انڈیا نے اس سال چاند پر اپنا مشن بھیجے کا اعلان کیا ہے۔ نہ صرف یہ انڈیا کی چاند پر پہنچنے کی پہلی کوشش ہو گی بلکہ یہ اس جگہ پہنچنے کی کوشش ہو گی، جہاں پر پہلے کوئی نہیں گیا۔ یہ چاند کے قطبِ جنوبی کی طرف جانے والا مشن ہے۔ اگر یہ کامیابی سے یہاں پر پہنچ گیا تو یہ زیادہ دیر اکیلا شاید نہیں رہے گاے کیونکہ جیف بیزوس کی سپیس کمپنی بلیو اوریجن بھی چاند کے قطبِ جنوبی کی طرف مشن پلان کر رہی ہے۔ لیکن اس جگہ پر یکایک دلچسپی کیوں؟ یہاں پر ایسا کیا ہے جو دیکھنے کے قابل ہے؟ یہ جگہ زمین سے باہر انسانی کالونی بنانے کا پڑاوٗ ہو سکتا ہے۔
آج تک صرف تین ممالک چاند پر لینڈ کر سکے ہیں۔ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین۔ اپریل 2019 میں اسرائیل نے یہاں پر لینڈ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اپنی آخری لینڈنگ میں اس کا راکٹ فیل ہو گیا۔ انڈین خلائی ایجنسی اس میں چوتھا نمبر لینا چاہتی ہے۔ چندرایان دوئم نامی مشن ایک لینڈر وکرم ااور روور پراگیان کو لے کر چاند پر اترنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چاند پر لینڈ کرنے کی یہ انڈیا کی پہلی کوشش ہو گی۔ انڈیا اس سے قبل چندرایان اول نامی مشن چاند پر بھیج چکا ہے جو کہ آربٹر تھا یعنی چاند کے گرد چکر کاٹنے والا۔ چندرایان اول کو اکتوبر 2008 میں چاند پر بھیجا گیا تھا اور یہ دس ماہ تک چاند کے گرد مدار میں رہا تھا جب اس پر سوار ناسا کے انسٹرومنٹ نے چاند کی سطح کو سٹڈی کیا تھا۔ یہی وہ مشن تھا جس سے حاصل کردہ ریڈنگز کو دیکھ کر 2018 میں اعلان کیا گیا تھا کہ منجد پانی (یعنی کہ برف) چاند کے قطبین پر پایا جاتا ہے۔ یہ وہ خبر ہے جس نے قطبین کی دوڑ شروع کی ہے۔
نہیں نہیں، یہ برف زمین کی طرف بڑے شیٹ کی صورت میں نہیں ہے۔ یہ کم مقدار میں ہے اور چاند کی مٹی میں ملی ہوئی ہے۔ لیکن چاند پر برف؟ یہ کیسے رہ سکتی ہے؟ ہمیں یہ علم نہیں کہ یہ یہاں تک پہنچی کیسے۔ یہاں پر گرنے والے اجسام کی مدد سے یا آتش فشانی عمل کی وجہ سے لیکن اس کا ہمیں پتا ہے کہ یہ یہاں رہتی کیسے ہے۔ قطبین پر سورج افق پر رہتا ہے اور یہاں پر بڑے گڑھوں کے اندر مستقل اندھیرا رہتا ہے اور ان کے اندر سردی ہے۔ درجہ حرارت منفی 156 ڈگری سے اوپر نہیں جاتا۔ چونکہ یہاں پر مستقل اندھیرا رہتا ہے، اس لئے اس برف کو گرم ہو کر بخارات میں بدلنے کا موقع نہیں ملتا۔ اندازہ ہے کہ قطبِ جنوبی پر یہ برف دس ہزار سے لے کر دس کروڑ ٹن کے درمیان میں ہو سکتی ہے۔
ہمارے لئے یہ اچھی خبر ہے کیونکہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور اگر چاند سے ہی یہ حاصل کیا جا سکے تو یہاں رہنے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا ہے اور یہ راکٹ کے ایندھن کے لئے ضروری ہیں۔ برف کے ان فوائد کا مطلب یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اگر چاند پر کالونی بنائی گئی تو وہ قطبین پر ہو گی۔ دو اور مسائل ہیں۔ ایک تو سردی اور دوسرا یہ کہ اندھیرے میں شمسی توانائی کیسے بنائی جائے گی؟ یہاں پر قطبین کی سورج کے ساتھ منفرد جیومیٹری دوبارہ کام آتی ہے۔ جس طرح کچھ گڑھوں میں مستقل سایہ ہے، ویسے کچھ ٹیلوں پر یا گڑھوں کے دہانوں پر مستقل روشنی جو دو سو زمین دنوں تک مسلسل رہتی ہے۔ روشنی والے کچھ مقام ان تاریکی والے گڑھوں کے بالکل ساتھ ہیں، جن میں برف ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک گڑھا شیکلٹن کریٹر ہے جو بلیو اوریجن کی منزل ہے۔ بلیو اوریجن جو لینڈر بھیجنے کا ڈیزائن کر رہا ہے، وہ چار چاند گاڑیاں لے کر جا سکے گا اور اس کی واپس آنے کی سٹیج انسانی خلابازوں کو بھی چاند سے اڑا سکے گی۔
انڈیا کا چندرایان مشن محض انڈیا کے لئے کامیابی نہیں ہو گی۔ یہ ہمارے لئے پہلا چانس ہو گا کہ ہم پہلی مرتبہ اس علاقے کی مٹی کو قریب سے دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ یہاں پر برف کتنی ہے۔ اگر یہ اسرائیل کے مشن کی طرح ناکام ہو گیا تو اگلی باری بلیو اوریجن کی ہو گی جو چاند پر پہنچنے والی پہلی پرائیویٹ کمپنی بن سکتی ہے۔ اور اس کے قطبِ جنوبی تک کی دوڑ میں پہلا نمبر لے سکتی ہے۔
کوئی بھی یہاں پر پہلے پہنچے، اس سے قطع نظر، اگر ہم یہ برف استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ایک بہت بڑا سنگِ میل ہو گا۔ اگر اس سے کالونی کو سپورٹ کیا جا سکے اور اس سے راکٹ کا ایندھن بنایا جا سکے تو چاند کا قطبِ جنوبی مریخ تک اور اس سے آگے پہنچنے کا پہلا سٹاپ ہو سکتا ہے۔
وکرم لینڈر کا پلان 6 ستمبر 2019 کو اترنے کا ہے اور بہت سے لوگ اس کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہوں گے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر چندرایان اول کے لانچ کی ہے۔
انڈین خلائی تحقیق کے ادارے کے پانی کی تلاش کے مشن پر