زیرِ نظر تصویر میں 1969 میں چاند پر اُترنے والے پہلے انسانی مشن اپالو 11 کے خلاباز بَز ایلڈرن، چاند پر آنے والے زلزلوں کو ماپنے کے لئے مخصوص آلہ رکھ رہے ہیں۔ اس آلے کو سیزمومیٹر کہتے ہیں۔ اس ایک سائنسی آلے میں دراصل چار مزید آلات نصب تھے۔ جن میں سے ایک چاند پر گرنے والے شہابیوں کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ماپتا تھا جبکہ مزید تین چاند پر دوسری وجوہات کی بنا پر زلزلے آنے کی صورت میں چاند کی سطح کے ہر سمت میں ہلنے کو (اوپر نیچے، دائں بائیں، آگے پیچھے) ماپتے۔ چاند پر دراصل زلزلے شہابیوں کے گرنے، چاند اور زمین کے آپس کے کھچاؤ جس ٹائیڈل فورس کہتے ہیں(جس سے زمین پر مدو جزر اور چاند پر زلزلے آتے ہیں) اور چاند کے دن اور رات کے درجہ حرارت میں فرق کے باعث سطح کے پھیلاؤ یا سکڑنے کے باعث آتے ہیں۔
اس سائنسی آلے کو کام کرنے کے لیے توانائی دو سولر پینلز سے ملتی جبکہ انکا ڈیٹا ایک اینٹینا کے ذریعے زمین تک بھیجا جاتا(تصویر میں اینٹنا کا رخ زمین کی طرف کیا گیا ہے).
اس آلے نے تقریبآ تین ہفتے تک چاند پر کامیابی سے زلزلے ماپے۔ اور ساتھ ہی ساتھ چاند کی سطح پر 200 کے قریب شہابیوں کے گرنے کو بھی ریکارڈ کیا۔
چاند اپنے محور کے گرد تقریباً 28 دن میں ایک چکر کاٹتا ہے۔ لہذا چاند کی ایک طرف 14 دن سورج کی روشنی اور دوسری طرف چودہ دن تاریکی رہتی ہے۔ اسکی روشن طرف درجہ حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ تاریک طرف درجہ حرارت منفی 130 ڈگری سینٹی گریڈ تک۔ مگر آلے کے ماپنے کی صلاحیت چونکہ درجہ حرارت میں بدلاؤ سے متاثر ہو سکتی تھی لہذا دن میں اسے گرم ہونے سے بچانے کے لیے اس میں سے حرارت کو کم کیا جاتا جبکہ رات میں اسے سٹینڈ بائے موڈ پر رکھا جاتا اور درجہ حرارت کو منفی 54 ڈگری تک رکھا جاتا کیونکہ اس سے نیچے درجہ حرارت پر یہ آلہ خراب ہو سکتا تھا۔ یعنی اس آلے میں چاند کے دن اور رات کے وقت مختلف حکمتِ عملی سے درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جاتا۔
گو اس آلے نے چاند پر کچھ ہفتے کام کیا۔ مگر بعد میں چاند پر جانے والے پانچ مزید مشنز میں خلابازوں نے چاند کی سطح پر کئی اور زلزلے ماپنے والے آلات رکھے جو 1977 تک فعال رہے۔ ان آلات سے سائنسدانوں کو چاند کی اندرونی ساخت کو سمجھنے میں اور چاند پر آنے والے زلزلوں کی شدت اور نوعیت کے بارے میں معلوم ہوا۔
گو یہ تمام آلات اب غیر فعال ہیں مگر ان سے حاصل ہونے والا ڈیٹا آج بھی سائنسدانوں اور محققین کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ آج بھی سائنسدان اس ڈیٹا میں سے مزید کم شدت کے زلزلے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کم شدت کے زلزلے اتنے بڑے ڈیٹا میں مشکل سے ہی دکھتے ہیں مگر آرٹفیشل انٹلیجنس کے ذریعے اس ڈیٹا کو دوبارہ کھنگالا جا رہا ہے تاکہ چاند پر آنے والے زلزلوں کو اور ان زلزلوں کی وجہ سے چاند کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
اس سب کا کیا فائدہ؟ اسکے دو بڑے فائدے ہیں۔ اول اس سے ہم چاند کی تاریخ اور ماضی میں چاند کے بننے اور نظامِ شمسی کے بارے میں مزید بہتر جان سکتے ہیں۔دوم چاند پر مستقبل میں انسانی آبادیوں کو قدرتی آفات جیسے کہ زلزلوں سے بچانے کے لیے مناسب حکمتِ عملی بنائی جا سکے گی۔
2024 میں ناسا ایک بار پھر انسان کو چاند پر اُتارے گا مگر اس سے پہلے اس پراجیکٹ(آرٹیمیس) کے تحت چاند پر کئی ٹیکنالوجیز کا ٹیسٹ کیا جائے گا جن میں یہاں زلزلے ماپنے کے نئے الات بھی بھیجے جائیں گے۔ ان آلات کی ٹیکنالوجی میں تحقیق اور پیش رفت میری حالیہ تحقیق کا حصہ رہا ہے۔ اور مستقبل میں میری اور پیرس میں میرے تحقیقی گروپ کا بنایا جانے والا زلزلے ماپنے کا جدید آلہ چاند پر زلزلے ماپے گا۔ اگر سب منصوبے کے مطابق رہا تو یہ آلات 2024 میں چاند کی دوسری طرف(وہ طرف جو زمین سے نظر نہیں آتی جسے فار سائیڈ کہتے ہیں) پر ہونگے۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بُتوں سے کیا فیض
اک براہمن نے کہا ہے کہ یہ سال (2024) اچھا ہے 🙂
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...