چند لمحے مستقبل کی دنیا میں!
نمائش عالم 2136 ء
مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ ۲۱۳۶ء کے سال کا پہلا دن جو عیسوی کیلنڈر میں یکم جنوری کہلاتا ہے اور دوپہر کے کھانے کا وقت تھا جب میں نے متکلّم اخبار کے ذریعہ جو حسب دستور آلے کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ نمائش عالم کے افتتاح کی تیاریوں اور اطراف و اکناف سے ممتاز شخصیتوں کی آمد کی خبر سُن کر شرکت کا مصمم ارادہ کیا۔ ہاں۔۔۔۔ مجھے یہ بھی خیال پڑتا ہے کہ جمیل نے اس موقع پر ۔۔۔ شاید تاریخ میں یہ پڑھ کر کہ پہلے لوگ بیسوں صفحے کے اخبار گھنٹوں پڑھا کرتے تھے مجھ سے چند سوالات کئے تھے شاید وہ کہہ رہا تھا کہ ’’ کیا ہمارے پردادا دنیا بھر کی خبریں پڑھنے میں گھنٹوں مشغول رہتے تھے؟۔۔۔۔۔ کیا پہلے کے اخبار چھوٹے ہوتے تھے؟ ۔۔۔۔ کیا ان کو فرصت بہت رہا کرتی تھی؟‘‘ میں نے ڈانٹ بتلا کر خاموش کر دیا اور بڑی توجہ سے اس کی تفصیلات معلوم کیں اور فیصلہ کیا کہ سیکنڈ ایریل ایکسپریس لائنز سے ’’Second Aerial Express Line‘‘ جو چار بجے چھوٹ کر عین رسم افتتاح کے وقت دس بجے شب میں ’’ڈنجان‘‘ افریقہ، نمائش عالم پہنچے گا روانہ ہو جاؤں۔ میں نے تخلیہ ’’ان‘‘ سے اپنے ارادے کا تذکرہ کیا، بال بچوں کو سینما کا لالچ دے کر دو گھنٹے کے اندر اندر میں خود اور میرے کئی احباب تیار ہو گئے۔ واپسی اور نمائش کے لیے صرف چار پونڈ درکار ہوئے۔ نمائش دنیا کے تاریک ترین جنگلی حصے میں جس کو وسط افریقہ کہتے ہیں اور جہاں کسی زمانہ میں گزر بھی مشکل تھا اور جس کو قدرتی مناظر کا لطف اٹھانے کے لیے محفوظ کر لیا گیا تھا منعقد ہوئی تھی۔ راستے میں کوئی قابل ذکر بات ایسی نہ ہوئی باد صرصر کی طرح ہمارا جہاز چل رہا تھا یا یوں کہو کہ اڑا چلا جا رہا تھا۔ ہاں یہ یاد پڑتا ہے کہ چندے عورت و مرد کے تعلقات پر دلچسپ بحث رہی۔ دیگر ہمسفر اقوام کی عورتوں کی آزادی، بے باکانہ چہل پہل اور ان کے جسم کے بے پردہ حسین حصوں کو دیکھ کر میں اپنے مرد احباب کے ساتھ تعجب اور افسوس کا اظہار کر رہا تھا اور ہماری عورتیں کہہ رہی تھیں کہ مسلمان ہمیشہ قدامت پرستی سے کام لیتے رہے ہیں آج صدیوں بعد ہمیں کھلے چہروں کے ساتھ مردوں میں اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب ہندوستان کی دیگر اقوام کی عورتیں باہر نکل گئیں تو ہمیں سفید چادر میں لپیٹ کر باہر نکالا گیا اور آج جبکہ دیگر اقوام نے عورت و مرد کی تمیز ہی اٹھا دی ہے تو ہمیں کُھلے چہروں کے ساتھ مردوں کے ساتھ چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ہماری عورتیں گو کُھلا کر اظہار خیالات نہ کرتی تھیں لیکن لطیفہ خانم کی ہمنوا ضرور معلوم ہوتی تھیں۔ یہ لطیفہ خانم دیگر اقوام کی عورتوں کی طرح رہتی سہتی اور تنہا ہی سفر کرتی تھیں۔ مسلمان مرد اور عورتوں کو اکٹھا دیکھ کر ہمارے پاس آ گئی تھی قریب دس بجے شب میں ہمارا جہاز نمائش گاہ میں پہنچ گیا۔ ہم ابھی جہاز سے اُترے ہی تھے کہ سائیں سائیں کرتے ہوئے انسانوں کے غول کے غول آسمان پر سے اُترتے ہوئے دکھائی دئیے۔ جن کے دونوں بازوں پر دھات کے بازو لگے ہوئے۔ زمیں پر یہ لوگ قدرے ترچھے اترتے تھے اور چند قدم دوڑ کر چلنے کے بعد ٹھہر جاتے تھے اور متعینہ ملازمین فوراً ان کے پاس پہنچ کر بازو نکال لیتے تھے اور وہ (اترنے والے لوگ) دیگر تفریحات میں مشغول ہو جاتے تھے۔ مُجھے بازوں کے سہارے سے اترنے والوں میں کوئی عورت نظر نہ آئی تو میں نے ایک ملازم سے دریافت کیا کہ یہ کہاں کے لوگ ہیں؟ ’’معلوم ہوا کہ یہ سب فرانسیسی ہیں اور فرانس میں قانوناً عورت و مرد کی تمیز اڑا دی گئی ہے۔ زنانہ لناس پہننا یا اور کسی قسم کا نسوانی نشان باقی رکھنا وہاں جرم قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ ان کے کپڑوں کی تراش خراش یکساں، چہرے بال سے خالی، جوتے یکساں مردانہ اور لُطف یہ کہ بات چیت میں نسوانی الفاظ کا استعمال بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے اپنی ساتھی عورتوں سے کہا کہ ترقی کے اس زینے اور معیار پر تمہیں رہنا پسند ہو تو ہمیں بھی مردوں سے تمہارا آزادانہ خلط ملکط گوارہ ہو سکتا ہے۔ یہیں ہمیں معلوم ہوا کہ تعلقات زن و شوہر اس میں باقی نہیں رہے۔ اب وہاں عقد و نکاح کی مجلس قصّہ پارینہ ہو گئی ہیں۔ کسی ساعت دو جان ایک قالب ہوئے اور پھر پتہ نہیں رہتا کہ کون ملا تھا اور کیا ہوا تھا۔ بعض لوگوں میں محبت ہو جانے کی وجہ سے چند سے یکجائی اور لطف صحبت سہتا ہے لیکن کسی بات کی کسی پر کوئی پابندی اس یکجائی سے قانوناً عائد نہیں ہوتی۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم کا انتظام حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔ کوئی اولاد کسی خاص شخص کی طرف منسوب نہیں ہوتی بلکہ حکومت کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ فرانس کی کوئی عورت آج یہ نہیں بتلا سکتی کہ فلاں بچہ جس کی اسپتال میں پرورش ہو رہی ہے میرا ہے۔ کیونکہ ماں اپنے اس جنین کو جس کو کبھی وہ نو ماہ اپنا خون پلا کر پیٹ میں پالتہ تھی آج ایک ہی ماہ میں علیحدہ کر دیتی ہے اور ان اسپتالوں میں جو کبھی زچگی خانے تھے ان کی پرورش ہوتی ہے۔ ہم ہندوستان میں مرغی کے انڈوں سے منٹوں اور لمحوں میں ایک خاص ماحول میں رکھ کر بچے پیدا کر کے خوش ہوتے تھے اور یہاں یہ دیکھ کر حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ انسانی بچے اسی اصول کے ماتحت انسانی لطغوں سے پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جس طرح ہم دھات کے بازؤں سے اترنے ولے لوگوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے وہ ہمیں اچنبھے اور تعجب سے تک رہے تھے۔ خصوصاً ہماری عورتیں اپنی سادگی اور کالی پیلی ساڑیوں کی وجہ سے ان کے لیے تماشہ تھیں نمائش گاہ میں شرکت کرنے والے مردوں کے لباس میں ایک حد تک یکسانیت تھی لیکن مشرقی ممالک کی عورتوں کے لباس اور ان کے بناؤ سنگار میں بڑا فرق تھا، مغربی عورتیں مردانہ لباس میں ملبوس تھیں لیکن فرانسیسی خاتون کی طرح ان کا تمیز کرنا مشکل نہ تھا۔ کسی کے لمبے لمبے بال نسوانیت کی چغلی کھا رہے تھے، اور کسی کی دیگر ادائیں یہ بتلا رہی تھیں کہ یہ مائی حوا کی بیٹیاں ہیں۔ میں یہ بتلانے کو بھول گیا کہ دھات کے بازؤں کی مدد سے نمائش گاہ میں اترنے والے لوگ دور دراز کا سفر طے کر کے نہیں آئے تھے بلکہ وہ بھہ ہوئی جہازات کے ذریعہ ہوائی مستقر پر اترے تھے لیکن ان کی کمپنیوں نے نمائش گاہ میں جانے کے لیے برقی بازو مہیا کیے تھے جیسے ہمارے واسطے برقی موٹروں کا انتظام کیا گیا تھا۔ نمائش کے ایک حصے میں بھی جہاں ہوائی جہارات کی عہد، عہد کی ترقیوں کے نمونے رکھے تھے ان برقی بازؤں کی نمائش کی جا رہی تھی اور یہ عام طور سے فروخت بھی ہو رہے تھے۔ معلوم ہوا جس طرح یورپ کی ایجادات سالہا سال بعد ہندوستان میں پہنچتی رہی ہیں۔ یہ بازؤ بھی ہندوستان میں نہیں بھیجے گے ہیں۔ دراصل اس وقت تک ان بازؤؓ کی مدد سے دور دراز کا سفر ممکن نہیں ہوا ہے صرف ایک خاص بلندی سے تھوڑی مسافت کا راستہ آدمی بآسانی طے کر سکتا ہے۔ نمائش کا وہ حصہ ہمارے لیے بہت ہی جازب توجہ تھا جس میں انسانی لطفوں کی پرورش کے شیشے رکھے تھے اور جن کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ہم اس ایک بے حقیقت اور حقیر قطرے سے کس طرح جراثیم حیات میں تبدیل ہو کر انسانی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ان شیشوں کو دیکھ کر ہماری عورتیں یہ کہہ اٹھیں کہ بس مغرب مذہب سے بے نیاز ہو گیا ہے اور وہ اپنے خالق و مالک کو بھول گیا ہے۔ میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربیوں کی ایک بڑی جماعت مذہبی احکام اور مذہبی باتوں کو اساطیرالاولین سے زیادہ وقعت نہیں دیتی لیکن مجھے تاریخ کا کوئی زمانہ اور اس کا دور منکرین خدا سے خالی نہیں نظر آتا۔ خواہ وہ دور، دور ترقی ہو یا دور وحشت و بربریت۔ اگر قدیم ترین کتابوں میں شداد و فرعون کے قصّے موجود ہیں تو روزانہ خبروں میں بھی شداد و فرعون صفت انسانوں کی تعلیوں کا حال ہم سنتے ہیں۔ ٹھیک اس وقت جبکہ ہم اس دلچسپ بحث میں مشغول تھے ایک پتلے نے جو سراہے پہلے سے نصب تھا اور جس کو میں یہ سمجھ رہا تھا کہ محض خوبورتی کے لیے کھڑا کر دیا گیا ہے بولنا شروع کیا۔ وہ اپنے سینے کی طرف انگلی لے جا لیجا کر کہہ رہا تھا۔ ’’میری سنو! میری سنو! خبروں کے آلے آپ کے یہاں نصب ہونگے چونکہ آج کل محض خبریں معلوم کرنے کے لیے اخبار پڑھنا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ کا بہت سارا قیمتی وقت ضائع نہیں جاتا لیکن مجھے تعجب ہے کہ آپ گرامو فون کے رکھ رکھاؤ اور محض اس کے ریکارڈوں کی خریداری میں اب تک کیوں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ ایک ادنٰی سے معاوضہ پر میں آپ کی عمر بھر غلامی کرنے کو تیار ہوں۔ میں ہر وقت اور ہر زبان میں دنیا بھر کے عمدہ اور چیدہ گانے سُنا سکتا ہوں اور خبریں بھی بتلا سکتا ہوں، میں بیسویں صدی کی پیداوار ہوں، مجھے آپ اپنے ساتھ آج ہی لے چلئے اور میرے مالک کو ایک سو پونڈ ادا کر دیجئے۔ میری غذا الیکٹرک (برقی طاقت) ہے اور روزانہ چار آنے میں میرا پیت بھر جاتا ہے۔ آپ کے کان تھوڑی دور کی آواز سُن سکتے ہیں اور میں ہوا سے دنیا کے ہر گوشہ کی آواز سُن کر اپنے سینہ میں بند کر لیتا ہوں اور آپ کی مرضی کے مطابق ان کو آپ کے گوشگذار کر سکتا ہوں۔ مجھ کو آلہ لاسلکی کی ترقی یافتہ شکل سمجھو اور کیا عرض کروں۔ اچھا رخصت۔ میرے ملنے کا پتہ نمائش عالم خانہ نمبر ۸۰ ، ہریسن اینڈ کمپنی لندن۔‘‘
اس دھاتی پتلے کی تقریر سے ہم سب مبہوت ہو گئے۔ اشتہار بازی کا یہ نیا طریقہ ہمیں بے حد پسند آیا۔ اس دوران میں روشنی کا ایک غبارہ اوپر اڑتا ہوا دکھائی پڑا۔ یہ غبارہ جوں جوں اوپر ہوتا جاتا تھا بڑھتا جاتا تھا۔ ایک خاص بلندی پر وہ جا کر رک گیا اور اس میں سے یہ الفاظ نمایا ہوئے ’’ میڈن فودپلز یعنی کھانے کی گولیاں۔ ایک گولی کھا لینے کے بعد دن بھر غذا کی حاجت نہیں ہوتی۔‘‘ معلوم ہوا کہ کھانا پکانے اور بیٹھ کر کھانے کی بھی اہل یورپ نے ضورت نہیں رکھی اور آئے دن ان گولیوں کا استعمال عام ہوتا جاتا ہے۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا
غضب خدا کا ٹھیک اس وقت جبکہ میں میٹھی نیند کا مزہ لیتے ہوئے عالم خواب میں آج سے دو سو برس بعد آنے والے زمانے کی ایک نمائش کی سیر کر رہا تھا ایک ایسا دھماکا ہوا جس سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے انہیں ایک طرف جھکا ہوا دیکھ کر بیساختہ پوچھا۔
’’کیوں۔ کیا ہوا؟‘‘ جواب ملا کہ ’’پاندان ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔‘‘ دوسری طرف سے مرغ سحر نے بھی بانگ دی معلوم ہوا کہ صبح ہو گئی ہے۔ ایک جانب لحاف پھینک کر کھڑے ہو گئے۔ خواب کی باتیں یاد کر کے یہ شعر زبان پر آیا:
آنکھ جو کچھ دیکھ ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی
واقعہ یہ ہے کہ رات کو میں مستقبل عالم پر لارڈ برکن ہڈ آنجہانی کا ایک مضمون پڑھتے پڑھتے سو گیا تھا دماغ پر جو باتیں مرتسم ہو گئیں تھیں وہ خواب و خیال میں تبدیل ہو گئیں اور سچ یہ ہے کہ دنیا کی موجودہ ترقیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ آج سے دو سو برس بعد خواب واقعہ کی صورت میں پیش ہو گا۔