چلو عشق لڑائیں
دنیا میں دوقسم کے لوگ پائے جاتے ہیں‘ ایک وہ جو عشق کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو عشق کرچکے ہیں۔گئے وقتوں میں محبوب تک اپنی خواہش پہنچانے کے لیے ایک رٹا رٹایا جملہ بولا جاتا تھا’’آپ نے کبھی محبت کی؟‘‘۔یہ گویا اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ اگر نہیں کی تو فدوی حاضرہے۔لیکن آج کل اس جملے کی ضرورت نہیں رہی‘ صرف یہی پوچھ لیا جاتاہے کہ ’’آپ واٹس ایپ پر ہیں؟‘‘۔ پہلے محبوب کا انتظار مشکل ترین مرحلہ ہوتاتھا‘ آج کل وہ مرحلہ اذیت ناک ہوتاہے جب محبوب کو بے باک میسج تو بھیج دیا جائے لیکن آگے سے دو نیلے نشان نہ نمودار ہوں۔اللہ جانتا ہے جان حلق میں اٹکی رہتی ہے کہ پتانہیں ابھی تک میسج کیوں نہیں پڑھا‘ کسی اور نے پڑھ لیا تو؟؟
سیانے فرماتے ہیں’’وہ جوانی جوانی نہیں‘ جس میں کوئی کہانی نہ ہو‘‘۔اس لحاظ سے کئی لوگوں کی جوانی پانچ سو صفحوں کی کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔عالمی قوانین کے مطابق چونکہ عشق کے اظہار میں اوپننگ بیٹسمین مرد ہوتاہے لہذا مردوں کے جملے لگ بھگ ایک جیسے ہوتے ہیں مثلاً’’شکیلہ ۔۔۔میں کافی دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا لیکن ہمت نہیں پڑ رہی‘‘۔اِس ایک جملے میں آگے کی ساری کہانی اعشاریہ پانچ سیکنڈ میں شکیلہ کی سمجھ میں آجاتی ہے لیکن حرام ہے جو ظاہر ہونے دے‘ جواب یہی ہوتاہے’’ہاں ہاں بتاؤ‘ کھل کر بتاؤ ‘ آخر ہم دوست ہیں‘‘۔ اگلا جملہ پھر شکیل کا ہوتاہے اور حسب معمول گھسا پٹا ہوتاہے’’وہ۔۔۔میں۔۔۔میں ۔۔۔تم سے۔۔۔‘‘ او ربی اے پاس شکیلہ ایک دم سے دنیا کی معصوم ترین شکل بنا کر پوچھنے لگتی ہے’’پوری بات کروناں‘ میں سمجھی نہیں‘‘۔حالانکہ یہ وہی شکیلہ ہوتی ہے جو کسی بھی فلم کے شروع میں ہیرو ہیروئین کو لڑتے دیکھ کرپورے یقین سے اعلان کردیتی ہے کہ اِن میں بہت جلد پیار ہونے والا ہے۔بہرحال مرد کی طرف سے اگرلولے لنگڑے الفاظ میں محبت کا اظہارہوبھی جائے تو چونکہ عفیفاؤں کے ہاں بھی تنوع معدوم ہے لہذا کچھ بھی ہوآگے سے یہی آواز آتی ہے’’میں ایسی لڑکی نہیں ہوں‘‘۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنی خامیوں کا پتا چلے تو ایک عشق فرمائیے۔مہینہ بھر میں اطلاع مل جائے گی کہ آپ لاپرواہ ہیں‘ بے حس ہیں‘ کنجوس ہیں‘ کھڑوس ہیں‘ آپ کو بس اپنی ہی پڑی رہتی ہے‘ آپ پرفیوم بالکل بھی اچھا نہیں لگاتے‘ آپ کی کلر چوائس بہت بری ہے ‘ آپ کے پاس میرے لیے کوئی وقت نہیں‘ آپ کا موبائل کیوں بزی تھا‘ آپ رات ایک بجے میسنجر پر کیوں Active تھے‘گول گپوں میں میٹھی چٹنی نہیں ڈلوانی چاہیے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر بالفرض آپ پوچھ لیں کہ ’’جان! تم میں بھی کوئی خامی ہے؟‘‘تو خوبیوں نما خامیوں کی لسٹ کچھ یوں ہوگی’’ہاں۔۔۔مجھ میں تو بہت سی خامیاں ہیں‘ میں بلاوجہ سب کا خیال رکھتی ہوں‘ ایویں سب کے لیے پریشان ہوتی رہتی ہوں‘ غصہ کرلوں تو بعدمیں بہت پچھتاوا ہوتاہے‘ دشمن کو بھی معاف کردیتی ہوں‘ دل میں میل نہیں رکھتی‘ کسی چیز کا لالچ نہیں کرتی‘ کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتی‘ اندر سے اُداس ہوں لیکن زمانے سے چھپانے کے لیے شادی بیاہ وغیرہ میں ڈانس کر لیتی ہوں‘ ناقدری کے احساس سے ٹوٹ چکی ہوں لیکن پھر بھی کھوکھلے قہقہے لگاتی ہوںیا عمران ہاشمی کی فلم دیکھ لیتی ہوں۔۔۔!!!‘‘
بعض ناکام عاشق اپنے محبوب کا تذکرہ کھلے عام کرتے ہیں‘ آہیں بھرتے ہیں اور محبوب کی خوبصورتی اور ادائیں اتنی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا بھی ان کے محبوب کے عشق میں مبتلا ہوجاتاہے۔تاریخ گواہ ہے کہ فلموں کے علاوہ عموماً کسی کا پہلا عشق ناکام نہیں ہوتا۔پہلا عشق صرف اُسی صورت میں ناکام ہوتاہے جب عاشق گھوڑے پر بیٹھتاہے اور عشق عروسی جوڑا پہن لیتا ہے۔پھر جو ڈولی اٹھتی ہے وہ عشق کا جنازہ ہوتاہے۔میرا ایک دوست اس رمز کو اچھی طرح سمجھتا تھا‘ لیکن تقدیر بری تھی‘ عاشق سے سرتاج بننا پڑگیا لہذا شادی کے کارڈ پر لکھوایا’’بارات بعد از نماز عشاء اُٹھائی جائے گی، شرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں‘‘۔
عوام الناس کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ عشق کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی‘ بالکل غلط۔عشق کرنے کی بہترین عمر 70 سال ہے جب بندہ صرف عشق ہی کرسکتا ہے۔عشق ہے ہی فارغ بندے کا کام۔ ملازمت پیشہ لوگ عشق کرلیں توحساب لگاتے رہتے ہیں کہ موبائل سے کال سستی پڑے گی یا ڈیٹا آن کرکے واٹس ایپ پہ کال کرلیں۔بزنس مین کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ محترمہ سیرئس ہی ہوجائے۔بے روزگار صرف اس لیے عشق کرتاہے تاکہ’ ’آرے‘‘ لگا رہے۔کئی ایسے بھی مردآہن ہیں کہ ایک وقت میں تین تین عشق فرماتے ہیں اور بیک وقت تینوں سے میسجنگ بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اکثر خوفناک بھول ہوجاتی ہے‘ میسج کسی کو بھیجنا ہوتاہے اور بھیج کسی اور کو دیتے ہیں۔اندازہ کیجئے کہ عاشق صاحب اپنی شکیلہ کو میسج کررہے ہیں کہ ’’تم سب سے الگ ہو۔۔۔میں صرف تمہارا ہوں۔۔۔میں نے تمہارے لیے سوٹ خرید ا ہے۔۔۔‘‘ اور اچانک یہ میسج چلا جاتاہے کہ’’ ہاں ڈارلنگ!کل ہی نیا موبائل لے دوں گا‘‘۔ عموماً عاشق حضرات کو فوراً ہی غلطی کا احساس ہوجاتاہے لہذا وہ شکیلہ کا حیرت بھرا میسج آنے سے پہلے ہی انتہائی چالاکی سے اپنا میسج کردیتے ہیں’’میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ تم مجھ سے نیاموبائل مانگو اور میں تمہیں ایسا میسج کروں‘‘۔دلچسپ صورتحال تب بنتی ہے جب اس میسج کے جواب میں شکیلہ کا میسج رسیو ہوتاہے کہ’’نہیں نہیں میں تو صرف تم سے ہی بات کر رہی ہوں‘‘۔
مرد کو عشق ہوجائے تو وہ اس سلسلے کو مزید پروان چڑھانے کے لیے کسی قریبی دوست سے مشورہ لیتا ہے‘ مستورات عموماً اس مقصد کے لیے گھر کی ماسی سے رابطہ کرتی ہیں۔حضرات عشق میں گرفتار ہوں توسب سے پہلے ڈیڑھ سو والی ہینڈز فری خریدتے ہیں‘ خواتین پہلی فرصت میں نئی سم خریدتی ہیں۔ایک دوسرے کو اشعار بھیجنا بھی عاشقی کا افضل ترین فعل ہے‘ تاہم چونکہ زیادہ تر عاشق پڑھنے وغیرہ کی علت سے پاک ہوتے ہیں لہذا نتائج سے بے خبر ہر شعر اپنے مطابق سیٹ کرلیتے ہیں۔میرے ایک دوست ’’شیرشاہ‘‘ نے مردانہ پن کی جگہ زنانہ پن شامل کرکے اپنی محبوبہ کو شعر بھیجا’’تم میرے پاس ہوتی ہوگویا۔۔۔جب کوئی دوسری نہیں ہوتی‘‘۔ اُسی وقت بریک اپ ہوگیا۔بڑی کوشش کی کہ حسنِ نیت سے آگاہ کرسکیں لیکن فریق مخالف نے لفظ ’’کوئی دوسری‘ ‘ پر فوکس رکھا اورجواب میں انگلش کا بڑا خوبصورت محاورہ لکھ بھیجاکہ’’کھصماں نوں کھا‘‘۔دوست پر قیامت ٹوٹ پڑی‘ لاکھ دُہائیاں دیں ‘ فون کرنے کی کوشش کی لیکن آگے سے یہی جواب ملاکہ’’آپ کا مطلوبہ نمبرپستول میں گولیاں بھرنے میں مصروف ہے۔مجبوراً معذرت کے چھ میسج بھیجے کہ ’’شیرشاہ سوری‘‘۔۔۔لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔دو دن تک یہی صورتحال رہی تو صدمے سے نڈھال ہوئے اور اپنا کرب بیان کرنے کے لیے ایک اور’’تصحیح شدہ‘ ‘ شعر ارسال فرمایا’’بچھڑی کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی۔۔۔اِک شکیلہ سارے شہر کو ویران کر گئی‘‘۔۔۔اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا لیکن اُن کے خاندانی ذرائع بتاتے ہیں کہ قبلہ کا نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں دیکھا گیا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔