چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن بھی ہے جو فضا کے حجم کا 21 فیصد ہے۔ باقی ماندہ گیسیوں میں نائیٹروجن 78 فیصد جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی کے بخارات اور دیگر گییس کل ملا کر ایک فیصد ہیں۔ آپ جب سانس لیتے ہیں تو محض آکسیجن آپکے پھیپھڑوں تک نہیں جاتی بلکہ یہ تمام گیسیں بھی پھیپھڑوں کا مفت چکر لگاتی ہیں تاہم یہ خون میں شامل نہیں ہوتیں اور سانس باہر نکلانے پر یہ بھی آپکے ہر سانس کے ساتھ باہر نکل آتی ہیں۔
مریخ کی فضا زمین سے قریب 100 گنا لطیف ہے اور اسکی فضا زمین جیسی نہیں۔ مریخ کی فضا میں حجم کے اعتبار سے 95 فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ ، 2 فیصد نائٹروجن، آرگان گیس 1.9 فیصد جبکہ دیگر گییسں تقریباً 1 فیصد ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائڈ دراصل دو عناصر سے بنتی ہے۔ کاربن اور آکسیجن۔ اگر ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کیمیائی طریقے سے توڑیں تو اس میں سے ایک کاربن کا ایٹم جبکہ دو آکسیجن کے ایٹم نکلیں گے۔ آکسیجن کو اگر ہم محفوظ کر لیں تو اس سے ہمیں مریخ پر مستقبل کے مشنز میں انسانوں کو زندہ رکھنے کے لیے بے حد آکسیجن مل جائے گی۔ ہمیں زمین سے الگ سے آکسیجن کے سیلنڈر بھر بھر کر مریخ تک نہیں لے جانے پڑیں گے۔ جب کبھی مریخ پر آکسیجن کی ضرورت ہوئی، ایک عدد سائنسی آلہ لگایا جس نے مریخ کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے آکسیجن کشید کی اور ضرورت پوری کر دی۔
مگر کیا ایسا سائنسی آلہ بنایا جا سکتا ہے جو مریخ کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سانس لینے کے لیے آکسیجن کشید کرسکے؟ جی ہاں
ناسا کی 2020 میں مریخ پر اُترنے والی روور Perseverance میں موجود ایک آلہ تھا جسکا نام MOXIE ہے۔ یہ مریخ کی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مریخ پر MOXIE نے اپنے پہلے تجربے میں 20 اپریل 2021 کو تقریباً 5 گرام آکسیجن بنائی جو ایک انسان کو مریخ پر 10 منٹ تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس تجربے کی مدد سے ناسا مستقبل میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کے لیے وہاں پہلے ایسے آلات بھیج کر آکسیجن بنانا چاہتا ہے تاکہ جب انسان وہاں جائیں تو اُنکے استعمال کے لیے پہلے سے آکسیجن سٹور ہو۔
البتہ چاند پر آکسیجن کیسے بنائی جائے؟
کیونکہ وہاں تو فضا ہی نہیں۔ مگر وہ حضرتِ انسان ہی کیا جو عقل سے کام نہ لے ورنہ تو وہ بھیڑ بکری۔۔
ہم جانتے ہیں کہ چاند پر فضا نہیں البتہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چاند پر مٹی ہے۔ چاند خشک ہے۔ نہ وہاں پانی کے چشمے بہتے ہیں نہ وہاں کوئی ہوا یا سبزہ یے۔
مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چاند کی مٹی کن اجزا سے بنی یے۔
مگر کیسے ؟
وہ لوگ جنہیں چاند پر انسان کا اُترنا ایک جھوٹ لگتا ہے دراصل ذہنی ارتقاء میں ہیں اور جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کی سمجھ نہ رکھتے ہوئے ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اپالو مشنز جن میں 1969 سے 1972 تک چھ انسانی مشن چاند پر گئے اور 12 خلاباز چاند پر اُترے۔ ان تمام مشنز سے خلاباز زمین پر واپسی پر کئی سو کلوگرام چاند کی مٹی اور پتھر لائے۔ جنکا تجزیہ آج تک ہو رہا یے۔
ان مٹی کے نمونوں سے سائنسدان یہ جانتے ہیں کہ چاند کی مٹی کن عناصر سے بنی ہے۔
چاند کی مٹی میں دراصل 42 فیصد آکسیجن، 21 سلییکون، 13 فیصد لوہا 8 فیصد کیلشیم ،7 فیصد ایلومینیئم ، 6 فیصد مگینشیم جبکہ باقی عناصر کل ملا کر 3 فیصد ہیں۔تاہم یہ تمام عناصرکسی نہ کسی مقدار میں میں معدنیات کی صورت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔آپ چاند کی مٹی کو سونگھ کر اس سے آکسیجن نہیں لے سکتے۔
اب جب آپ چاند کی مٹی کے تمام اجزا جانتے ہوں تو آپ زمین پر عناصر کی ترتیب سے لیبارٹریوں میں مصنوعی چاند کی مٹی بنا سکتے ہیں۔
مصنوعی چاند کی مٹی بنانے کا کیا فائدہ؟
اسکا فائدہ یہ کہ اپ چاند کی مٹی کی خصوصیات والی مٹی پر مفید تجربات کر سکتے ہیں جیسے کہ اس میں کیا پودے اُگ سکتے ہیں یا کیا اس سے مستقبل میں چاند پر گھر بن سکتے ہیں ہا سب سے اہم کیا اس سے آکسیجن کشید کی جا سکتی ہےوغیرہ وغیرہ۔
تو جی!! چاند کی مٹی سے آکسیجن کشید کی جا سکتی ہے جو مستقبل میں وہاں بسنے والے انسان استعمال کر سکیں گے۔
حال ہی میں ناسا کے سائنسدانوں نے چاند کی مٹی کی خصوصیات اور ساخت رکھنے والی مصنوعی مٹی کو ایک مخصوص ویکویوم چیمبر سے گزارا جسے کاربو تھرمل چیمبر کہتے ہیں۔ اس چینبر میں محض چاند کی مٹی رکھی گئی اور اسے لیزر کی تیز روشنی سے پھگلایا گیا جس سے چیمبر میں مخصوص سائنس آلے “سپیسکٹرومیٹر” نے مٹی کے پگھلنے سے پیدا ہونے والی گیسوں کا تجزیہ کیا۔
اس تجزے سے معلوم ہوا کہ مٹی کے پگھلنے سے اس میں سے کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہوئی جو دراصل آکسیجن اور کاربن کے ایٹموں سے بنی گیس ہے۔ جسکا یہ مطلب ہوا کہ مٹی کے پگھلنے سے آکسیجن کشید کی جا سکتی ہے۔
اب تصور کیجئے کہ مستقبل میں انسان چاند پر ہو اور وہاں موجود سورج کی روشنی کو کسی بڑے سے عدسے سے جمع کر کے اس سے کسی کمرے میں چاند کی مٹی کو پگھلائے اور اس سے پیدا ہونے والی آکسیجن کو وہاں سٹور کر دے۔
یہ آکسیجن نہ صرف انسانوں کو وہاں سانس لینے میں مددگار ثابت ہو گی بلکہ اگر مستقبل میں انسان وہاں سے راکٹ بنائے تو راکٹ میں عموماً ہائیڈروجن اور آکسیجن ایندھن کے طور پر جلتی ہیں۔ لہذا اس طریقے سے ببنے والی آکسیجن راکٹ کے فیول کو جلانے میں استعمال ہوسکے گی۔ اور چونکہ چاند کی گرویوٹی زمین سے کم ہے لہذا ایک راکٹ خلا میں کم ایندھن کے ساتھ زہادہ سامان لے جا سکے گا۔ گویا ہم چاند سے خلا کی تسخیر زیادہ بہتر اور دور تک کر سکیں گے۔
#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...