(30جولائی ،قلم کاروان اسلام آباد کی ادبی نشست میں پیش کیاگیا)
اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے جس پر زیادہ مہربان ہواس کے ساتھ اپنی دوستی کاتعلق استوار کر لیتاہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں فرمایا ہے کہ اللہ ولی الذین امنو یخرجھم من الظلمت الی النورترجمہ’’جولوگ اللہ تعالی پر ایمان لائے ہیں،اللہ تعالی ان کادوست (سرپرست)ہے اورانہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لاتاہے‘‘:۔اللہ تعالی نے نیک بندوں کو اپنا دوست کہاہے،اور ان کے لیے ولی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔اپنے دوستوں کاذکرکرتے ہوئے اللہ تعالی کہتاہے کہ اللہ تعالی ان کاسرپرست ہے اور انہیں اندھیروں سے نکال کرروشنیوں میں لاتاہے۔ایک اورجگہ اللہ تعالی نے اپنے دوستوں کے بارے میں کہاہے’’أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO‘‘کہ اللہ تعالی کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔گویا اللہ تعالی نے دوستی لگانے کے یہ تین معیارات بتائے ہیں،پہلا معیار کہ جس سے دوستی لگاؤاسے اندھیرے سے روشنی میں لاؤ،پس جو انسان خود جہنم کی آگ سے بچتاہے اس پر لازم ہے کہ اپنے تمام دوستوں ،مہربانوں اور تعلق داروں کو بھی دوزخ کے عذاب سے بچانے کی فکر کرے۔باقی دونوں معیارات بھی محبت اور خلوص سے تعلق رکھتے ہیں کہ اچھادوست وہی ہے جس کی دوستی میں ہر غم اور خوف سے محفوظ رکھے۔
محسن انسانیت ﷺکے آخری الفاظ مبارک تھے’’اللھم الرفیق الاعلی‘‘کہ بہترین دوست اللہ تعالی ہی ہے۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اگرکسی کواپنادوست بناتے تووہ حضرت ابوبکرصدیق ؓہوتے لیکن آپ ﷺ نے اللہ تعالی کواپنا دوست بنایا۔انصارمدینہ آپ ﷺ کو اپنی حفاظت میں مدینہ لے گئے تھے،پھرانہوں نے آپﷺ کی حفاظت کاحق بھی اداکیااور جہاں آپ ﷺ کاپسینہ گرتاوہاں انصار مدینہ اپنا خون نچھاورکرتے۔فتح مکہ کے بعد امکان تھاکہ آپ ﷺ اب مکہ مکرمہ میں مستقل قیام فرمالیں گے جس سے انصار کے دلوں کو ٹھیس پہنچنی تھی اورانصارمیں سے کسی نے زیرزبان شکوہ بھی کیاکہ مشکل وقت میں توہم کام آئے تھے،اس پر محسن انسانیت نے انصارمدینہ کے ساتھ وفاکااعلان کرتے ہوئے کہاکہ اب جینا مرنا انصارمدینہ کے ساتھ ہے۔چنانچہ آپ ﷺ اپنا آبائی شہر اور بچپن و لڑکپن کی یادیں چھوڑ کر مدینہ آن بسے اور روضہ مبارک بھی وہیں تعمیر ہوا۔اپنے مہربانوں اور محسنوں کے ساتھ وفا کی یہ مثال دوستی کی تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے۔ اس سے بڑھ کر وفااورکیاہوگی کہ جنت الفردوس میں داخلے کے وقت آپ ﷺ کی سواری ’’قصوی‘‘کی نکیل حضرت بلال ؓ نے تھامی ہوگی۔
انسان کے کچھ دوست ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ذاتی نوعیت کی دوستیاں زیادہ تر بچپن یا لڑکپن کے عہد سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ بہت مضبوط دوستیاں اور خلوص سے بھرپور ہوتی ہیں۔یہ اس وقت یااس زمانے کی دوستیاں ہوتی ہیں جب انسان میں حرص،طمع لالچ یا خود غرضی نام کو نہیں ہوتی۔باہم کھیلنے اور ایک ہی جماعت میں یا ایک ہی مقام پر بہت طویل وقت گزارنے سے جنم لینی والے دوستی کے یہ رشتے لوہے کے قلعوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔بڑی عمر میں پہنچ کر جب انسان ہر طرف سے آزمائشوں اور مصروفیتوں میں گھر جاتاہے تو دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے اس پرانے وقت کو یاد کر کے ایسامحسوس کرتاہے جیسے سخت گھٹن میں سانس لے رہاہو۔تب بہت خواہش ہونے لگتی ہے کہ ماضی میں جست لگاکرایک بارپھر ان دوستوں کے جلو میں پہنچ جائیں۔عملی زندگی میں انسان عمراورترقی کے مرحلے طے کرتاچلاجاتاہے تواس کی عزت و احترام میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔وہ جہاں بھی جاتاہے اسے آپ،جناب کہ کر اور اس کی تعلیم یا منصب سے مستعار کوئی سابقہ لاحقہ لگاکر اسے پکاراجاتاہے۔اگر اس نے گزشتہ زندگی میں کوئی اعزازات حاصل کیے ہوں تو ان کی پکارسے اس کی توقیر مزیدکی جاتی ہے۔ایسے میں ایک بارپھر اپنے بچپن کے ہم جولی یاد آتے ہیں اور دل کرتاہے کہ آج پھر اسے کوئی ’’تو‘‘ کہ پکارے اور کوئی تواسے کہ کہے ’’چل بے‘‘اوراس کے کان ترستے ہیں کہ کہیں سے اسے کسی دیرینہ دوست کی واز آئے اور وہ اسے ’’اوئے ‘‘کہ کر پکاررہاہواور اس کے ساتھ تو تکاڑ کررہاہو۔
کچھ خاندانی دوست ہوتے ہیں،یہ اپنے خاندان میں سے بھی ہو سکتے ہیں اور دیگر خاندانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں یعنی جن کے ساتھ خاندانی تعلقات ہوں۔اس طرح کے تعلقات پڑوسیوں،سسرال والوں اور بعض اوقات ساتھ میں کام کرنے والوں کے ساتھ بھی استوار کر لیے جاتے ہیں۔ایسے دوستوں کے ساتھ تکلفات ہوتے ہیں،انہیں اپنے ایک ایک قول و فعل میں صرف اپنے نہیں بلکہ اپنے خاندان اوردوسرے خاندان کا بھی خیال رکھنا پڑتاہے۔اگر یہ دوستی اپنے خاندان میں میں ہوتودوآتشہ ہوجاتی ہے۔ایسے دوست بچپن کے ذاتی دوست بھی ہوتے ہیں اور خاندانی دوست بھی ہوتے ہیں،لیکن اگر کسی غیرخاندان میں یہ دوستی ہو تو یہ باہم دو تہذیبوں کا سنگم بن جاتاہے۔دودوست جب ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے ہیں تو ان کو کھانوں میں،گھرکے طورطریقوں اور رکھ رکھاومیں اور بعض اوقات زبانوں میں بھی گہراتفاوت محسوس کرتے ہیں۔اگرسسرال میں اس طرح کی دوستی لگ جائے تو یہ اہل خانہ کو خوش کرنے انتہائی کوشش کا نام بھی ہو سکتاہے۔لیکن خاندانی دوستیاں اس لحاظ سے بہت قیمتی ہوتی ہیں کہ یہ بعض اوقات رشتہ داریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔گویا یہ دوستیاں ان مٹ ہو جاتی ہیں اور نسلوں تک اپنے دیرینہ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اسی طرح کی دوستیوں سے خوبصورت اور رومانوی ادب بھی جنم لیتاہے جس کی کہانیاں روح میں گداز کاسبب بنتی ہیں۔
کچھ دوستیاں قبیلوں ، قوموں اورملکوں کی دوستیاں بھی ہوتی ہیں۔یہ دوستیاں کسی عمل احسان کےنتیجے میں جنم لیتی ہیں اور ان کی عمرصدیوںپر محیط ہوتی ہے۔مثلاََتحریک خلافت کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ترکی مسلمانوں سے جو دوستی ہوئی توآج تک اسے قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔اسی طرح مسلمانوں کو سب سے پہلے ایک مسیحی بادشاہ نجاشی نے پناہ دی تھی،چنانچہ مسلمان آج تک اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لیکن یہ دوستی سیکولرازم کے باعث خود غرضی اور مفادپرستی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔پہلے ملک اور قومیں باہمی تحفظ کی خاطرایک دوسرے کاساتھ دیاکرتی تھیں،تاکہ ایک قوم یا ملک مضبوط ہوگا تو دوسرابھی مامون ہوگا۔لیکن اب لوٹ مار کی خاطر دوسری قوموں سے دوستی کی جاتی ہے۔سیکولرازم نے دوستی کے حسین معیارات کو سوداور دوسرے ملکوں میں غداروں کی تلاش سے آلودہ کردیاہے۔اب ایک ملک صرف مفادات کی خاطر دوسرے ملک سے دوستی بھی لگاتاہے اور لوٹ مار کی خاطر دوسری قوموں کو قرضے بھی دیے جاتے ہیں۔عالمی طورپر اسے دوستی کہاجاتاہے جیسے پاکستان کی امریکہ کے ساتھ بہت گہری دوستی رہی ہے لیکن اس دوستی کی حقیقت دھوکہ،فریب،دغابازی،مفادپرستی اور بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے سوا کچھ نہیں۔مشرقی پاکستان کے عوام آج بھی اپنے دفاعی دوست کے ساتویں بحری بیڑے کاانتظار کررہے ہیں۔سیکولرازم نے انسانیت کے دیگر حسین روایات ومقدسات کو پامال کیاہے اسی طرح دوستی کے مقدس رشتے کو بھی داغدارکردیاہے۔
دوستی ایک مقدس رشتہ ہے۔دوستی لگانااللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکی سنت مقدسہ ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں محسن انسانیتﷺ نے چھ اصول بتائے ہیں،سلام کاجواب دینا،دعوت قبول کرنا،خیرخواہی کرنا،چھینک آنے پر وہ الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کہنا،تیمارداری کرنا اور جنازے میں شریک ہونا۔یہ چھ اصول دوستی لگانے اور نبھانے کے چنیدہ اصول ہیں۔کسی کے حسن اخلاق وحسن کردارکی وجہ سے اسے پسند کرنا پھراس کا قرب حاصل کرنا،پھربار بار اس کانام کے اسے پکارناتاکہ اس کانام ازبر ہوجائے،پھردن کا بہترین حصہ اس کے ساتھ صرف کرنا اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیالات کرنا،حدودکے اندررہتے ہوئے اختلاف و اتفاق بھی کرنا ، ایک دوسرے کے ساتھ کھانا کھانا ،نیکی کاحکم دینا برائی روکنا اور تحفوں کا تبادلہ دوستی لگانے اور دوستی بڑھانے کے بہترین اصول ہیں۔دوستی کی بنیاد تقوی پر ہو تووہ دنیاوآخرت میں دونوں جگہ کام آتی ہے۔اوراگر دوستی کی بنیاد خرافات و منکرات ہوں تو قرآن مجید کہتاہے ’’ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ‘‘ترجمہ:’’بہت جگری دوست روزمحشر ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقیوں کے‘‘۔اچھے دوستوں کاانتخاب اچھی عادت ہے اوریہ عادت قبیلہ بنی نوع انسان میں جاری رہنی چاہیے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...