زندگی حادثات سے بھری ہوئی ہے۔میری زندگی کا سب سے خوبصورت حادثہ یہ تھا کہ میری ملاقات بذریعہ فون محروم پروفیسر ڈاکٹرعطش درانی (ماہر لسانیات ) سے ہوئی ۔ پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی سے بات کرتے ہوئے اکثر محسوس ہوتا یہ بہت مختصر بات کرتے ہیں۔اور جواب بھی مکمل نہیں دیتے۔ پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی کی شکل و شباہت ،بھاری بھرکم جسم مختصر بات کی وجہ ہوسکتا ہے۔ میرا خدشہ غلط تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی سے میری بات چیت ایم فل اردو کے ایک مضمون میں سہیلی کی نصابی مشق کا موضوع ــــ’’پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی بطور محقق‘‘ ہوئی۔کیونکہ سہیلی کچھ شرمیلی تھی۔اُسے یقین تھا میں بہتر انداز میں بات کروں گئی ۔اس لیے سہیلی نے ڈاکٹر عطش درانی (محروم) کا رابطہ نمبر مجھے دے دیا۔ تاکہ میں ڈاکٹر عطش درانی کی لکھی ہوئی کتب حاصل کرسکوں۔چونکہ میں خود اعتماد تھی۔پہلے پہل فون کرنے پر سوچا کہیں فون نہ اٹھایا۔اردو ادب کی قد آور شخصیت مجھ جیسی عام لڑکی کا فون اٹھائے گئی۔مگر پہلی ہی بیل پر ڈاکٹر عطش درانی نے فون اٹھایا اور مجھ سے دھیمے لہجے میں اپنے متعلق تفصیلی بات کی۔بلا معاوضہ کتب بھیجنے کی یقین دھیانی کروائی۔بغیر پیسوں کے کتب ملنا ۔خوشی دیدنی تھی ۔اگلے روز جب میں نے سہیلی کو بتایا وہ ذہنی پرسکون ہوگئی ۔کیوںکہ ’’پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی ‘‘ نصابی مشق کا موضوع تھا۔
چند روز گزرنے کے بعد مجھے کتب ڈاک کے ذریعے موصول ہوئیں۔میں نے ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے کتب سہیلی کے حوالے کردیں۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔سہیلی کی نصابی مشق ختم ہوگئی ۔مگر ڈاکٹر عطش درانی مجھے وقتاً فوقتاً کتب بھیجتے رہے۔ڈاکٹر عطش درانی کا بے لوث ہونا مجھے بے حد اچھا لگا تھا۔ڈاکٹر عطش درانی کے خلوص نے مجھے استاد کی عظمت سے واقف کروایا۔یونیورسٹی میں بہت سے استاد تھے۔جن سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔لیکن استاد کیا ہوتا ہے؟حقیقی معنوں میں مجھے ڈاکٹر عطش درانی کی معاملہ فہمی اور مشفقانہ مزاج نے باور کرایا۔
خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اس لیے استاد اور شاگرد کا یہ خوبصورت تعلق دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔علامہ محمد اقبال کے چند نظریات سے اختلاف ڈاکٹر عطش درانی کی اکثر باتوں سے جھلکتا تھا۔ کیوں کہ اقبالیات میرا پسندیدہ مضمون تھا۔ اس لیے شاعر مشرق کے ساتھ اختلاف سن کر برا بھی لگتا۔ چونکہ استاد کو جواب دینا مناسب نہیں تھا۔
وقت گزرتا گیا میرے علمی و ادبی بہت سارے مسائل ڈاکٹر عطش درانی پلک جھپکتے حل کردیتے تھے۔اسلام آباد میں خوبصورتی صرف مجھے اپنے استاد محترم کی وجہ سے دکھائی دیتی تھی ۔
حالات نے پلٹا کھایا اور ڈاکٹر عطش درانی کی طبیعت روز بروز خراب رہنے لگی۔ہفتہ ہفتہ مجھ سے رابطہ نہیں ہوتا تھا۔مجھے اندازہ نہیں تھا ۔طبیعت شدید خراب بھی ہوسکتی ہے۔ آخری سانس تک مجھے یہ کہتے رہے میں تمہارا ’’جگت استاد ‘‘ ہوں۔افسوس ! میرے دل میں ہمیشہ رہے گا ۔وہ مجھ سے چند باتیں کہنا چاہتے تھے ۔آخری دفعہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے ۔میں نے یہی سمجھا ڈاکٹر عطش درانی صحت یاب ہوجائیں گئے۔مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ اچانک مجھے یہ خبر سنائی گئی پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی کا انتقال ہوگیا ہے۔ وقت بہترین دوا تھی۔میں نے آج بھی کہیں کسی جگہ ڈاکٹر عطش درانی (محروم) کو فراموش نہیں کیا۔وہ میری تحریروں میں ہمیشہ زندہ تھے اور رہیںگئے۔۔۔۔۔کیوں کہ وہ استاد کامل تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...