بھارت کے چندریان-3 مشن کے وکرام لینڈر نے 26 اگست کو چاند پر زلزلے ڈیٹیکٹ کیے۔ یاد رہے کہ چاند پر بھی زمین کی طرح زلزلے آتے ہیں تاہم یہ زلزلے زمین کے زلزلوں کی شدت سے کم ہوتے ہیں۔ وکرام لینڈر پر موجود زلزلوں کو ماپنے کے لیے ایک سائنسی آلہ نصب ہے۔ ایسا نہیں کہ چاند پر پہلے زلزلے نہیں ماپے گئے۔ اس سے قبل آخری مرتبہ 1977 میں اپالو مشنز کے تحت بھیجے جانے والے زلزلے ماپنے کے آلات جنہیں سیسمومویٹر کہتے ہیں، کے ذریعے چاند پر تواتر سے زلزلے ماپے جا چکے ہیں۔ یہ آلات ناسا کے اپالو مشنز کے دوران نیل آرمسٹرانگ اور دیگر خلا باز چھ مشنز کے دوران 1969 سے 1972 تک چاند کی سطح پر رکھ آئے تھے۔
زلزلے ہمیں کسی بھی سیارے یا چاند کی اندرونی ساخت کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آج جو ہم زمین کی مختلف تہوں کے متعلق جانتے ہیں وہ دراصل کوئی زمین کے اندر جا کر نہیں دیکھ آیا بلکہ جب زلزلوں کی لہریں زمین کے ایک طرف سے دوسری طرف زمین سے گزرتے ہوئیے جاتی ہیں تو ان لہروں کی توانائی، فریکوینسی اور دیگر خاصیتوں کے بدلاؤ سے ہم جان پاتے ہیں کہ زمین اندر سے کیسی ہے اور کن معدنیات یا دھاتوں سے بنی ہے بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے سامنے دیوار ہو اور آپ اسکے پار بنا دیکھے مرد اور عورتوں کی آوازیں پہچان سکیں اور بتا سکیں کہ کتنے مرد ہیں، کتنی عورتیں (وغیرہ وغیرہ ، میں یہاں محض سمجھانے اور سوچ کے زاویے کو تبدیل کرنے کے لیے یہ مثال دے رہا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں عموماً لوگ ابھی تک اس سوچ سے نہیں نکل پائے کہ کسی شے کو آنکھوں سے دیکھنا ہی بنیادی ثبوت نہیں اسکے متعلق دیگر مادی اور سائنسی طریقوں سے بھی جانا جا سکتا ہے)۔
چاند پر زلزلے کیوں آتے ہیں؟ اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ہم تین جانتے ہیں۔ پہلا چاند اور زمین کے مابین کششِ ثقل کے باعث جس طرح زمین میں سمندروں پر ٹائڈز یعنی کئی میٹر اونچی لہریں بنتی ہیں جنہیں جوار بھاٹا کہتے ہیں، ویسے ہی چاند بھی ہلتا ہے۔ جس سے وہاں ہلکے ہلکے زلزلے سے آتے ہیں۔
دوسری وجہ چاند پر شہابیوں کا گرنا ہے۔ اور تیسری وجہ چاند کی سست محوری گردش جسکے باعث چاند کی ایک طرف سورج کی روشنی قریب 14 دن تک پڑتی یے اور پھر جب یہ سائیڈ تاریکی میں جاتی ہے تو ٹھنڈی ہونے لگتی ہے۔ کسی گرم سطح کو اچانک ٹھنڈا کرنے سے اس میں تیزی سےبدلاؤ آتا ہے،کریک پیدا ہوتے ہیں اور یہ سکڑتی ہے (جیسے تتے توے پر پانی پھینکیں تو تڑ تڑ ہوتا ہے، یوں سمجھیں چاند بھی تتا توا بن کر جب سورج کی روشنی سے نکلتا ہے تو تڑ تڑ ہوتا ہے) جس سے چاند کی سطح پر زلزلے آتے ہیں۔
ہم جانتےہیں کہ زمین پر زلزلے اس میں موجود ٹیکٹانیک پلیٹس کے ٹکرانے سے پیدا ہوتے ہیں تاہم کیا چاند پر ایسا کچھ ہے، کیا چاند کی اندرونی ساخت بھی زمین جیسی ہے؟ اور کیا اس پر بھی زلزلے اسکے اندر سے پیدا ہوتے ہیں؟ یہ سب حتمی طور پر ہم تب ہی بتا سکتے ہیں جب ہم چاند پر کوئی بڑا زلزلہ ڈیٹیکٹ کریں۔
چندریان-3 مشن میں موجود زلزلے ماپنے کا آلہ ایک بنیادی مگر اہم آلہ ہے تاہم 2025 میں ناسا، فرنچ سپیس ایجنسی اور پیرس میں موجود سائنسدانوں کی ٹیم جسکا میں بھی رکن ہوں، کی مدد سے چاند کی زمین سے نہ دکھنے والی سائیڈ (جسے فار سائیڈ کہا جاتا ہے) پر زلزلے ماپنے والا لینڈر لینڈ کرائے گا جسے “فار سائیڈ سائیامیک سوٹ” کا نام دیا گیا ہے۔ اس حساس آلے کی مدد سے ہم چاند پر آنے والے کم اور زیادہ شدت دونوں کے زلزلوں کو ماپ سکیں گے جس سے ہم چاند کی اندرونی ساخت کے متعلق حتمی رائے قائم کر سکیں گے۔
اس سب کے علاوہ 1977 تک کا حاصل شدہ اپالو مشنز کا زلزلوں کا ڈیٹا بھی میری ٹیم کے سائنسدان آرٹفیشیل انٹلجینس کے ذریعے پھر سے کنگھال رہے ہیں جس سے ہم بہتر طور پر چاند کی اندرونی ساخت کو جان سکیں گے۔
2011 کی ناسا کی تحقیق کے مطابق چاند کی اندرونی تہہ بھی زمین کی طرح پگھلے لوہے سے بنی ہے اور حال ہی یعنی 2023 میں کششِ ثقل ماپنے والے حساس آلات اور انکے ڈیٹا کی مدد سے اس خیال کو تقویت بھی ملی ہے تاہم اس پر مزید تحقیق اور مزید ڈیٹا کے بعد ہی ہم چاند کے اندر کے رزاوں کو جان پائیں گے۔
چاند پر مستقبل میں آباد کاریوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ چاند پر کس نوعیت اور کس شدت کے زلزلے آتے ہیں۔
خوش رہیں، سائنس سیکھتے رہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...