چلتے ہو تو میڈیکل کالج چلئے
میڈیکل میں داخلہ لینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ ڈاکٹر بھی بن جاتا ہے اور مریض بھی۔میں سمجھتا رہا کہ میڈیکل کے سٹوڈنٹس بڑے احتیاط پسند ہوتے ہوں گے‘ ہر چیز ہائی جینک کھاتے ہوں گے۔ لیکن اب تک جتنے بھی سٹوڈنٹس سے ملاقات ہوئی اُن کی خوراک دیکھ کرمیرے ڈیلے باہر آگئے۔ایک نوجوان چائے کے ساتھ کریلے بہت شوق سے کھاتاہے۔ایک اپنے گاؤں سے دیسی گھی میں بنی السی کی پنیاں لایا ہوا ہے اورصبح ناشتے کے وقت ایک پنی کھاتاہے۔ میں نے پوچھا’’اگر کولیسٹرول بڑھ گیا تو؟‘‘۔ اطمینان سے بولا’’پھر چھوڑ دوں گا‘‘۔ہاسٹل میں رہنے والے میڈیکل کے طلباء کو خود سے کھانا بنانے کا بھی بہت شوق ہوتاہے۔ میرے ایک دوست کا بیٹا لاہور کے مقامی میڈیکل کالج میں پڑھ رہا ہے۔ ایک دن اُس کے پاس ہاسٹل جانا ہوا‘ برخوردار نے فرمائش کی کہ ’’انکل آج میں پہلی دفعہ چکن کڑاہی بنانے لگا ہوں ضرور کھا کر جائیے گا‘‘۔ میرے منہ میں پانی آگیا‘ تاہم احتیاطاً پوچھ لیا کہ ’’بیٹا کڑاہی بنانے کا طریقہ آتاہے؟‘‘۔ پرجوش ہوکر بولا’’جی انکل میں نے امی کو کہا ہے وہ وڈیو کال پر مجھے ایک ایک چیز بتاتی جائیں گی‘‘۔ میں نے سرہلایا’’اور کڑاہی بنانے کے لیے مطلوبہ سامان؟‘‘۔ فخر سے بولا’’ اُس کی بھی کوئی فکر نہیں ‘ساتھ والی مارکیٹ سے مل جائے گا ویسے میں کل ڈیڑھ کلوسوجی لے آیا تھا۔‘‘
میڈیکل میں داخلہ لینے والے سٹوڈنٹس شروع شروع میں بڑے پرجوش ہوتے ہیں۔ یہ ایک انجانی سی خوشی میں سرشار خود کو ڈاکٹر کہلوانا شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم جونہی یہ مکمل ڈاکٹر بن کر ہاؤس جاب کرتے ہیں ‘ایک ماہ بعد ہی سوچنے لگتے ہیں کہ اِس سے تو اچھا تھا کسی کے ’ہاؤس میں جاب‘ کرلیتے۔چونکہ یہ نوجوان ہوتے ہیں‘ خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں لہذا اِنہیں زکام کا مریض بھی سیرئس کیس لگتاہے۔ تاہم جوں جوں وقت گذرتا ہے ‘ اکثر کا معاملہ الٹ ہوتا جاتاہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اِنہیں کینسر کا مریض بھی زکام میں مبتلا لگنے لگتاہے۔میڈیکل کے سٹوڈنٹس سینئرز کے ہر عمل کی کاپی کرنا باعث اعزاز سمجھتے ہیں‘ شائد یہی وجہ ہے کہ 99 پرسنٹ سٹوڈنٹس عشق ضرور کرتے ہیں۔باقی رہ گئے ایک پرسنٹ۔۔۔وہ بھی کرتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے‘ اِن کے عشق کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب یہ کالج لائف کے بعد دوستوں کو شادی کارڈ بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر بننے والے اکثر نوجوانوں کا سپنا ہوتاہے کہ وہ عملی زندگی میں آتے ہی اپنا شاندار کلینک کھولیں گے۔لیکن شائد یہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ فی الوقت معاشرے میں مریض کم اور ڈاکٹرز زیادہ ہوچکے ہیں لہذا جب یہ کلینک کھولتے ہیں تواِن کے پاس رش تو لگتا رہتا ہے لیکن اِس ہجوم میں تین مریض ہوتے ہیں اورپچیس میڈیکل ریپ۔لڑکیوں کا پسندیدہ شعبہ بھی میڈیکل ہے۔ یہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں تاکہ شادی بھی کسی ڈاکٹر سے ہو۔لیڈی ڈاکٹر بننے والی لڑکیوں کی اکثریت ہاؤس جاب سے پہلے ہی ہاؤس وائف کے فرائض سرانجام دینے لگتی ہے۔میاں بیوی دونوں ڈاکٹرہوں تو شادی کے بعد ایک دوسرے کو محبت سے بھی ایسے دیکھتے ہیں جیسے مریض دیکھ رہے ہوں۔موٹر سائیکل میں ایک لٹر پٹرول اور گھر میں ایک ڈاکٹر بہت ہوتاہے لیکن جب یہ دو ہوجاتے ہیں تواکثر اس اہم ترین موضوع پر تین دن تک لڑائی ہوتی رہتی ہے کہ سر درد کی کون سی گولی زیادہ موثر ہے۔
لڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہوں تو کسی ڈیڈ باڈی کے قریب جانے سے پہلے بھی ہلکا سا میک اپ کرلیتی ہیں۔ساتھ میں لڑکے کھڑے ہوں توکبھی کبھی ڈیڈ باڈی کی طرف بھی دیکھ لیتے ہیں۔میڈیکل کالجز کے اکثر پروفیسر ٹیسٹ میں لڑکیوں کو نمبر دیں نہ دیں‘ موبائل نمبر دھڑا دھڑ دیتے ہیں۔ہر میڈیکل کالج میں ایک کینٹین ہوتی ہے جو مستقبل کے ڈاکٹروں کا دماغ خراب ہونے سے پہلے اُنہیں پیٹ خراب کرانے کی ریہرسل کراتی ہے۔’زیر تعمیر‘ ڈاکٹراکثر کلاس روم میں اس لیے بھی نہایت توجہ سے لیکچر سنتے ہیں تاکہ کلاس سے غیر حاضر رہنے والی ’شکیلہ‘ کی تعلیم کا حرج نہ ہو۔تاہم اِنہیں حیرت ہوتی ہے جب شام کو یہ شکیلہ سے ملتے ہیں اور وہ اِن کے بولنے سے پہلے ہی سارے لیکچر کی تفصیلات سنا دیتی ہے کیونکہ لگ بھگ پچیس لڑکے پہلے ہی اُس کی رہنمائی فرما چکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر بننا بہت مشکل کام ہے۔ موٹی موٹی کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں‘ ہاسٹل کے چوکیدارکی منتیں کرنا پڑتی ہیں‘اُدھار سگریٹ لینا پڑتے ہیں‘دیواریں پھلانگنی پڑتی ہیں۔ عام تعلیم کا یہ نقصان ہے کہ کورس کی کتابیں کہیں سے بھی مل جاتی ہیں البتہ ڈاکٹر بنتے ہوئے آرام سے کسی انگلش آتھر کا حوالہ دے کر کتاب کے نام پروالد صاحب سے پانچ چھ ہزار باآسانی ہتھیائے جاسکتے ہیں۔ڈاکٹر بننے والے زیادہ تر نوجوانوں کے والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے لہذا جب بیٹا کہتا ہے کہ ابو’’مسٹر بین کی بُک لینی ہے‘‘ تو والد صاحب فرط جذبات سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ اگر کوئی ملنے والا بتا دے کہ حضور مسٹر بین تو معروف مزاحیہ اداکار ہے تومعصوم والد صاحب اِسے بھی بیٹے کی بجائے اپنی غلطی سمجھتے ہیں’’ہوسکدا اے مینوں ناں بھل گیا ہووے‘‘۔
میں جب بھی کسی میڈیکل کے سٹوڈنٹ کو ملتاہوں مجھے بہت خوشی ہوتی ہے‘ نکھر ا نکھرا چہرا‘ چہرے پر اُمید کی کرن اورآنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب۔ لیکن جب وہ کہتا ہے کہ ’’سروہ گرل فرینڈ والا کالم تو فارورڈ کردیں‘‘ تو میرا دل بیٹھنے لگتاہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بچہ ڈاکٹر بن بھی گیا تواسے کسی اچھے ڈاکٹر کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے باوجود جب میں ینگ ڈاکٹرز کو کسی ہسپتال کی ایمرجنسی میں دیوانہ وار مصروف دیکھتا ہوں تو بے اختیار اُن کی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے۔زیرتعلیم اور مکمل ڈاکٹر میں یہی فرق ہے کہ مکمل ڈاکٹر ایمرجنسی کا ماہر ہوتاہے اور زیرتعلیم ڈاکٹر’امر۔جنسی‘ کا۔
میں بھی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا کیونکہ ہمارا ایک ہمسایہ میڈیکل ریپ تھا جسے سارا محلہ ڈاکٹر صاحب کہتا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میٹرک تک میں ’’میڈیکل ریپ‘‘ کو زیر زبر کا فرق سمجھے بغیرانتہائی غلط پڑھتا رہا۔ وہ تو بعد میں کسی سیانے نے مجھے بتایا کہ اگر ایسے ہی پڑھنا ہے تو شروع میں میڈیکل کی بجائے’’میڈیکلی‘‘ لگا لو۔ایک دن میں نے میڈیکل ریپ سے پوچھا کہ ڈاکٹر بننے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اُس عظیم انسان نے بتایا کہ اگر ایک اچھا ڈاکٹر بننا چاہتے ہو تو پہلے خود پر کوئی اچھی سی بیماری طاری کرو اور پھراُس کا علاج کرانے روزانہ ڈاکٹرکے پاس جایا کرو‘ انشاء اللہ تین ماہ میں سپیشلسٹ بن جاؤ گے۔میں فوراً اگلے دن ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے غور سے میری طرف دیکھا‘ پھر اُٹھ کر کلینک سے باہر چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو اُن کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی‘ مجھے تھماتے ہوئے بولے’’یہ دو قطرے صبح دوپہر شام آنکھوں میں ڈالنے ہیں‘‘۔ میں بوکھلاگیا۔’’ڈاکٹر صاحب ! ویسے تو آپ کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن براہ کرم میری معلومات کے لیے بتا دیجئے کہ پھیپھڑوں کے انفیکشن کا آنکھوں سے کیا تعلق؟‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے دانت پیسے’’مریں پہلے اکھاں ٹھیک کرا۔۔۔اے ڈاک خانہ اے‘‘۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔