توپوں کے دہانوں سے نکلتی گونج سے بھی زیادہ سفاک تھی۔ آرٹلری کا گولہ جب فضا کو چیرتا سفر کرتا ہے تو اس کے آگے ایک سنسناہٹ کی لہر ہے جو سفر کرتی ہے اور دہشت سے پھٹی آنکھوں اور چوکنا کانوں کو خبر کرتی ہے کہ گولہ اب پھٹا کہ تب پھٹا۔ کنکریٹ کے بنکر کی حفاظت میں بیٹھا دل بھی بے طرح کانپ اٹھتا ہے۔
صاحبو چند سیکنڈ پر محیط سناٹے کو چیرتی یہ سنسناہٹ زندگی کی کُل حقیقت ہے۔ ایک بھنبھناہٹ سے مشابہ یہ آواز عرفانِ ہستی ہے۔ یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ فلسطین کے نہتے مظلوم لوگوں پر جو اس عید کا چاند طلوع ہوا ہے تو اپنے جلو میں ہلاکت خیز بموں اور گولوں کی گونج لایا ہے۔
صاحبو چند سیکنڈ پر محیط اس جان لیوا سنسناہٹ پر کان لگائے ان بچوں اور عورتوں کے سروں پر تو کوئی کنکریٹ بنکر نہیں ہے۔ کھُلے آسمان تلے خیموں کی عارضی چھتوں میں محبوس ایک لمحے کے لیے اس سنسناہٹ کا احساس کیجیے، عید کی خوشی کو چاند پر لگے داغ کھا جائیں گے۔
ہمارے آپ کے استاد قمرؔ جلالوی نے کہا تھا
تمھارے چاند سے رخ کی قسم میں ہی ہوں قمرؔ
جگر کاداغ دکھا دوں جو اعتبار نہ ہو
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...