مستقبل کی سڑکوں کو اسٹریٹ لیمپ کے بجائے چمکتے درختوں سے روشن کیا جا سکتا ہے، اور اسکا باعث ایک اچھوتی اور زبردست پیش رفت ہے جسکو بائیولومینسینٹ bioluminescent درخت کہتے ہیں۔ بائیو لو مینسیسنٹ ، دراصل ایک ایسا قدرتی مظہر ہے جس میں کسی جاندار کا جسم بالکل ایسے ایسے کم روشنی میں چمکتا ہے، جیسے کسی جگہ ہم نے ایک ہلکی طاقت کا ایل ای ڈی لگادیا ہو۔
ماہرین نے واٹر کریس پلانٹ watercress plant (ایک مخصوص آبی پودا، سمندری گھانس) کے پتوں میں خصوصی نینو پارٹیکلز لگائے جس کی وجہ سے تقریبا چار گھنٹوں تک ایک مدھم روشنی دیتا رہا اور اپنی روشنی پیدا کرنے کے لیے اسے توانائی کی کھپت کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔
یہ چمکتی ہوئی خاصیت، جسے بایولومینیسینس کہا جاتا ہے، لوسیفیریز Luciferase نامی ایک قدرتی انزائم کے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتا ہے جو بجلی کی ضرورت کے بغیر روشنی پیدا کرتا ہے۔
سائنسدانوں نے سب سے پہلے کچھ چمکنے والے بیکٹیریا کے ڈی این اے سے یہ مخصوص جین کو نکالا اور پھر ان ذرات کو پودوں کے ڈی این اے میں شامل کیا۔اس کی وجہ سے پودوں نے ایسے چمکنے والے پروٹین بنانے کا عمل شروع کیا جو انکے جسم میں روشنی پیدا کرتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان پودوں کے پتے مدھم روشنی میں چمک رہے تھے۔
ایک ڈچ ڈیزائنر سٹریٹ لائٹس کو تبدیل کرنے کے لیے ، تاریک درختوں میں چمک پیدا کرنے کے لیے سائنسدانوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ایسا کرنے کے لیے وہ پودوں کے ڈی این اے کو چمکدار سمندری زندگی کے ڈی این اے سے کراس کراکر اور اس کو ملا کرکے بنانے کے کام پر لگا ہوا ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیےڈویلپرز کا ایک گروپ کچھ مخصوص چکمنے والی جیلی فش اور جگنوؤں میں پائے جانے والے خصوصی انزائم میں سے چمک والے ڈی این ا ے کے جینز لے رہا ہے اور اسکی مدد سے بایولومینسنٹ درخت بنا نے میں استعمال کروارہا ہے۔
یہ درخت انرجی نیوٹرل ہوتے ہوئے ممکنہ طور پر سڑکوں اور شاہراوں کو اسٹریٹ لیمپ کی طرح رات کے وقت روشن کر سکتے ہیں۔
مزید تفضیل دیکھنے کے لیے اس لنک کا مطالعہ کیجئے
https://news.mit.edu/2017/engineers-create-nanobionic-plants-that-glow-1213?fbclid=IwAR1163PheEmsGMIagg05Ky5oivwX3DJRzztEQ_h1PmQTScKWrMOulvhCSkk
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...