ڈیجیٹل ایجنٹ آج کی دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس آئی فون ہے تو سری سے کچھ بھی پوچھ لیں۔ کسی لفظ کا مطلب، کسی جگہ کا راستہ۔ یہ انٹرنیٹ پر چھان کر آپ کو زبردست جواب بتا دے گی۔ اس کے پاس معلومات کے غیر معمولی خزانے کی رسائی ہے۔ لیکن اس کی ایک بنیادی حد بھی ہے۔ اس کو اندازہ بھی نہیں کہ انسان اس کو نیچے رکھ دیتے ہیں اور اپنی زندگی گزارنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اس کو نہ اس محبت بھرے لمس کا علم ہے نہ تیز مرچ سے لگنے والی چبھن کا۔ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں اس کو کلوزڈ ورلڈ ازمپشن (closed world assumption) کہتے ہیں۔ کوئی چیز جس خاص کام کے لئے پروگرام ہوئی ہو، اس کو اس سے باہر کا علم نہیں ہوتا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ہم سب بھی اسی طرح کی بند دنیا میں بستے ہیں۔ ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جو میں نے دیکھا، بس دنیا یہی ہے۔ دماغی طور پر ہم اپنے موجودہ وقت اور جگہ میں بند ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری کلوزڈ ورلڈ ہے۔ ہم تصور کر لیتے ہیں کہ مستقبل بھی آج جیسا ہو گا۔ جب ہم ماضی میں دیکھتے ہیں تو ذہن کی اس کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ جب ہمارے دادا نوعمر تھے تو تصور نہیں کر سکتے تھے کہ تمام دنیا کی لائبریریاں صفر اور ایک کے کلاؤڈ میں بدل جائیں گی۔ خون میں نئی جینز ڈال دینے سے بیماریاں ٹھیک ہو جائیں گی۔ ہم اپنی جیب میں ایسے مستطیل ڈبے لے کر پھرا کریں گے جن کا رابطہ ہر وقت خلا میں موجود آلات سے رہا کرے گا۔ تمام دنیا کی معلومات ہماری انگلیوں پر ہو گی۔ اسی طرح ہمارے لئے تصور مشکل ہے کہ کل کیسا ہو گا۔ اگر صرف ٹرانسپورٹ کے حوالے سے دیکھیں تو شاید ہمارے خود سے چلنے والی گاڑیوں میں سفر کیا کریں۔ چھ سالہ بچے کو سکول بیگ دیا، خدا حافظ کہا اور گاڑی اس کو لے گئی۔ یہی گاڑی ایمبولینس بھی بن جائے۔ آپ کے دل کی دھڑکنوں کو مانیٹر کرتے ہوئے جب اس کو کچھ غیر معمولی نظر آئے تو یہ خود ہی آپ کو ہسپتال لے جائے۔ ایک مکمل طور پر خودکار گاڑی کو نہ سٹیئرنگ کی ضرورت ہو گی اور نہ سیٹ کا رخ آگے کی سمت کی طرف رکھنے کی مجبوری۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک کمرے کی طرح بنائی جائے۔ پتہ نہیں یہ ہو کہ نہیں لیکن مستقبل آج جیسا نہیں ہو گا۔
پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے جیسے مستقبل کو تصور نہ کرنے سے ترقی کی رفتار سست ہو جائے لیکن یہ لہر سست ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کیوں؟ کیونکہ آرٹ اور سائنس ہمیں مسلسل آج کی دنیا کے کنارے پر رکھتے ہیں۔ کل جو ابھی دریافت نہیں ہوا، اس کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس کے دھندلکے کو روشن کرتے جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہین ایجنٹ (سِری) کی دنیا مکمل طور پر بند ہے، ہماری نہیں۔ ہماری سرحد سیل نہیں۔ اس سے مستقبل ٹپک رہا ہے، رس کر اندر آ رہا ہے۔ جس طرح سرحد بڑھ رہی ہے، اس طرح تیز رفتاری کے ساتھ اس کی لہر کا سامنا ہے۔ موجود دنیا کو سمجھنے اور اگلی کا تصور کرنے میں ہم ایک توازن رکھتے ہیں۔ ایک طرف آج کو اپنی موجودہ حالت میں قبول کرنے اور تبدیلی سے ڈرنے کا خوف اور دوسری طرف بہتر مستقبل کی آرزو اور تبدیل ہو جانے کی امنگ کا توازن ہے۔
نئی اور اچھوتی دنیا بنانے کے حالات آج سازگار ہیں۔ خود ہمارے اپنے ملک میں بھی۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے اگر اس پر کام کیا جائے۔ اگر ہم اپنے بچوں میں تخلیقی صلاحیت کی آبیاری نہیں کریں گے تو ہم اپنی اس صلاحیت کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے جو صرف ہماری نوع سے خاص ہے۔ خود پر اور اگلی نسل پر محنت کی ضرورت ہے، اس سرمایہ کاری سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
فرض کیجئے کہ آج سے اسی لاکھ سال پہلے قدرت سے مکالمہ ہوتا کہ اس زمین سے دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک ناقابل ذکر جاندار اٹھے گا۔ نہ زیادہ طاقت رکھنے والا۔ نہ تیز نگاہ والا۔ نہ چھپنے کی اچھی صلاحیت رکھنے والا۔ نہ تیز پنجوں اور دانتوں والا۔ زندگی کے اس کھیل میں اس کا نُکڑ بس تحلیقی صلاحیت ہو گی اور اس صلاحیت کی قیمت بھی اسے لمبے بچپن کی صورت میں ادا کرنا ہو گی۔ کئی سال تک اپنے والدین پر منحصر رہے گا۔ اس وقت اندازہ بھی نہ لگایا جا سکتا کہ کروڑوں انواع کی اس دوڑ میں اس چھوٹی سی اور مہنگی سپیشلائزشن کی وجہ سے یہ ناقابلِ ذکر آئیڈیا، خاک کے پردے سے نکلنے والا یہ انسان، اس پوری دنیا پر تیزی سے اپنا تسلط جما لے گا۔
اسی طرح ہمیں اپنے طرح طرح کے خیالات کے بیج جگہ جگہ بونے ہیں، ان کی آبیاری کرنی ہے۔ نہ معلوم آج کا کونسا ناقابل ذکر آئیڈیا کل کی دنیا کی شکل بدل دے۔ اپنے کلاس روم، اپنے گھر، اپنے دفتر ایسے بنانے ہیں جہاں نئے خیالات کی پرورش ہو سکے، غلطیاں برداشت کی جا سکیں، خیالات دوسرے خیالات سے مل کر نئے خیالات کو جنم دے سکیں، ناکامی کی حوصلہ شکنی نہ ہو، مستقبل کے لئے نِت نئے تجربے ہو سکیں۔ ہم اپنے افراد کو، اپنے اداروں کو جامد نہ کر دیں۔ وہ خود تجربے کر سکیں۔ نئی جگہوں پر جا سکیں۔ اس دنیا کا ساتھ دے سکیں جہاں تبدیلی ایک معمول ہو۔ کیونکہ ہم نہیں جان سکتے کہ آج کس چیز پر کی گئی محنت کل کیا فائدہ دے گی۔ یہ کام صرف سائنس کا نہیں۔
مستقبل کی بنیادیں آج رکھی جا رہی ہیں۔ یہ طے نہیں کہ مستقبل بہتر ہو گا یا خراب۔ لیکن یہ طے ہے کہ آج سے بہت مختلف ہو گا۔ مستقبل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو مکمل طور پر جانا نہیں جا سکتا۔ اسی وجہ سے اس کو آج بدلا جا سکتا ہے۔ وقت کا یہ تیز بہاؤ سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے، ہماری اپنی آنکھوں کے سامنے۔ اس سے کیا نکلے گا؟ یہ آج طے ہونا ہے۔ ہم اپنے اردگرد کی چیزوں سے ہی نیا کل بنائیں گے۔ اس کے اجزاء ہمارے آس پاس ہیں۔ بس اس کے منتظر کہ کب ان کی شکل بدلی جائے گی، کب ان کو توڑا جائے گا، کب ان کو نئے طریقے سے جوڑا جائے گا۔ ہمارے کلاس روم اور ہمارے بورڈ روم میں تخلیقی ذہن اس کی سمت اور رفتار کا تعین کریں گے۔ ہم نئے ممکنات کی دریافت اور اپنی کہانی کے نئے باب لکھ سکیں گے۔
تو پھر چلیں، اپنے انسان ہونے کا جشن منائیں۔ سب کے ساتھ مل کر ایک نئی دنیا بسائیں۔
مرکزی خیال اس کتاب سے
The Runaway Species by Anthony Brandt and David Eagleman