زیرِ نظر تصویر میں اپالو 11 کے خلاباز، نیل آرمسٹرانگ ، بز ایلڈرن اور مائکل کولن 1969 میں چاند سے واپسی پر ایک کیبن میں بند ہیں۔ جبکہ انکی بیگمات کیبن کے باہر انہیں دیکھ رہی ہیں۔ یہ خلاباز اپنی بیگموں کے ڈر سے بند نہیں بلکہ یہ تین ہفتے تک قرنطینہ میں ہیں۔ مگر کیوں؟
جب ناسا نے پہلی بار خلاباز چاند ہر بھیجے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہاں کوئی ایسے بیکٹریاز وائرس یا کوئی ایسی شے ہو سکتی ہے جس سے یہ خلاباز بیمار ہو جائیں۔ اب چونکہ چاند پر اگر بیکٹیریا یا وائرس ہوئے تو زمین والوں کے لیے تو یہ کرونا کیطرح باکل نئے وائرس وغیرہ ہونگے اور انکے ممکنا پھیلاؤ سے کرونا جیسی صورتحال یعنی وبا بھی پھیل سکتی تھی۔ لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ خلابازؤں کو زمین پر آنے کے فوراً بعد کم سے کم تین ہفتے کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس دوران طب کے ماہرین اور ڈاکٹرز انکی نگرانی کرتے رہے کہ ان میں کسی پراسرار بیماری کے آثار تو نمایاں نہیں ہو رہے۔
اسی دوران انکی بیگمات ان سے ملنے آئیں۔۔ تین ہفتے کے قرنطینہ کے بعد جب سائنسدانوں کو تسلی ہو گئی کہ یہ اپنے ساتھ کوئی نیا وائرس یا کوئی نئی بیماری نہیں لائے تو قرنطینہ ختم کر دیا گیا۔ اس تجربے سے سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا کہ چاند پر کوئی بھی مائیکروب یا وائرسز وغیرہ نہیں ہیں۔
کچھ اپالو مشنز مے بعد اپالو 15 ،16اور 17 کے خلابازؤں کے لیے چاند سے واپسی پر قرنطینہ کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا۔
مگر آج انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر جانے سے قبل خلاباز کچھ عرصہ کے لیے قرنطینہ میں جاتے ہیں جسکا مقصد اُنہیں خلائی مشن سے پہلے کسی انفیکشن یا بیماری سے محفوظ رکھنا ہوتا یے تاکہ وہ مشن کے دوران بیمار نہ ہوں۔
باقی بیگمات سے ڈرنا ایک فطری عمل ہے۔ اس بارے میں سائنس اور شوہر دونوں خاموش ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...