چاند پر پانی ۔۔۔۔
کائنات ایک حیرت کدہ ہے، اور یہ حیرت کدہ صدیوں سے ہمیں حیرت زدہ کرتا آرہا ہے، اس کی خوبصورتی میں بڑا حصہ اس کی پراسرایت ڈالتی آئی ہے، اگر کائنات پرسرار نہ ہوتی تو پھر شاید انسان اس سے جلد اکتا جاتا کیونکہ انسان کی خاصیت ہے کہ یہ کسی بھی شے میں اس وقت تک engage رہتا ہے جب تک یہ اسے مکمل جان نہ لے، یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ہر کمپنی اپنے آپریٹنگ سسٹم کو ہر سال modify کرتی رہتی ہے، چاہے اینڈرائیڈ ہو، ونڈوز ہو یا آئی فون ہو، ہر سال یہ اپنے نئے ورژن متعارف کروا کر اور اپڈیٹ ارسال کرکے خود میں جدت اور تبدیلی لاتے رہتے ہیں جس کے باعث ان کا کسٹمر ان کے ساتھ (stick)چپکا رہتا ہے، ایسے ہی کائنات بہت بڑا "آپریٹنگ سسٹم" ہے اس کی جدت کا عالم یہ ہے کہ صدیوں سے انسان اس سے ہم کلام ہے اور یہ ہر آن اپنا ایک نیا روپ دکھانا شروع ہوجاتی ہے، ایسا ہی کچھ کل ہمارے ساتھ ہوا جب کائنات سے سرگوشیاں کرتے سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ چاند پر پانی دریافت کرلیا گیا ہے، جی ہاں! چاند کے شمال اور جنوبی قطب پر موجود گڑھوں میں پانی برف کی شکل میں دریافت کرلیا گیا ہے، یہ پہلا وقت ہے کہ جب انسان نے زمین کے اتنے قریب کسی جسم پر پانی دریافت کیا ہے، اس سے پہلے مریخ کے قطبین پر پانی کی موجودگی کے وسیع ذخائر ملے تھے، اس عظیم دریافت کا سہرا ناسا کی ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے Moon Mineralogy Mapper نامی آلے کے ذریعے چاند کی تین جگہوں پر پانی کے ذخائر دریافت کیے ہیں، چاند کے ان حصوں پر سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی جس وجہ سے یہاں پر درجہ حرارت منفی 157 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے، اگرچہ سائنسدانوں کو ایک عرصے سے چاند کے ان حصوں میں پانی کی موجودگی کے متعلق شک تھا مگر یہ پہلی بار ہے کہ اس کی تصدیق کرلی گئی ہے، یہ بات ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ماضی میں چاند پر پانی موجود رہا ہوگا جو چاند کی کم کشش ثقل باعث خلاء میں بکھر گیا ہوگا اور یہ پانی سورج کی روشنی نہ پہنچ پانے کے باعث liquid یا گیس نہ بن سکا سو برف کی شکل میں جما رہ گیا، اس دریافت سے ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برف کے نیچے اگر پانی مائع حالت میں ہوا تو اس میں زندگی ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں چاند پر دوبارہ لینڈنگ کے بعد ہی مل سکتا ہے، اس دریافت کے بعد سائنسدانوں کو چاند پر base camps بنانے کے لئے ایک نئی جگہ مل گئی ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں مریخ کی جانب بھیجے جانے والے مشنز کو چاند پر stay بھی کروایا جاسکے گا یعنی چاند اب مریخ اور زمین کے درمیان خلائی stop کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے، یاد رہے کہ بھارت نے 2008ء میں Chandrayaan-1 نامی خلائی جہاز چاند کی جانب بھیجاتھا جس نے چاند کے گرد چکر لگاتے ہوئے مختلف data حاصل کیا تھا، اسی ڈیٹا کی مدد سے سائنسدانوں نے چاند پہ پانی دریافت کیا ہے… کائنات ہم سے باتیں کررہی ہے اپنے اندر چھپے راز بتانا چاہ رہی ہے بس ہمیں کائنات کی زبان کو سمجھنا ہے، اس عظیم دریافت سے خلائی ایجنسیز اب چاند پر اپنے مستقل base camps بنانے کا سوچ رہی ہیں، کتنا خوبصورت احساس ہے کہ ہم پہلے سنتے تھے کہ انسان نے چاند پر قدم رکھا.. کچھ سالوں بعد ہم سنیں گے کہ انسان چاند پر رہتا بھی ہے…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“