سائنس کتنی پرانی ہے؟ جب سے انسان ہے تب سے تصور، تجسس، مشاہدات، سوالات ہیں۔ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ یہ کائنات کام کیسے کرتی ہے۔ ہزاروں سالوں سے انسان فطری مظاہر کا مشاہدہ کرتا آیا ہے۔ اور ان کی باقاعدگی کا پیٹرن پہچانا جا سکتا ہے۔ ان کی مدد سے ہم ان مظاہر کو سمجھتے ہیں اور مستقبل کی پیشگوئی کرتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے انسان نے ستاروں، سیاروں اور چاند کی حرکت کو نوٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ جاننے میں تو دیر نہیں لگی ہو گی کہ سورج اور چاند کی حرکات کا ردھم ہے۔ ماہ و سال بنائے گئے۔ موسموں کی باقاعدگی کا معلوم ہوا۔ قدیم کیلنڈر بنے۔ ان کی بنیاد پر راستے ڈھونڈنا، فصلیں پلان کرنا ممکن ہوا۔ لیکن گرہن؟ گرہن کا مظہر مشکل ہے۔
اگر اس کی وجہ کا علم نہ ہو اچانک آسمان پر تاریکی چھا جانا ایک خوفناک مظہر ہے۔ کئی ہزار سال پہلے سے لوگوں نے گرہن کے مشاہدات کا ریکارڈ رکھنا شروع کر دیا تھا۔ قدیم آسٹرونومر کے لئے یہ جاننا اہم ہو گا کہ یہ ہے کیا؟ یہ کب ہو گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار سائنس کی ترقی اس وقت ٹھہر جاتی ہے جب ہمیں کسی مسئلے کا سامنا ہو جس کو کسی بھی ایسے طریقے سے حل نہ کیا جا سکے جس کو ہم سمجھتے ہوں۔ کچھ مِسنگ ہو۔ کوئی نیا حربہ درکار ہو۔ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، جتنی بھی ٹکریں مار لیں، ہمیں جواب نہیں ملے گا جب تک کوئی اس معمے کے گمشدہ حصے کو دریافت نہیں کر لیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی آسٹرونومرز پر کچھ چیزیں پہلے واضح ہوئیں ہوں گی۔ گرہن اس وقت ہوتے ہیں جب سورج اور چاند آسمان پر مختلف راستے لیتے وقت ملتے ہیں۔ ان کے راستوں کا ملاپ دو جگہ پر ہوتا ہے۔ گرہن کی پیشگوئی کرنے کے لئے سورج کے سالانہ راستے کا ریکارڈ رکھنا ہے اور چاند کے ماہانہ راستے کا۔ ان راستوں کا پیچھا کرتے رہیں اور نوٹ کریں کہ ان کا ملاپ کہاں پر ہوتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی ایسا پیٹرن ضروری ہے جو قمری مہینے کے ساڑھے انتیس روز کا ملٹی پل ہو۔
لیکن یہ سادہ آئیڈیا کام نہیں کرتا۔ گرہن قمری مہینے کے حساب سے نہیں ہوتے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ تھیورسٹ کی جنریشن اس بارے میں اندازے لگاتی رہی ہوں گی اور ناکام ہوتی رہی ہوں گی کہ یہ ہوتا کب ہے۔ (شاید کسی وقت میں یہ اتنا ہی بڑا معمہ ہو گا جتنا ہمارے لئے جنرل ریلیٹیویٹی اور کوانٹم تھیوری کا ملاپ ہے)۔
ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کون تھا جسے معلوم ہوا کہ کہیں پر تصور کی کوئی گشدہ کڑی ہے۔ لیکن وہ جو بھی تھا، ہم اس کے آئیڈیا کی داد دے سکتے ہیں۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ شاید بابل میں یا پھر مصر میں، کوئی ماہرِ فلکیات تھا جسے اچانک ہی خیال آیا ہو گا کہ دو قسم کی حرکات نہیں بلکہ تین قسم کی حرکات کو دیکھنا ہے۔ شاید یہ کوئی دانا ہو جو دہائیوں تک آسمان دیکھتا رہا ہو، اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا ہو اور اسے یہ ڈیٹا زبانی یاد ہو چکا ہو۔ اس کا بار بار تجزیہ کرتا رہا ہو۔ بار بار کی ناکامیوں کے بعد اس نے اسی مسئلے کو کسی اور رخ سے دیکھا ہو۔ یا شاید کوئی نوجوان باغی ہو، جس نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہو کہ یہ مسئلہ ناقابلِ حل ہے۔ یہ ہمارے علم کی حد سے باہر ہے۔ یا پھر یہ کہ جو نظر نہیں آتا، وہ سائنس کے دائرے میں نہیں۔
یا پھر شاید دانا اور باغی نے مل کر کیا ہو۔ ایک کے پاس ڈیٹا کا گہرا علم اور دوسرے کے پاس تخیل۔ دونوں نے مل کر یہ بڑی گتھی سلجھا دی ہو۔
جو کچھ بھی تھا، اس سائنسدان نے ایک پرسرار تیسری oscillation دیکھ لی جو صرف ہر مہینے یا سال نہیں بلکہ تقریباً ساڑھے اٹھارہ سال بعد آتی ہے۔ وہ مقام جہاں پر سورج اور چاند ملتا ہے، خود جامد نہیں۔ یہ بھی ایک محور میں ہے۔ اور یہ مقام ساڑھے اٹھارہ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
اس تیسرے موشن کی دریافت ۔۔۔ معمے کا یہ ٹکڑا ۔۔۔ انسانی تجریدی سوچ کی ابتدائی عظیم کامیابیوں میں سے تھی۔ ہم دو آبجیکٹ دیکھتے ہیں۔ چاند اور سورج۔ دونوں کا ایک خاص پیرئیڈ ہے جو زمانہ قدیم سے معلوم ہے۔ لیکن ایک اور حرکت کرتی چیز کو “دیکھ” لینے کے لئے تصور کی آنکھ درکار تھی۔ یہ راستے کی حرکت تھی۔ تخیل کی اس جست نے نامعلوم کو معلوم کے احاطے میں داخل کر دیا۔