فارماسیوٹیکل کی صنعت اس وقت مشکل میں ہے۔ ادویات دنیا میں دس کھرب ڈالر کا کاروبار ہے۔ دنیا کی کسی بھی کمپنی کی طرح دواساز ادارے کا اولین کام منافع کمانا ہے۔ اس میں منافع کا سب سے اہم حصہ نئی ادویات مارکیٹ میں لے کر آنا ہے۔ لیکن ادویات کی دریافت کی گولڈن ایج گزر چکی ہے۔ 1990 کی دہائی میں سالانہ پچاس نئی ادویات رجسٹر ہوتی تھی۔ اب یہ تعداد بیس پر آ گئی ہے۔ اور ان میں سے نصف وہ ہیں جو “میں بھی تو ہوں” کی کیٹگری سے تعلق رکھتی ہیں۔ “میں بھی تو ہوں” والی کیٹگری کا مطلب یہ کہ یہ پرانی ادویات پر ہونے والی معمولی بہتری ہیں۔ لیکن کسی بھی دوا کیلئے بہت زیادہ محنت، وقت اور سرمایہ لگتا ہے۔ ایک نظر اس پر کہ یہ نئی دوائیاں آتی کہاں سے ہیں؟ چلیں، نئی دوا دریافت کرتے ہیں۔
اس کا پہلا کام تو یہ ہے کہ نئی ڈرگ کے لئے آئیڈیا درکار ہے۔ یہ کسی بھی جگہ سے آ سکتا ہے۔ کسی پودے میں پایا جانے والا کوئی کمپاوٗنڈ۔ جسم میں ایک ریسپٹر جہاں سے انٹرفیس کرنے کا طریقہ تلاش کیا جا سکے۔ کوئی پرانی دوا جس کے ساتھ کھیلا جا سکے، وغیرہ۔ دوا کی کہانی کا یہ حصہ انتہائی دلچسپ ہے اور اس پر ڈگری کی جا سکتی ہے لیکن ابھی کیلئے آگے چلتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں اب کوئی مالیکیول ہے جس کے بارے میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام کرے گا۔
سب سے پہلے اس کا ٹیسٹ جانوروں پر کرنا پڑے گا۔ اس سے یہ پتا لگے گا کہ جو ذہن میں اس کے کام کرنے کا خیال بنایا تھا، ویسا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ (یا کہیں یہ جانور کو مار تو نہیں دیتا)۔ ٹیسٹ کا یہ مرحلہ کامیابی سے عبور ہو گیا تو اب انسانوں کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے اس کا فیز ون کرنا پڑے گا۔ یہ انسانوں پر کیا جانے والا پہلا تجربہ ہو گا۔ اس کے لئے چند بہادر اور صحتمند نوجوان درکار ہیں جنکو پیسوں کی بھی ضرورت ہو۔ ان پر تجربات کئے جائیں گے۔ پہلے تو یہ دیکھنے کے لئے یہ دوا کھا کر لوگ کہیں فوت تو نہیں ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ کئی اور چیزوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، یہ جسم میں کتنی دیر رہے گی۔ 2006 میں ایک دوا کے ٹیسٹ میں دوا کے جسم سے خارج نہ ہونے کے مسئلے کی وجہ سے کئی نوجوان حضرات شدید بیمار ہو گئے تھے۔
اگر یہ خیر و عافیت سے گزر گیا تو اب فیز ٹو کی باری ہے۔ اس میں متعلقہ بیماری والے دو سو کے قریب لوگوں کا انتخاب کیا جائے گا۔ یہ دوا کی ڈوز کا پروف آف کانسپٹ ہے۔ اس سے پتا لگے کہ آیا دوا کا کوئی اثر ہے بھی یا نہیں۔ ڈوز دینے کا طریقہ بھی یہاں پر سیٹ ہو گا۔ بہت سی ادویات اس مرحلے پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ جو کہ افسوسناک ہے۔ کیونکہ یہ کسی کے فائنل ائیر کا پراجیکٹ نہیں، سنجیدہ بزنس ہے۔ ایک دوا کو تجربات سے لے کر مارکیٹ تک لانے میں کی جانے والی ریسرچ پر آنے والی لاگت لگ بھگ پچاس کروڑ ڈالر کے قریب آتی ہے۔
اب فیز تھری کی طرف۔ یہاں پر سینکڑوں یا ہزاروں مریض تجربے میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ رینڈم ٹرائل ہوتا ہے، بلائنڈ ہوتا ہے۔ اس میں دوا کا مقابلہ یا تو پلاسیبو کے ساتھ کیا جاتا ہے یا پھر اس عارضے میں استعمال ہونے والی دوسری ادویات سے۔ اس میں ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔ نہ صرف اس مرض پر ہونے والے اثر کا، بلکہ کسی بھی دوسرے اثر کے متعلق۔ اس سے سیفٹی اور کارکردگی چیک ہو گی۔ یہ ٹرائل شاید کئی مرتبہ کرنا پڑے۔ اگر یہاں پر نتائج ٹھیک رہے تو پھر دوا کے لائسنس کے لئے اپلائی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے نتائج کا تجزیہ کر کے ڈرگ اتھارٹی مطمین ہوئی اور لائسنس مل گیا تو بھی کام ختم نہیں ہوا۔ دوا مارکیٹ میں آ جانے کے بعد اب مزید ٹرائل ہوں گے۔ نہ صرف آپ کو ٹرائل کرتے رہنا پڑے گا بلکہ اب دوسرے بھی آپ کی دوا پر ٹرائل کریں گے۔ اس کی سٹڈی کریں گے۔ اس سے ہونے والے کسی بھی سائیڈ ایفیکٹ ہونے کے شک کو رپورٹ کیا جائے گا، جو پہلے نوٹ نہیں کئے گئے تھے۔ یہ دوا کے مارکیٹ میں آ جانے کے برسوں بعد بھی ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوا مارکیٹ تک تو پہنچ گئی ہے لیکن ڈاکٹروں کو اس کا کس طرح پتا لگے گا؟ اس ٹرائل میں کیا مثبت رہا اور کیا منفی، ڈاکٹر نے اس کو دیکھ کر مریض کو تجویز کرنا ہے۔ آئیڈیل دنیا میں ڈاکٹر میڈیکل کے اچھے جرائد پڑھتے ہوں گے جہاں پر دواساز ادارے کی شائع کردہ تحقیق کا پئیر ریویو ہونے والا آرٹیکل بھی ہو گا۔ یا پھر کتابوں اور ریویو آرٹیکلز کا مطالعہ کرتے ہوں گے جو پرائمری ریسرچ کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔ یہ نہیں تو پھر دواساز ادارے کے ریپ کی چرب زبانی پر بھروسہ کرنا پڑے گا یا دوسروں کی سنی سنائی پر۔
ڈرگ ٹرائل مہنگا کام ہیں۔ اس قدر مہنگا کہ ستر فیصد سے زیادہ ڈرگ ٹرائلز انہی اداروں تک محدود رہتے ہیں جنہوں نے دوا بنائی ہو۔ قصور کی لکیر جہاں پر بھی لگائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدر مہنگے کہ ایسی ادویات جن کی مارکیٹ نہ ہو، ان کی تحقیق کے لئے فنڈنگ نہیں ہو پاتی۔ اس میں وہ امراض ہیں جن کا شکار ہونے والوں کی تعداد کم ہے یا وہ امراض جو ان ممالک میں زیادہ ہیں جہاں پر ان پر خود ریسرچ نہیں کی جاتی۔ ولسن بہت کم ہونے والی بیماری ہے۔ چاگاس صرف لاطینی امریکہ میں ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس محدود فنڈ ہیں (فنڈ ہمیشہ محدود ہی ہوتے ہیں) تو ان کا استعمال کسی اور طرف کیا جائے گا۔
بائیومیڈیکل ریسرچ کا خرچ کسی نے تو بھرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے دس فیصد لوگ فارماسیوٹیکل میں ہونے والی نوے فیصد تحقیق کا بل مہنگی ادویات یا اضافی ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ دس فیصد لوگ چند امیر ممالک سے ہیں، اس لئے ان علاقوں کی بیماریوں کو خود بخود توجہ بھی زیادہ ملتی ہے۔ لیکن یہ سیاسی اور ڈویلپمنٹ کے مسائل ہیں۔ ان پر بات کسی اور روز کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ کے ہاتھ میں دوائی کی ایک گولی ہے، جس سے بہت پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ آپ کو ہر حال میں مثبت ریزلٹ چاہیے۔ آپ کے بزنس کا اںحصار اس پر ہے۔ اس کے لئے آپ کے پاس کچھ حربے ہیں۔ ایک کام آپ نہیں کر سکتے، وہ یہ کہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ دوسرا یہ کہ آپ کی بات کو سننے والے ہومیوپیتھ، صحافی یا جنرل پبلک نہیں ہے۔ ڈاکٹر اور اکیڈمکس ہیں۔ جن کی تربیت آپ کے حربے پکڑنے میں ہوئی ہے۔ سٹڈی اگر بلائنڈ نہ ہو، رینڈم نس ٹھیک نہ ہو، پکڑے جائیں گے۔ آپ کو ہاتھ کی صفائی بہت باریک طریقے سے کرنا ہے۔ کیا کریں؟ کیا کریں؟
فارماسیوٹیکل ادارے اس ہاتھ کی صفائی کا فن بھی جانتے ہیں۔ ٹرائلز میں سیمپل کا انتخاب، بے کار کنٹرول گروپ، کچھ اعداد و شمار کو زیادہ نمایاں نہ کرنا (چھپائے نہیں جا سکتے)، مریضوں سے سوالنامے کا ہوشیار ڈیزائن، بیس لائن کو چھڑنا، ڈراپ آوٗٹس کو شمار نہ کرنا، ڈیٹا پر “تشدد” کر کے اس سے کچھ اگلوا لینا (اس کا مطلب یہ کہ ہر طرح سے تجزیہ کر کے مثبت پیرامیٹرز کا چناوٗ جسے نمایاں کیا جا سکے)، کمپیوٹر کا ہر بٹن دبا کر کچھ نہ کچھ بات منوا لینا (یہ دوا پچاس سے ساٹھ برس کی ایشین خواتین پر موثر ہے)۔
ان کو پکڑنے والے ان کو پکڑ بھی لیتے ہیں۔ رسہ کشی کا کھیل جاری رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کڑے پراسس سے گزر کر اب آپ اپنی وہ دوا بیچ سکتے ہیں جو دو دن میں زکام کو ٹھیک کر دے گی۔ اپنی یہ کامیاب گولی بیچ کر امیر ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیکل سائنس مشکل ہے کیونکہ انسانی جسم مشکل ہے۔ اس میں آسان حل اور آسان جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ لالچی دواساز اداروں، نکمے ریگولیٹرز، لاپرواہ حکومتوں، نالائق ڈاکٹروں اور مضر یا غلط دی جانے والی ادویات کے قصے بھی ٹھیک ہیں۔ تحقیقق کا طریقہ بھی پرفیکٹ نہیں لیکن ان سب کی رسہ کشی سے بہتر اور کوئی طریقہ کسی کے پاس بھی نہیں۔
اس کے مقابلے میں کیا ہے۔ کھٹی میٹھی گولیاں بیچنے والے وٹامن اور سپلیمنٹ کے ایکسپرٹ، ہومیوپیتھ، غذائی ٹوٹکوں سے مریض کو معجزاتی طور پر ٹھیک کر دینے والے؟ یہ لوگ اس سب تکلف سے آزاد، دوا نہیں، الفاظ بیچتے ہیں۔
دوا کی دریافت میں سب سے پہلا، سب سے اہم اور سب سے دلچسپ قدم ہی کسی ایسی چیز کی تلاش ہے جو کسی عارضے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر “متبادل طریقہ علاج” والوں کی گولیاں اور معجون ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوتے تو اس کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان ٹرائلز سے گزار کر کوئی ان کو مین سٹریم میڈیسن نہ بنا چکا ہوتا۔ ان فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا لالچ ان کو پیٹنٹ کروا چکا ہوتا۔ نیا اور موثر علاج دریافت کرنے سے امیر ہونا بھلا کسی کو برا لگتا ہے؟