“کیا آپ نے میرا دوسرا موزہ دیکھا ہے ۔۔۔؟” میں اپنا ایک موزہ ہاتھ میں لیے گھر کے ایک ایک فرد سے یہ بات پوچھنے میں مصروف تھی ۔
لیکن سبھی کا جواب ” نہ” ہی تھا ۔
اس ماہ یہ تیسری مرتبہ ہورہا تھا کہ میری جرابوں کے جوڑوں میں سے ایک جراب کھو جاتی تھی اور دوسری باقی رہ جاتی تھی جس کا کوئی مصرف نہ تھا کیونکہ کوئی بھی ذی شعور انسان دو الگ الگ رنگ اور ڈیزائن کی جرابیں نہیں پہننا چاہے گا۔
تھک ہار کے میں نے اس واحد جراب کو ایک دراز میں ٹھونسا اور ایک اور جرابوں کا ایک اور جوڑا تلاش کرکے اسے پہننے لگی ۔۔۔۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے ناخن بڑھ رہے ہیں اور مجھے اپنے ناخن تراش لینے چاہییں۔
اب جو میں نے نیل کٹر تلاش کرنا شروع کیا تو وہ مجھے کہیں نہ نظر آیا ۔۔۔ سبھی دراز چھان مارے لیکن نیل کٹر کا کہیں کوئی نشان نہ تھا ۔
تنگ آکر میں نے ناخن تراشنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی تاکہ سنِکرز پہنوں اور واک کے لیے نکلوں ۔۔۔ لیکن یہ دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا کہ ایک گھنٹہ قبل جھاڑ کے رکھے سنِکرز اب اپنی جگہ پر موجود نہ تھے ۔۔۔ مجھے اب رونا آرہا تھا ۔
” لگتا ہے میرا اس دنیا میں آنے کا واحد مقصد صرف چیزیں گم کرنا ہے۔۔۔” میں نے سنِکرز کے بجائے عام استعمال کے شوز پہنتے سوچا ۔۔۔ میں بری طرح سے زچ ہوچکی تھی ۔
شوز پہننے کے بعد میں گھر سے باہر نکلی ۔۔۔ اور پارک کی بجائے میں عقبی سمت چند فرلانگ دور ایک کچے راستے کی طرف بڑھ گئی جو اونچائی کی طرف جاتا ہے ، آج میرا موڈ سخت خراب تھا ، اگر میں پارک میں جاتی اور میرا سامنا کسی سہیلی یا کلاس فیلو سے ہو جاتا تو اس حالت میں ان سے بھی الجھ پڑتی ۔۔۔ چنانچہ کسی سے بھی الجھنے اور بدمزگی سے بچنے کی خاطر میں نے اپنا رخ پارک کے بجائے تین کلومیٹر دور ڈھلانی علاقے کی بلندی پر واقع ایک قدیم ، ٹوٹے پھوٹے قلعے کے کھنڈرات کی طرف موڑ لیا جو کہ بہت پرسکون اور خاموش جگہ تھی ۔۔۔ اور وہاں شاذ و نادر ہی کوئی جاتا تھا ۔۔۔ اس وقت میرے لیے وہی مقام سب سے بہتر تھا کیونکہ وہاں مجھے تنہائی ، خاموشی اور سکون میسر آ سکتا تھا ۔
ٹریک پر بلندی کی سمت چلتے ہوئے میں بےاختیار یہی سوچ رہی تھی کہ آخر ہم ہمیشہ سے ہر چیز کھوتے کیوں آ رہے ہیں ؟ ہر انسان اپنی زندگی میں سینکڑوں ، ہزاروں عام استعمال اشیاء سے لے کر قیمتی چیزوں تک کو کھودیتا ہے۔۔۔ آخر یہ سب چیزیں جاتی کہاں ہیں ؟
نصف گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد میں اس قلعے کے کھنڈرات تک پہنچ گئی ۔۔۔ اور حسبِ توقع وہاں کوئی بھی اور موجود نہ تھا ، صرف خوشگوار ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ ۔۔۔ میں اندر کی طرف بڑھی اور قلعے کے باغ میں ایک ٹوٹے ، ہوئے خشک فوارے کی منڈیر پے بیٹھ کر سانس بحال کرنے لگی ۔۔۔ یہ جگہ انتہائی پرسکون تھی اور میں پندرہ منٹ سے بھی زیادہ دیر چپ چاپ ، وہیں بیٹھی رہی اور اپنے آپ کو ریلیکس کرنے کی کوشش میں مگن رہی ۔۔۔ اور کافی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہی !!
لیکن پھر آسمان پر موجود بادل گہرے ہونے لگے اور ہوا کی بہاؤ میں بھی تیزی آنے لگی ۔۔۔ اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا تھا ۔۔۔بارش !
میں اپنی جگہ سے اٹھی اور کھنڈر کی بیرونی سمت کی طرف بڑھ گئی ، اگر بارش ہو جاتی تو کچے راستے پر کافی کیچڑ بن جاتا اور میں اس سے قبل واپسی کا زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر لینا چاہتی تھی ۔۔۔ لیکن ابھی میں قلعے کی ٹوٹی پھوٹی فصیل کے نزدیک ہی پہنچی تھی کہ بادل زور سے گرجے اور بارش کی پہلی بوندیں گرنے لگیں ۔۔۔ بارش کی ان بوندوں کو تیز جھڑی کی شکل اختیار کر لینے میں محض چند سیکنڈ کا ہی وقت لگا !
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں وہیں ٹھہر کر بارش کے تھمنے کا انتظار کرتی ۔۔۔ بارش کے دوران ڈھلانی راستے پر نیچے کی سمت چلنا مناسب نہ تھا ۔۔
چنانچہ میں کھنڈر کے اس حصے کی طرف بڑھ گئی کہ جہاں چند کمرے ابھی بھی بوسیدہ مگر قدرے بہتر حالت میں تھے اور ان کی دیواریں و چھت سلامت تھی۔۔۔ میں یہاں پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی تھی اس لیے مجھے اندازہ تھا کہ بارش سے بچنے کے لیے کونسی جگہ مناسب ہے ۔۔۔
تیز قدم اٹھاتی میں چند لمحوں میں ہی اس کمرے تک پہنچ گئی جس کا دروازہ تو غائب تھا لیکن چھت سلامت تھی۔۔۔ اندر پہنچ کر میں اس سے اگلے کمرے کی سمت بڑھ گئی جس کا دروازہ اس کمرے سے نکلتا تھا ۔۔۔ یہ جگہ بارش سے بالکل محفوظ تھی۔۔ تیز بارش کے چھت سے ٹکرانے کی آواز الگ ہی سماں پیدا کررہی تھی ۔۔۔ میں ایک دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گئی اور اپنا ایک پسندیدہ گیت گنگنانے لگی ۔۔۔
مجھے وہاں بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے کمرے کی شرقی دیوار پر دھمک کی سی آواز محسوس ہوئی اور میں نےاس طرف دیکھا ۔۔۔ اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ اس دیوار کے عین وسط میں ایک چوبی دروازہ موجود تھا۔۔۔۔ اور اس دروازے کے کناروں سے دھیمی سی روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔۔۔
میں یہاں پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی تھی ۔۔۔ اس دیوار پر تو سرے سے کوئی دروازہ موجود ہی نہ تھا ۔۔۔ اور ویسے بھی اس دیوار کی دوسری سمت کوئی کمرہ نہیں تھا بلکہ محض ایک گھاس کا قطعہ تھا ۔
” یہ کیا معمہ ہے۔۔۔؟ ” یہ سوچتے ہوئے میں زمین سے اٹھی اور محتاط قدموں اس دروازے تک بڑھی ۔
دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔ لکڑی سے بنا یہ منقش دروازہ بہت اچھی حالت میں تھا ، اس تباہ حال کھنڈر میں ایک صحیح سلامت دروازے کی موجودگی بھی ایک اچھنبے سے کم نہ تھی ۔
میں نے جھجھکتے ہوئے ، دروازے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔اور اپنے ہاتھ کو دباتے ہوئے دروازے کو دھکیلنے کی کوشش کی ۔۔۔ اور خلافِ توقع ، میرے دھکیلنے سے دروازہ کھلتا چلا گیا ، دوسری سمت ایک ہال موجود تھا ، جسے میں وہاں سے صحیح طرح دیکھ نہیں پارہی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے دروازے کے اندر کی جانب قدم بڑھا دیا ، اور اگلے ہی لمحے میں دروازے کی دوسری سمت پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔
یہ ایک وسیع و عریض ہال نما عمارت کا اندرونی حصہ تھا ۔۔۔ جس کی وسعت کو دیکھ کر میں ششدر رہ گئی ۔۔۔ وہ عمارت نہایت خوبصورت، روشن اور تاحدِ نگاہ پھیلی ہوئی تھی اور مغل عمارات ، قدیم مصری اور قدیم یونانی طرزِ تعمیر کا ملا جلا منظر پیش کررہی تھی ۔
” یہ میں کہاں آگئی ۔۔۔” میں نے حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہوئے سوچا ۔
اسی وقت میری نظر اس دیوار پر پڑی کہ جہاں سے میں آئی تھی تو یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اب وہ دیوار سپاٹ تھی اور وہاں کوئی دروازہ موجود نہ تھا ۔۔۔ گھبراہٹ کے عالم میں میں اس دیوار کو دنوں ہاتھوں سے ٹھوک بجا کر دیکھنے لگی کہ چند لمحے پہلے یہاں موجود دروازہ آخر گیا کہاں ۔۔۔
” کیا تم کھو گئی ہو۔۔۔؟” اسی وقت ایک آواز میرے سماعت سے ٹکرائی اور میں چونک کر مڑی۔
چند قدم کے فاصلے پر میرے سامنے ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔ اس کے بال سنہرے اور آنکھیں سبز تھیں ،اس نے ایک سفید ڈریس شرٹ گَرے پینٹ اور ایک ہلکی سی جیکٹ پہن رکھی تھی ۔۔۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی اور معصومیت چھائی ہوئی تھی اور اس نے اپنے ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈال رکھے تھے ۔
” کیا تم۔۔۔۔ کھو گئی ہو ؟” اس نے پھر سے لب کشائی کی ۔
” ہاں۔۔۔ ” میں نے بےاختیار کہا۔
” Welcome to the Chamber of the Lost”
اس نے کہا ۔
” کک کیا مطلب۔۔۔ یہ کونسی جگہ ہے ؟؟” میں نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
” دنیا میں جو بھی چیز ۔۔۔ یا جو بھی شخص کھو جاتا ہے ، وہ سب کچھ۔۔۔۔ یہیں پایا جاتا ہے۔۔” اس نے کہا ۔
میں اس ناقابلِ فہم جواب پر ناسمجھی کی کیفیت میں کندھے اچکا کر رہ گئی ۔۔۔
” میرا نام لیونا ہے۔۔۔ میں یہاں کی گائیڈ ہوں ۔ یہاں ہر کھوئے ہوئے انسان کو اس کی جگہ دکھانا میری ہی ڈیوٹی ہے ” اس نے اپنا دائیاں ہاتھ میں سے نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
” میں کچھ سمجھ نہیں پارہی ۔۔۔” میں نے چار و ناچار اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
” شروع شروع میں سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ تھوڑا وقت لگ جاتا ہے سب کچھ سمجھنے اور ایڈجسٹ کرنے میں ۔۔۔ چلو میں تمہیں یہاں کا راؤنڈ لگوا دیتی ہوں ۔۔۔” لیونا نے کہا۔
اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
لیونا مڑی اور اس نے آگے کو قدم بڑھا دیا ، اور میں بھی اس کے پہلو میں ، اس کے ساتھ چل پڑی۔
” تم نے اپنا نام نہیں بتایا ۔۔۔” لیونا نے مجھ سے کہا۔
” میرا نام ستی ہے۔۔۔” میں نے جواب دیا۔
” تو ستی ۔۔۔دنیا میں ہر کسی سے سینکڑوں مرتبہ مختلف چیزیں کھو جاتی۔۔روزمرہ استعمال کی چیزوں سے لے کر بیش قیمت چیزوں تک ۔۔ ہیں لیکن ان میں سے بہت کم چیزیں ہی واپس مل پاتی ہیں ۔۔ کیا تم نے کبھی سوچا کہ باقی سب چیزیں کہاں جاتی ہیں ؟” لیونا نے چلتے چلتے مجھ سے پوچھا ۔
” ہاں ۔۔۔ کئی مرتبہ میں نے ایسا سوچا ، مگر اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ سوجھ پایا مجھے ۔۔” میں نے کہا ۔
” آج تمہیں اس سوال کا جواب مل جائے گا ۔۔۔” لیونا نے کہا ۔
ہم دونوں ایک وسیع راہداری میں چل رہے تھے ۔۔۔اس عمارت کی دیواریں سینکڑوں فٹ بلند تھیں ۔
ہر دیوار انتہائی خوبصورت اور منقش سنگ مرمر سے ڈھکی تھی اور یہاں کے بلند و بالا ستون ، بلندی پر واقع روشندان ، بلند چوبی دروازے ، چبوترے اور سیڑھیاں ۔۔۔ سب کچھ انتہائی منفرد طرزِ تعمیر کا شاہکار تھا ۔
کچھ دیر چلنے کے بعد لیونا ایک بلند اور بھاری دروازے کی نزدیک رکی ۔۔۔ اور اس نے اپنا چہرہ میری سمت موڑا ،
” تیار رہو اس دروازے کے پار تمہیں اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے مسئلے کا جواب ملنے والاہے۔۔۔”لیونا نے کہا ،یہ کہتے ہوئے ایک دھیمی سی مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کررکھا تھا جس میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا ۔
پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ دروازے کے دونوں پٹوں پر جمائے اور انہیں دھکیلا ۔۔۔ اور ہم دونوں اندر داخل ہوئیں ۔۔۔ یہ ایک وسیع ہال نما کمرہ تھا جس کی چھت بھی راہداری کی چھت جتنی ہی بلند تھی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ اس کمرے کے عین بیچوں بیچ ایک پہاڑ موجود تھا ۔۔۔ یہ پہاڑ لاکھوں کی تعداد میں رنگ برنگی جرابوں سے بنا تھا اور اتنا بلند تھا کہ اس کی چوٹی کو دیکھنے کے لیے پورا سر اٹھانا پڑتا تھا ۔۔۔ اور یہ سبھی جرابیں ، جوڑے کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ایک جراب کی شکل میں کمرے میں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔۔۔۔ اس کمرے میں ایک ادھیڑ عمر شخص موجود تھا جو ادھر ادھر بکھری جرابوں کو ایک جھاڑو سے سمیٹ کر پہاڑ کی سمت دھکیل رہا تھا ۔۔۔۔
” آج کتنی جرابیں پہنچی ہیں انکل مارک ؟” لیونا نے اس سے پوچھا ۔
” آج ، ابھی تک تین سو چھتیس جرابیں پہنچ چکی ہیں بیٹا ۔۔۔” ادھیڑ عمر شخص نے جواب دیا ۔ لیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور واپس مڑی ۔۔۔ چند لمحوں بعد ہم ہال سے باہر پہنچ چکی تھیں ۔۔ باہر نکلنے کے بعد لیونا پھر سے چل پڑی اور میں اس کے ساتھ چلتی رہی ۔
چند قدم چلنے کے وہ پھر سے ٹھہری اور اس نے ایک اور دروازہ کھولا ، اور ہم دونوں اس دوسرے ہال میں داخل ہو گئیں ۔۔۔ یہ ہال دور دور تک مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جوتوں سے بھرا ہوا تھا ، چپل، ہیلز، جوگرز، سکول شوز سے لے کر فوجی اور شکاری بوٹوں تک ہر قسم کے جوتے وہاں بکھرے پڑے تھے ۔۔۔ ہر سائز کے یہ جوتے وہاں کئی ڈھیروں کی صورت میں پڑے تھے ۔۔۔ میں حیرت سے چاروں طرف نظریں دوڑا ہی رہی تھی کہ مجھے کچھ جانا پہچانا نظر آیا ،
” ارے میرے سنِکرز۔۔۔” میں نے بےاختیار کہا اور تیز قدموں اس جانب بڑھی ۔
” تو تمہارے جوتے تم سے پہلے پہنچ گئے۔۔۔” لیونا نے مجھے ان سنکرز کا جائزہ لیتے دیکھ کر کہا ، جو کہ اب کنفرم ہوچکا تھا کہ واقعتاً میرے ہی گمشدہ سنِکرز ہیں ۔
” کیا میں یہ پہن سکتی ہوں ۔۔۔ بہت تشویش تھی مجھے ان کی گمشدگی پر”. میں نے لیونا سے کہا۔
” ہاں۔۔۔ کیوں نہیں، ضرور “. لیونا نے کہا ، اور میں اپنے شوز اتار کر سنِکرز پہننے میں مگن ہوگئی ۔
جس کے بعد ہم نے یہ ہال بھی چھوڑ دیا اور راہداری میں آگے کی طرف چل پڑے ۔
اگلا دروازہ محض دس قدم دور تھا ، یہ دروازہ کھولے جانے پر جب ہم نے اندر قدم رکھا تو یہاں ہر طرح کے اوزاروں کی دنیا بسی تھی ۔۔۔ لاکھوں کی تعداد میں نیل کٹر ، پلاس ، رینچ، پیچ کس ، چھینی، ہتھوڑی ، قینچی ، چاقو، میخیں ، نٹ بولٹ ، وائر کٹر غرض دنیا جہان کا کوئی ایسا اوزار نہ تھا کہ جس کے کئی میٹر بلند ڈھیر یہاں دور دور تک نہ پھیلے ہوں ۔۔۔
” اوہ ، تو یہ ہے میرے سب نیل کٹرز کا قبرستان ۔۔۔” میں نے طرح طرح کے مختلف سائز اور ڈیزائن کے نیل کٹرز کے اس انبار پے نظریں جمائے کہا جس کی اونچائی کسی تین منزلہ عمارت سے کم نہ تھی ۔
” جی ہاں ۔۔۔ صرف تمہارے ہی نہیں سبھی کے گمشدہ نیل کٹرز کی آخری آرام گاہ”. لیونا نے کہا۔
اس ہال سے نکلنے کے بعد لیونا چند قدم چلنے کے بعد راہداری میں دائیں سمت نکل رہی ایک اور راہداری کی طرف مڑ گئی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ میں بھی ۔
” دھیان رکھنا ۔۔۔ اگلے دو ہال کی سیر تمہیں ناسٹلجیا میں مبتلاء کر سکتی ہے۔” لیونا نے مجھ سے کہا ، اور میں نے پھر سے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنا سر ہلا دیا۔
( ۔ Nostalgia ایک دماغی کیفیت ہے جس میں مبتلاء شخص اپنے ماضی کو بہت شدت سے یاد کرتا رہتا ہے ).
اس نئی راہداری میں چند منٹ چلنے کے بعد لیونا حسبِ سابق ، ایک بلند اور بھاری دروازے کے سامنے رکی اور اس نے دروازے کو دھکیلا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ میں بھی اندر داخل ہوئی ۔
اور یہ ہال ان گنت اقسام کے سٹڈی میٹریل اور سٹیشنری سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔
” سکول میں تمہارے پہلے دن سے لے کر یونیورسٹی میں تمہارے آخری دن تک تم نے ۔۔۔ یا کسی نے بھی جو کچھ بھی کھو دیا وہ سب یہیں ہے۔” لیونا نے مجھ سے کہا ۔۔۔ حالانکہ اسے کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی !!
میں بے خودی کے عالم میں آگے بڑی اور Erasers کے پہاڑ تک پہنچی ۔۔۔ یہاں ہر رنگ ، سائز اور شیپ کی ربڑیں بکھری پڑی تھیں کچھ استعمال شدہ اور کچھ نئی ، میں نے 90 کی دہائی میں ملنے والی فروٹ کی شکل کی کچھ خوشبودار ربڑوں کو ہاتھ میں لیا اور اپنے ہاتھ کو ناک تک لے جاتے ہوئے گہرا سانس لیا ۔۔۔ ان کی مسحور کن خوشبو نے مجھے ایک لمحے میں گویا پھر سے بچپن کے دنوں میں دھکیل دیا۔
پھر میں آگے بڑھی اور شارپنرز کے انبار تک پہنچی ، مختلف جانوروں مچھلیوں اور گاڑیوں کی شکل کے یہ رنگ برنگے شارپنرز میں بچپن میں بےشمار مرتبہ استعمال کرچکی تھی ۔۔۔ گھر کی شکل کا ایک بڑا شارپنر دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ دوسری جماعت میں ، یہ شارپنر خریدنا میری زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا ۔۔۔۔
پینسلوں کا ڈھیر اپنے آپ میں ایک دلچسپ چیز تھی کیونکہ تقریباً سبھی پینسلیں نصف یا نصف سے زیادہ استعمال شدہ تھیں ۔۔۔۔ وہاں مجھے 1 روپیہ میں ملنے والی نترنج پینسل سے لے کر 20 روپیہ کی پیلیکن پینسل تک سینکڑوں مختلف کمپنیوں اور ہزاروں مختلف قسم کی پینسلز نظر آئیں۔۔۔
اسی طرح اس ہال میں فاؤنٹین پین ، مارکرز، پوائنٹرز ، جیومیٹری بکس، پاؤچ اور ہر قسم کی سکول سپلائیز الگ الگ انبار کی صورت میں ہر جگہ پھیلی ہوئی تھیں ۔۔۔ اس سب میں سے گزرتی ہوئی میں ہال کے دوسرے کونے تک پہنچی جہاں کاپیوں اور رجسٹروں کے انبار پڑے ہوئے تھے۔۔۔ اور حسبِ توقع وہ سبھی نصف یا مکمل طور پر لکھے ہوئے تھے ، میں نے ایک رجسٹر اٹھایا اور اسے کھولا۔۔۔ اس پر لکھی تحریر فرانسیسی میں تھی اس لیے میں سمجھ نہ پائی اور اسے واپس رکھ دیا اور ایک نوٹ بک اٹھا لی ، یہ نوٹ بک عالیہ نامی کسی بچی کی تھی اور اس پر تاریخیں 1972 کی درج تھیں ۔۔۔ مجھے یہ سب بہت دلچسپ لگ رہا تھا میں یکے بعد دیگرے کئی رجسٹروں اور نوٹ بکس کو کھول کر دیکھتی رہی ، ان سب کا تعلق کئی ممالک ، مختلف زبانوں ، مختلف مضامین سے تھا اور مجھے سنہ 1502 سے لے کر 2022 تک کے کئی رجسٹرز ملے۔۔۔۔ اسی چھان بین کے دوران میں نے ایک نوٹ بک کھول کر دیکھی تو اس کی لکھائی مجھے کچھ جانی پہچانی سے لگی ، میں نے تیزی سے اس کا پہلا صفحہ کھولا تو ، خوشگوار حیرت کے مارے میں چیخ اٹھی ۔۔۔۔ پہلے صفحے پر میرا ہی نام ، اور سال 1999 درج تھا ۔
” کیا میں یہ نوٹ بک رکھ سکتی ہوں۔۔۔؟” جذبات سے لبریز لہجے میں میں نے لیونا سے کہا جو چپ چاپ نزدیک کھڑی تھی ۔
” ہاں ۔۔۔ ضرور ۔” اس نے مختصر جواب دیا ۔
” کتابوں ، کاپیوں اور رجسٹروں کے اس پہاڑ میں نجانے کتنی ہی میری کاپیاں ، رجسٹرز ، کتابیں چھپی ہوں گی ۔۔۔ لیکن انہیں تلاش کرنے میں تو مجھے ایک سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا ۔۔ اس لیے یہی نوٹ بک کافی ہے .” میں نے سوچا ۔۔ اور ہم دونوں ہال کے دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔
اس ہال سے نکلتے وقت میں خالی ہاتھ نہ تھی بلکہ یادوں کا ایک ذخیرہ اور دو دہائیوں قبل کھو چکی ایک نوٹ بک میرے پاس تھی ۔۔۔ اور میں متجسس تھی کہ اب اگلے ہال میں نجانے کونسی حیرتیں میری منتظر ہیں ۔۔۔ چند قدم چلنے کے بعد لیونا پھر سے ایک دروازے کے سامنے رکی ۔۔۔ لیکن اب کی مرتبہ اس نے دروازے کو دھکیلنے کے بجائے تین مرتبہ اس پر دستک دی ، چند لمحے بعد ہی دروازہ کھل گیا ، دروازہ کھولنے والی ایک خاتون تھیں جس کی عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان تھی ۔۔۔۔
” ارے لیونا بیٹی ، کافی دن بعد چکر لگایا تم نے ۔۔۔ آؤ۔” اس نے لیونا سے مخاطب ہوتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا اور دروازے سے ہٹتے ہوئے ہمیں راستہ دیا ، ہال میں داخل ہوتے ہی ایک خوبصورت منظر میری نگاہوں کے سامنے تھا ۔۔۔۔
یہ ہال بچوں کے لیے تو جنت کے مترادف ہوگا۔
یہاں کے طول و عرض میں بےشمار و بےحساب کھلونے یوں بلند ڈھیروں کی صورت میں بکھرے پڑے تھے کہ جیسے کھلونوں کا پورا پہاڑی سلسلہ یہاں قائم ہو ۔۔۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک رنگ برنگے اور خوبصورت کھلونے موجود تھے۔۔۔ مختلف قسم کے بھالو، گڑیا ، چابی اور بیٹری سے چلنے والے مختلف کھلونے ، بلاکس ، مختلف سپر ہیروز کے پُتلے، گاڑیاں، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گیندیں اور نجانے کیا کچھ یہاں موجود تھا ۔۔۔
” کیا بات ہے۔۔۔” میں نے کہا اور آگے بڑھ کر ہال کا جائزہ لینے لگی ، جبکہ لیونا اسی خاتون سے بات چیت میں مگن ہوگئی۔
میں قدم بہ قدم چلتی اس ہال میں بکھری معصوم رنگینیوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ان کھلونوں پے نگاہ پڑتے ہی میرے دل میں بچپن کی خوبصورت یادوں کے دیے روشن ہونے لگے تھے ۔۔۔ اسی کیفیت میں مجھے دھیمے قدموں ہال میں چلتے اور صدیوں کے گم شدہ کھلونوں پر نگاہیں دوڑاتے دس منٹ سے بھی زیادہ وقت ہوگیا ۔۔۔ اور پھر اچانک میرا پیر کسی چیز سے ٹکرایا اور میری محویت ٹوٹ گئی ۔۔۔ یہ کھلونوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر تھا جس سے میرا پاؤں ٹکرایا تھا ۔۔۔ اور میری نظر جب ان پے پڑی تو جیسے میں سکتے میں آگئی ۔۔۔ کئی سیکنڈ تک میں یونہی کھڑی کھلونوں کے اس ننھے سے ڈھیر ہے نگاہیں جمائے رہی ۔۔۔ اور پھر بےاختیار میں وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور وہاں سے ایک بھالو کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا ۔۔۔ میں اسے اچھی طرح سے پہچانتی تھی ، یہ بھالو مجھے میری ساتویں سالگرہ پر میری پھپھو نے تحفے میں دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھالو بھی کھو گیا اور چند سال بعد پھپھو بھی اس دنیا سے روٹھ گئیں۔۔۔ میں نے اس بھالو کو بھینچ کر سینے سے لگا لیا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا جھرنا رؤاں ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سبھی کھلونے میرے تھے جنہیں میں نجانے کتنے سالوں قبل کھو چکی تھی ۔
ایک بولنے والی گڑیا ۔۔۔ جسے پاپا نے مجھے تب گفٹ کیا تھا جب میں نے پانچویں جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی ۔
چابی گھمانے پر ڈھول بجانے والا بندر ۔۔۔ جسے مجھے چچا جان نے میلے سے دلوایا تھا ۔
ونگز کلب کارٹون کے کریکٹرز ۔۔۔ جنہیں خریدنے کے لیے مجھے کئی ماہ تک اپنا جیب خرچ بچانا پڑا تھا ۔
میوزک بجانے والا پلاسٹک کا موبائل فون۔۔۔جو میں نے ایک چاکلیٹ کے کوپن لکی ڈرا میں جیتا تھا ۔
ایک برِک گیم۔۔۔ جسے کھیلنے کے لیے ہم سب کزن بہت جھگڑا کرتے تھے ۔
اپنے بچپن کی گمشدہ یادوں کو پا کر بلاتواتر میری آنکھوں سے آنسو رؤاں تھے ۔
” ستی۔۔۔ ؟” اسی وقت لیونا کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی ۔
اور میں نے بےاختیار اس کی طرف مڑ کے دیکھا ۔۔۔ میرے بھیگے ہوئے گالوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو وہ بھی گڑبڑا کے رہ گئی۔
” اگر تم چاہو تو یہ سب کھلونے رکھ سکتی ہو ۔۔۔۔ ” لیونا نے گویا مجھے تسلی دینے کے سے انداز میں کہا اور میں بھیگی آنکھوں کے باوجود مسکرا اٹھی ۔
کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں اس ہال سے نکل رہی تھیں ۔۔۔۔ اور اب کی مرتبہ میرے ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا بھی تھا ۔۔۔۔ جس میں میرے سبھی کھلونے بھرے ہوئے تھے ۔
اس کے بعد کا سفر معمول کے مطابق جاری رہا۔۔
کسی ہال میں میں نے سونے چاندی کے گمشدہ زیورات کے ایسے انبار دیکھے کہ ایسا خزانہ کسی بادشاہ کو بھی شاید نصیب نہ ہو۔۔۔۔۔
کوئی ہال گمشدہ دستاویزات ، کاغذات, پاسپورٹس، ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ اور فائلوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔
کسی ہال میں گمشدہ چابیوں کے ٹیلے موجود تھے ۔۔۔۔
ایک ہال میں میں نے لاکھوں کی تعداد میں گمشدہ والٹ ، پرس اور ہر قسم کے بیگ دیکھے ۔۔۔
اور اس سے اگلے ہال میں میں نے 2 پہاڑ دیکھے ، ایک گمشدہ موبائل فونز و لیپ ٹاپس کا اور دوسرا گمشدہ چارجرز کا ۔۔۔اسی ہال میں ہزاروں گمشدہ کیمرے اور ٹی-وی ریموٹ بھی بکھرے پڑے تھے !!
اسی طرح چلتے چلتے ہم نے بیس کے قریب ہال دیکھ ڈالے جہاں اسی طرح عام استعمال کی گمشدہ چیزوں کے ذخائر موجود تھے ۔
اور پھر اس راہداری کا اختتام ہوگیا۔۔۔۔ یہاں سے سیڑھیاں اوپر کی سمت جاتی دکھائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہاں چیمبر آف دی لاسٹ ، کے پہلے فیز کا اختتام ہوتا ہے ۔۔۔ اب ہم دوسرے فیز میں داخل ہونے جارہے ہیں ” لیونا نے سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر ٹھہرتے ہوئے کہا۔
” اوہ ، تو پہلے اور دوسرے فیز میں کیا فرق ہے ۔۔؟” میں نے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا ۔
” پہلے فیز میں عام استعمال کی گمشدہ چیزیں رکھی جاتی ہیں۔۔۔۔ اور دوسرے فیز میں نایاب چیزیں اور اسی طرح بڑے سائز کی گمشدہ چیزیں رکھی جاتی ہیں ۔۔۔” لیونا نے کہا ۔
” جیسے کہ ۔۔۔ ؟” میں نے پوچھا۔
” چلو آؤ ۔۔۔ ابھی معلوم ہو جائے گا “. لیونا نے کہا اور پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا ، اور میں بھی اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔
ہم مسلسل سیڑھیاں چڑھ رہے تھے لیکن سیڑھیاں بھی شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہی ہوتی جارہی تھیں ۔۔۔۔ لیونا تو شاید اس سب کی عادی تھی لیکن مجھے راستے میں تین مرتبہ دم لینے کے لیے رکنا پڑا ۔۔۔ آخر کار پون گھنٹے تک کے سفر کے بعد سیڑھیوں کا اختتام ہوا ، اور یہاں سے ایک اور خوبصورت و وسیع گیلری کا آغاز ہوگیا ۔۔۔۔ لیکن یہاں دروازوں کے درمیان اتنا فرق تھا کہ ایک دروازے تک پہنچ کر راہداری میں دوسرا دروازہ دیکھ پانا مشکل تھا ۔۔۔۔
جلد ہی ہم اس راہداری میں پہلے دروازے تک پہنچ چکی تھیں ، لیونا نے دروازے پر دستک دی ، اور ایک منٹ کے بعد دروازہ کھل گیا ، دروازے پر ایک بزرگ مگر صحت مند نظر آرہا شخص موجود تھا ۔۔۔۔ ” پینٹنگز ہال میں خوش آمدید ، میں اس ہال کا انچارج مائیکل راکفیلر ہوں۔ ” اس شخص نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے ، شفقت آمیز لہجے میں کہا۔
” مائیکل راکفیلر۔۔۔؟؟ لیکن۔۔۔ آپ کو تو لاپتہ ہوئے طویل عرصہ ہوچکا ہے !!” میں نے حیرت آمیز لہجے میں کہا۔
” ہاں بالکل ۔۔۔ جبھی تم مجھے یہاں دیکھ رہی ہو ، چیمبر آف دی لاسٹ میں۔ ” مائیکل نے ہمیں ہاتھ سے اندر چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
یہ پہلا ہال تھا کہ جس کے فرش پر کسی چیز کا بھی انبار موجود نہ تھا ۔۔۔۔ البتہ اس ہال کی دیواریں اوپر تک بیشمار پینٹنگر سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔ یہ ہال بالکل کسی بڑی آرٹ گیلری کی مانند لگ رہا تھا ۔
” یہ سب وہ نایاب اور قیمتی پینٹنگز ہیں کہ جو گزشتہ کئی صدیوں کے دوران لاپتہ ہوتی رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ یہ دیکھو “پوپی فلاورز” نامی یہ خوبصورت پینٹنگ 2010 میں مصر سے لاپتہ ہوئی تھی ۔۔۔۔ ” دی جسٹ ججز” نامی یہ نایاب پینٹنگ 1934 میں بیلجیئم سے لاپتہ ہوئی ۔۔۔۔۔ 1513 میں پینٹ کی گئی “پورٹریٹ آف ینگ مین” نامی اس قدیم تصویر کو 1939 میں جرمن فوج نے پولینڈ سے چرا لیا تھا۔۔۔۔ ”
مائیکل ایک کے بعد ایک ، کئی معروف اور نایاب گمشدہ پینٹنگز دکھاتے ہوئے ان کے نام اور تفصیلات سے مجھے آگاہ کرتا رہا ۔۔۔ جس کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے اجازت لی اور اس ہال سے نکل کر واپس راہداری میں پہنچے ۔
اگلے ہال تک پہنچنے میں ہمیں چند منٹ لگ گئے ، اس کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا ، دروازے کے باہر ایک طرف ایک کرسی اور میز موجود تھا ، میز پر بہت سے کاغذات بکھرے ہوئے تھے ، اور سفید وردی میں ملبوس ایک شخص کرسی پر بیٹھا ان کاغذات میں مگن تھا ،
قدموں کی آہٹ سن کر اس نے سر اٹھایا ۔۔
” گڈ نون ، لیفٹننٹ چارلس ۔۔۔” لیونا نے مؤدبانہ لہجے میں اس سے کہا۔
” گڈ نون گرلز۔۔۔ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟” اس نے کہا۔
” یہ ستی ہے ۔۔۔ چیمبر کی نئی رکن ، میں اسے چیمبر کا راؤنڈ لگوا رہی تھی ۔۔۔ مجھے زرا ایک کام درپیش ہے ۔۔۔ تب تک آپ پلیز ستی کو اپنے ہال کا وزٹ کروا دیجئے۔۔۔” لیونا نے چارلس سے کہا ۔
” ہاں ضرور ۔۔۔” چارلس نے کہا ۔
” ٹھیک ہے ستی ۔۔۔ میں نصف گھنٹے تک تمہیں جوائن کرتی ہوں۔” لیونا نے کہا اور میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
” ایوی ایشن ہال میں خوش آمدید۔۔۔ میں اس ہال کا انچارج لیفٹیننٹ چارلس کارل ٹیلر ہوں۔۔۔” چارلس نے میرے ہمراہ اس ہال میں داخل ہوتے اپنا تعارف کروایا ۔۔۔ اور یہ نام سن کر میں چونک اٹھی ۔
” آپ کا نام۔۔۔۔ مجھے سنا سنایا لگ رہا ہے۔۔۔لیکن یاد نہیں آرہا۔” میں نے چارلس سے کہا۔
” ابھی یاد آجائے گا۔۔۔” چارلس نے کہا ۔
یہ ہال سبھی ہالز سے مختلف تھا ، اندر داخل ہوتے ہی ہم ایک بالکنی نما پلیٹ فارم پر تھے اور نیچے کم از کم ایک ائیر پورٹ کے سائز کا دور تک پھیلا ایریا موجود تھا ۔۔۔۔ اور یہاں درجنوں قسم کے بہت سے جنگی اور مسافر طیارے کھڑے تھے ۔۔۔۔ یہ بالکل کسی ایوی ایشن میوزیم کی طرح معلوم ہورہا تھا ۔
” اس ہال میں وہ سب طیارے موجود ہیں جو ایک صدی سے زائد عرصے سے لاپتہ ہوتے آئے ہیں۔۔۔۔ جیسے کہ ‘فلائیٹ 19’ ” چارلس نے ایک طرف کھڑے 5 عدد پرانے امریکی ایونجر طیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ اور میں ایک دفعہ پھر سے چونک اٹھی ۔
” فلائیٹ 19 ۔۔۔ یعنی 1945 میں برمودا ٹرائی اینگل میں لاپتہ ہو جانے والے امریکی ٹاسک فورس کے پانچ طیارے ؟؟” میں نے تیز لہجے میں کہا ۔
” ہاں بالکل وہی۔۔۔۔ برمودا ٹرائی اینگل میں لاپتہ ہونے والے سبھی طیارے یہاں موجود ہیں ۔۔۔ اور جانتی ہو اس ٹاسک فورس کا انچارج کون تھا ؟” چارلس نے کہا ۔
” کون۔۔۔؟” میں نے پوچھا ۔
” لیفٹیننٹ چارلس کارل ٹیلر۔۔۔۔ یعنی میں!” چارلس نے کہا۔
” اوہ ۔۔۔ جبھی تو آپ کا نام مجھے سنا سنایا لگ رہا تھا ۔” میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا ۔
اس کے بعد چارلس مجھے اس ہال میں موجود مختلف گمشدہ طیاروں کی تفصیلات سے آگاہ کرنے لگا۔۔۔۔ اس میں 1962 میں ویتنام میں لاپتہ ہونے والی فلائیٹ-739 ۔۔۔۔1948 میں لاپتہ ہونے والا “سٹار ٹائیگر” طیارہ اور 2014 میں لاپتہ ہونے والی ملائشیاء ائیرلائنز کی فلائیٹ-370 سمیت بہت سے طیارے شامل تھے ۔۔۔
اس ہال کا وزٹ مکمل ہوا ہی تھا کہ لیونا بھی واپس پہنچ گئی ۔۔۔ میں نے چارلس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے اجازت لے کر لیونا کے ساتھ ہال کے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔
اس سے اگلے ہال میں صدیوں سے لاپتہ ہوچکے بحری جہازوں اور کشتیوں کو رکھا گیا تھا ۔۔۔۔
اور اسی طرح اگلے ہال میں ہزاروں کی تعداد میں وہ مختلف گاڑیاں محفوظ کی گئی تھیں کہ جو عرصہ دراز سے لاپتہ ہوتی آئی ہیں۔۔۔ یہاں ان گنت گمشدہ سائیکلیں اور بائیکس بھی موجود تھیں ۔۔۔۔
اس سے اگلا ہال اس فیز کا سب سے دلچسپ ہال تھا ۔ یہاں وہ ان گنت نوادرات موجود تھے کہ جو ہزاروں برس کے دوران لاپتہ ہوچکے تھے ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک قدیم اور نایاب مجسمے ، منقش ظروف ، قدیم دستکاری کا مختلف سامان , ہاتھی دانت سے بنے زیوارات ، ہیرے جڑے سنہری تاج یہاں تک کہ قدیم مصری طرز کے کچھ تابوت بھی وہاں موجود تھے۔
مزید ایک گھنٹے کی سیر کے بعد دوسرے فیز کا بھی اختتام ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” اب چیمبر آف دی لاسٹ کا تیسرا اور آخری فیز باقی ہے۔۔۔۔ لیکن یاد رہے وہاں تم جو کچھ دیکھنے جارہی ہو وہ سب پہلے دو فیز سے قطعاً مختلف ہے ۔۔۔ اس لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھنا۔۔۔ کیا تم سمجھ رہی ہو ؟” لیونا نے راہداری کے اختتام پر موجود ایک چھوٹے سے دروازے کے قریب ٹھہرتے ہوئے کہا ۔
” میں تیار ہوں ۔۔۔” میں نے کہا ۔
” اوکے چلو پھر۔۔۔” لیونا نے کہا اور اس نے اس دروازے کو دھکیلا ، دروازہ کھلنے پر دوسری طرف گھپ تاریکی کے سوا کچھ نہ نظر آیا۔
” تیسرا فیز اس سرنگ کے پار ہے ۔۔۔ یہاں ہمیں بالکل سیدھا چلنا ہوگا ، بھلے ہی یہ سرنگ مکمل تاریک ہے لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں تمہارے ساتھ ہوں ۔” لیونا نے کہا اور میں اس کے ساتھ اس دروازے کے اندر داخل ہوئی ۔۔۔ دروازہ بند ہوگیا اور اب ہم مکمل تاریکی میں تھے ۔۔۔
میں نے لیونا کی ہدایات کے مطابق گھپ اندھیرے میں دھیمے قدموں سیدھا چلنا شروع کردیا ۔۔۔ کچھ دیر یونہی محتاط قدموں چلنے کے بعد میرا ہاتھ ، لیونا کے ہاتھ سے ٹکرایا اور میں نے احتیاطاً لیونا کا ہاتھ تھام لیا تاکہ تاریکی میں اس سے جدا نہ ہو جاؤں۔۔۔۔ ہم دس منٹ تک یونہی چلتے رہے۔۔۔ اور پھر لیونا کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، ” یہاں ٹھہر جاؤ ” ۔۔ اور وہیں رک گئی ۔۔۔ لیونا نے میرا ہاتھ چھوڑا اور چند قدم آگے بڑھی ، پھر مجھے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی اور روشنی کی تیز کرنیں پڑتے ہی مجھے ایک لمحے کو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے پڑ گئے ۔۔۔ چند لمحے بعد میں جب پھر سے صحیح طرح دیکھنے کے قابل ہوگئی تو میں نے دروازے سے باہر قدم رکھا ۔۔۔۔ اب کی مرتبہ ہم کسی راہداری میں نہیں بلکہ ایک گول طرز کے ہال میں تھے ، بالکل کسی سٹیڈیم کی طرح گول ۔۔۔ اور اس ہال میں ساتھ ساتھ تین بڑے دروازے موجود تھے اور اس کی مخالف سمت ایک چھوٹا دروازہ بھی نظر آرہا تھا ۔۔۔ لیونا مجھے لے کر پہلے دروازے تک پہنچی ۔۔۔ اس دروازے پر “امن” کا لفظ تحریر تھا ۔۔۔۔ میں نے چہرے پر الجھن کے تاثرات کے ساتھ لیونا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
” میں نے بتایا تھا ناں ، یہاں ہر وہ چیز موجود کہ جو کرہِ ارض پے کھو چکی ہے ۔۔” لیونا نے کہا۔
جس پر میں خاموش رہی ۔۔۔
” تم چلو ۔۔۔ میں تمہیں واپسی پر ملوں گی۔” لیونا نے کہا اور دروازے کو دھکیل کر کھول دیا ۔۔۔ اور میں اندر داخل ہوگئی ۔
لیکن اب کی مرتبہ اندر کوئی ہال نہیں تھا ۔۔۔ بلکہ ایک سڑک تھی جو دور تک جارہی تھی ،لیکن وہاں کوئی ٹریفک نہ تھی ، میں نے اس سڑک پر چلنا شروع کردیا ، پندرہ منٹ تک چلنے کے بعد میں ایک چوراہے پر پہنچ چکی تھی ، بلکہ اسے چوراہا کہنا بھی مناسب نہ ہوگا کیونکہ یہاں سے چار کے بجائے کئی راستے مختلف سمتوں میں نکل رہے تھے ۔۔۔ ہر راستے کے آغاز میں ایک ایک بورڈ نصب ۔
” غزہ ۔۔۔۔” میں نے پہلے بورڈ پر لکھا واحد لفظ پڑھا ۔ اور پڑھتے ہی میرے زہن میں جنگی طیاروں کی گرج ، بموں اور میزائلوں کے دھماکے ، انسانی چیخیں ، محاصرہ اور بےبسی کے مناظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے ۔۔۔۔ میں دھیمے قدموں اس راستے پر چل پڑی ۔۔۔ مجھے زیادہ وقت نہ لگا ، شہر کی حدود تک پہنچنے میں۔۔۔ یقیناً یہ غزہ ہی تھا جسے میں پہلے کئی مرتبہ ڈاکومینٹریز میں دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ یہ غزہ مختلف تھا ، یہاں سبھی عمارتیں صحیح سلامت تھیں ، کھلی سڑکیں ، بازار ، مساجد ، سکولز یہاں تک کہ غزہ کی معروف یونیورسٹی بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ موجود تھی ۔۔۔ لیکن کہیں بھی تباہی کے کوئی آثار نہ تھے ۔۔۔ نہ تو کہیں ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ، نہ ہی ملبے سے بند ہوچکی سڑکیں ، نہ کہیں خون کی بہتی ندیاں اور نہ چیخ و پکار ۔۔۔ یہاں سب کچھ پر امن اور صحیح سلامت موجود تھا ۔
لیکن۔۔۔۔
یہاں کوئی بھی انسان موجود نہ تھا !!
اس بھرے شہر میں ، میں ہی واحد انسان تھی ۔۔۔
کافی دیر تک بوجھل دل کے ساتھ غزہ کی گلیوں میں گھومنے کے بعد میں واپس اسی رستے پر چل پڑی کہ جہاں سے آئی تھی ۔
جلد ہی میں واپس اسی چوراہے پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔
دوسرا بورڈ تھا ” دونباس” ۔۔۔
ایک دہائی سے شدید جنگ اور تباہی کے شکار مشرقی یوکرین کے علاقے کا نام سامنے آتے ہی میرے ذہن میں کیچڑ آلود خندقیں ، تباہ حال گاؤں ، دن رات دھماکوں کی آوازیں ، ہر قدم پر منہ کھولے کھڑی موت اور راکٹوں کی بارش جیسے مناظر ابھر آئے ۔۔۔ اور میں اس راستے پر چل دی ، کچھ وقت چلنے کے بعد میں نے خود کو ایک خوبصورت علاقے میں پایا جہاں دور دور تک گندم کے سنہرے کھیت پھیلے ہوئے تھے ، میں چلتی رہی اور ایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچ گئی ، پختہ گلیوں اور جا بجا سجاوٹی درختوں اور پودوں پر مشتمل یہ قصبہ بہت پرفضا مقام معلوم ہورہا تھا ، یہاں کے گھروں اور عمارات کی طرزِ تعمیر سے مشرقی یورپ کا روایتی انداز جھلک رہا تھا اور یہاں کا گرجا گھر بہت خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا تھا ۔
یہاں بھی۔۔۔۔ میرے سوا کوئی انسان موجود نہ تھا ۔
کچھ دیر وہاں کی سیر کرنے کے بعد حسبِ سابق میں نے واپسی کا راستہ پکڑ لیا ۔۔۔۔
اگلے بورڈ پر “کشمیر” کا لفظ تحریر تھا ، جسے پڑھتے ہی میرے دل و دماغ میں سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں ، پرتشدد مظاہروں ، کرفیو اور گرفتاریوں ، خاردار تاروں اور بارودی سرنگوں ، آنسو گیس اور پیلٹس جیسی دردناک یادوں کا الاؤ جل اٹھا ۔۔۔ اور میں اس راستے پر محوِ سفر ہوگئی ۔
اور اسی طرح کشمیر کے بعد شام ، تبت اور یمن کے راستوں پر چل کر میں انہی جیسے دِکھ رہے علاقوں تک پہنچتی اور وہاں کا جائزہ لے کر واپس آتی رہی ۔۔۔۔ ان سبھی میں ایک بات مشترک تھی۔۔۔ وہ یہ کہ یہاں کی کیفیت کچھ یوں تھی کہ کبھی جنگ و جدل یا بد امنی نے ان مقامات کو چھوا بھی نہ ہو۔۔۔۔اور دوسرا یہ کہ وہاں میرے سوا اور کوئی بھی انسان موجود نہ تھا ۔
آخر کار میں دل پر ایک بوجھ سا لیے ، مرکزی سڑک پر واپس اسی سمت چل پڑی کہ جہاں سے میں اس چوراہے تک پہنچی تھی۔۔۔۔ جلد ہی میں اس دروازے سے واپس ، اس دائروی ہال میں پہنچ چکی تھی ۔
وہاں پہنچنے پر مجھے لیونا کہیں بھی نظر نہ آئی ، چنانچہ میں اس کے بغیر ہی اگلے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔ اس دروازہ پر ایک لفظ نقش تھا ۔۔۔۔ انسانیت !!
میں نے دروازے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دھکیلا ۔۔۔ اور دروازہ کھلتا چلا گیا ۔۔۔ اور میں نے اندر قدم رکھ دیا ۔
یہ جگہ خوب پر رونق تھی اور یہاں مجھ سے پہلے بھی بہت سے لوگ موجود تھے ۔۔۔۔ مجھے دیکھنے میں یہ جگہ کسی سرائے جیسی لگی ، ایک طرف چھوٹی سی عمارت اور اس کے سامنے ایک خوب وسیع چار دیواری ، اس چاردیواری میں بیسیوں لوگ کہیں کرسیاں میز لگائے ، کہیں قالین پر گاؤ تکیے لگائے بیٹھے تھے اور ہاتھوں میں قہوے کے فنجان تھامے ، قہقہے لگاتے ایک دوسرے سے محوِ گفتگو تھے ۔۔۔۔ میں نے قدم بہ قدم اس محفل میں آگے بڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔
ایک میز پر چار کرسیوں پے کچھ لوگ براجمان تھے ۔۔۔۔۔ ٹو پیس سوٹ اور بولر ہیٹ میں ملبوس چہرے پر لمبی قلمیں رکھے ہوئے ایک یہو°دی ، سر پے سفید ٹوپی پہنے اور چہرے پر داڑھی کا حامل ایک مسلمان ، زعفرانی شلوار قمیض پہنے اور ماتھے پر تلک لگائے ایک ہندو ، چغہ پہنے اور گلے میں صلیب کا لاکٹ لٹکائے ایک مسیحی ۔۔۔۔ وہ چاروں اپنے اپنے ہاتھ میں قہوے کے کپ تھامے آپ میں یوں باآوازِ بلند ہنس ہنس کر گفتگو کررہے تھے کہ جیسے آپ پاس ہر چیز سے بے خبر ہوں ۔۔۔۔
میں چند قدم آگے بڑھی ، جہاں سوڈانی نقوش کا حامل ایک سیاہ فام شخص گھاس پر یورپی نقوش کے حامل ایک سفید فام شخص کے ساتھ تاش کھیلنے میں مگن تھا ۔۔۔ گاہے بہ گاہے ان کے قہقہے بلند ہوتے اور وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر اپنی جیت پر خوشی کا اظہار کرتے ۔۔۔۔
میں مزید چند قدم آگے بڑھی ، جہاں ثوب ، غترہ اور عقال پہنے ایک عرب طالب علم کرسی پر بیٹھے اپنے بنگالی استاذ کے سامنے زمین پر بیٹھا اپنے ہاتھوں سے اس کے پیر دبا رہا تھا ۔۔۔
چند قدم مزید آگے بڑھنے پر گلاب کے پھولوں کی کیاریوں کے پاس ایک نوجوان کرُد لڑکا اور ایک ترک نقوش کی حامل لڑکی اطمینان سے گھاس پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے ۔۔۔۔
اس انسانیت کدے میں کچھ ہی دور ایک ادھیڑ عمر امریکی پروفیسر ، اپنے روسی ساتھی کے ساتھ کافی کی چسکیاں انجوائے کرتے ہوئے اسے الاسکا میں مُوس (برفانی بارہ سنگھا) کے شکار کے قصے سنا رہا تھا۔۔۔۔
اور ان سے کچھ ہی فاصلے پر ایک پڑھا لکھا ، خوش لباس شہری نوجوان ایک ان پڑھ دیہاتی کسان سے بڑا منہمک ہوکر اس کے گاؤں کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔
اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں گھنٹوں سے مسلسل چل رہی ہوں اور اب مجھے آرام کی ضرورت ہے ، چنانچہ میں نزدیک ہی ایک خالی میز دیکھ کر اس کے ساتھ موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور اس کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور اپنی آنکھیں موند لیں ۔۔۔ کچھ دیر آرام کر لینے کے بعد میں اٹھی اور بادلِ نخواستہ واپس دروازے کی طرف روانہ ہوگئی ۔۔۔
جلد ہی میں واپس اسی دائروی ہال میں تھی۔۔ اور مجھ سے پہلے لیونا وہاں موجود تھی ۔
” ارے ، تم بابِ انسانیت کی سیر بھی کرچکی ۔۔۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ ابھی راہِ امن پر ہوگی۔” مجھے دیکھ کر لیونا نے کہا ۔
” ہاں ۔۔۔ میں یہاں کا وزٹ بھی کرچکی ہوں۔” میں نے جواب دیا ۔
“تو چلو آخری دروازے کے پار کی دنیا بھی دکھا دوں تمہیں ۔۔” لیونا نے کہا ، اور مجھے ساتھ لے کر تیسرے دروازے تک پہنچی ۔
اس دروازے پر ایک لفظ تحریر تھا ۔۔۔۔ فطرت !
لیونا نے اس دروازے کو کھولا اور میں نے لیونا کے ساتھ دروازے کے اندر قدم رکھ دیا ۔۔۔ اور میرا قدم ایک ڈھلانی راستے پر پڑا ، یہ راستہ بتدریج نیچے جارہا تھا جہاں تاحدِ نگاہ ایک سر سبز و شاداب وادی یہاں سے صاف نظر آرہی تھی ۔
” امیزنگ ۔۔۔۔” میں نے وادی پے نظر دوڑاتے ، خوشگوار لہجے میں کہا ۔
” خوبصورت ہے ناں ؟ میں یہاں اکثر آتی ہوں ۔۔۔” لیونا نے کہا۔
اور ہم دونوں نے نشیب میں وادی کی طرف قدم بڑھا دیے ۔۔۔ ریشم سی نرم گھاس اور ان گنت رنگ برنگے پھولوں سے ڈھکی یہ وادی صحیح معنوں میں جنت کا ٹکڑا معلوم ہورہی تھی ۔۔۔ کم تمازت کی حامل ایک خوشگوار دھوپ نے وادی کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا جہاں بادل کے کئی ٹکڑے مسلسل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔۔۔۔۔ خوشگوار ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے وادی کو گھیر رکھا تھا اور پرندوں کے چہچہانے کی مترنم آوازوں نے الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا ۔۔۔ ڈھلان ختم ہوتے ہی میں زرا ٹھہری ۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور اس وادی کی خالص ہوا کو لمبے لمبے سانس لے کر اپنے وجود میں اتارنے لگی ۔۔۔۔ ایسا کرتے ہی مجھے اپنے وجود میں ایک نئی توانائی کا احساس ہوا ۔ ہوا میں ہر سو پھولوں کی مسحور کن خوشبو گھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ہم دونوں یونہی چلتی رہیں یہاں تک کہ ہم ایک جھرنے کے کنارے پہنچیں جو دور کہیں افق کے پار سے بہتا آرہا تھا ،
” کچھ دیر یہاں ٹھہرتے۔۔۔” میں نے وہاں رک کر لیونا سے کہا اور جھرنے کے پاس ہی گھاس پر بیٹھ گئی ۔
لیونا بھی وہیں رک کر میرے پاس گھاس پے براجمان ہوگئی ۔۔۔
میں نے اپنے ہاتھوں کی اوک بنائی اور جھرنے سے پانی بھر کے چند گھونٹ پیا ، اس پانی کی مٹھاس ، ٹھنڈک اور تازگی کو لفظوں میں بیان کر پانا مشکل ہوگا ۔۔۔
” لیونا۔۔۔ یہ کونسی جگہ ہے آخر ؟؟” میں نے لیونا سے پوچھا ۔
” جیسا کہ میں نے کہا تھا ، چیمبر آف دی لاسٹ میں تمہیں وہ سب محفوظ ملے گا کہ جو کرہ ارض پر کھو چکا ہے ۔۔۔۔ تو انسان اپنی سرزمین پر مادرِ فطرت کو بھی کھو چکا ہے ۔۔۔۔ یہ سب مناظر تب کے ہیں کہ جب انسان نے اپنے ہی ہاتھوں سے ابھی ماحول کو تباہ و برباد نہ کیا تھا ۔۔۔۔ جب ہوا میں آلودگی ، دھویں اور زہریلی گیسوں کا کوئی نفوذ نہ تھا۔۔۔۔ اور نہ ہی پانی میں ان گنت کیمیکلز اور زہریلے مادوں کی بھرمار تھی ۔۔۔۔ جب مٹی تک خالص تھی اور مٹی میں کوئی صنعتی و تابکار فضلہ شامل نہ تھا اور اس مٹی میں اگنے والی ہر چیز بھی خالص تھی ۔۔۔ جب کرہ ارض کی فضا میں بارود اور تباہ کن ہتھیاروں کے اثرات نہ تھے ۔۔۔۔ یہ وادی تو بیحد وسیع ہے ابھی تم نے اس کا پانچ فیصد حصہ بھی نہیں دیکھا ۔” لیونا نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں جھرنے کے نزدیک گھاس پر بیٹھی محوِ گفتگو تھیں کہ اچانک ایک آواز ہماری سماعت سے ٹکرائی اور ہم نے مڑ کے دیکھا ، وہاں ایک نوجوان لڑکا موجود تھا جو ہم سے مخاطب تھا،
” مس لیونا آپکو اور آپکی ساتھی کو انچارج صاحب نے فوری آفس میں طلب کیا ہے ۔۔۔” اس نے کہا ۔
” اوہ اچھا ، ہم ابھی آتی ہیں۔۔۔ چلو ستی ہمیں ابھی چلنا ہوگا ۔” لیونا نے اٹھتے ہوئے کہا اور میں اس کے ساتھ ہی اٹھ گئی ۔
کچھ ہی دیر میں ہم واپس اس دائروی ہال میں پہنچ چکی تھیں ۔۔۔۔
لیونا مجھے اپنے ساتھ لے کر ان تین بڑے دروازوں کے مد مقابل موجود تین چھوٹے دروازوں تک پہنچی ، اور ایک دروازے پر دستک دی ۔۔۔
“یس ، کم اِن ۔۔۔” اندر سے ایک مردانہ آواز سنائی دی ۔ اور لیونا نے دروازے کو دھکیلا ، یہ آفس کی طرح سجایا گیا ایک کمرہ تھا جہاں ایک بھاری سی میز کے عقب میں پڑی آرام دہ کرسی پر ایک درمیانہ عمر کا شخص موجود تھا جس نے ٹو پیس سوٹ پہن رکھا تھا ۔۔۔۔ اس کے سامنے میز پر ایک اچھا خاصا ضخیم رجسٹر کھلا ہوا تھا ۔۔۔
” گڈ آفٹر نون سر ۔۔۔” لیونا نے اسے کہا ۔
” گڈ آفٹر نون گرلز۔۔۔۔ مس ستی ہمارے ریکارڈ میں کہیں بھی آپ کا نام اور تفصیلات موجود نہیں ہیں ۔۔۔۔ آر یو شیور کہ آپ واقعی کھو گئی تھیں ۔۔۔؟؟” انچارج نے مجھ سے پوچھا ۔
” ہاں ایسا ہی ہے۔۔۔ میں ایک قلعے کے کھنڈرات میں گم ہو کر یہاں پہنچ گئی تھی۔” میں نے جواب دیا ۔
” کیسے۔۔۔۔ پلیز مجھے سارا واقعہ تفصیل سے بتائیں “. انچارج نے کہا ۔
جس پر میں نے انہیں ، قلعے کی طرف جانے ، وہاں بارش سے چھپنے کے لیے ایک کمرے میں پناہ لینے اور اس پراسرار دروازے کے ظاہر ہوجانے تک سب کچھ تفصیل سے بیان کردیا ۔
” مائی گاڈ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے آپ صحیح معنوں میں گم ہوکر نہیں بلکہ حادثاتی طور پر چیمبر آف دی لاسٹ میں پہنچ گئیں۔۔۔ آئی ایم سوری آپ یہاں مزید نہیں ٹھہر سکتیں۔۔اب آپ کو جانا ہوگا۔” انچارج نے کہا ۔
” ہاں ضرور ۔۔۔۔ مگر کیسے ؟” میں نے کہا۔
” اس کے لیے لیونا آپکی راہنمائی کردے گی ۔۔۔” انچارج نے کہا۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔ لیکن میرے کھلونے ؟” میں نے کہا۔
” کھلونے آپ لیجا سکتی ہیں ۔۔۔ ہماری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے ۔” انچارج نے کہا۔
“بہت بہت شکریہ سر ۔۔۔” میں نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انچارج سے ملاقات کے بعد لیونا نے آفس کے ساتھ موجود اگلے کمرے تک میری راہنمائی کی ، یہ کمرہ بالکل خالی تھا ، یہاں کسی قسم کا کوئی بھی سامان موجود نہ تھا ۔۔۔۔ ہاں اس کمرے کی غربی دیوار پر ایک بند دروازہ ضرور موجود تھا ۔
لیونا مجھے ساتھ لے کر اس دروازے تک پہنچی ۔
” اس دروازے کو پار کرتے ہی تم اپنی دنیا میں واپس پہنچ جاؤ گی ۔۔۔اچھا وقت گزرا تمہارے ساتھ ۔ مس کروں گی تمہیں ۔” لیونا نے مجھ سے کہا۔
” میں بھی تمہیں بہت مس کروں گی۔۔۔ اور کھلونوں کے لیے بہت شکریہ ۔” میں نے کھلونوں کا تھیلا سنبھالتے ہوئے کہا ۔
” ٹھیک ہے لیونا گڈ بائے۔۔۔” میں نے اسے الوداع کرتے ہوئے کہا ۔
” گڈ بائے ۔۔۔” لیونا نے مسکرا کر مجھے الوداع کہا ۔
میں نے اس دروازے کو دھکیل کر کھولا اور اندر داخل ہوگئی۔۔۔۔
آن کی آن میں میں واپس اسی قلعے میں پہنچ چکی تھی !!
جس کے بعد میں یہ سوچتے ہوئے واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئی کہ ۔۔۔۔۔
” مجھے اپنے بچپن کے گمشدہ کھلونے تو واپس مل گئے ۔ لیکن کیا کریں ارض کو بھی اس کی گمشدہ انسانیت ، امن اور فطرت کبھی واپس مل پائے گی۔۔۔۔۔؟؟
آپ کا کیا خیال ہے ؟
( ختم شد )