ایک چھوٹی سی صندوقچی تھی جو ہر وقت اس کے سرہانے دھری رہتی جانے کون سا خزانہ سنبھال رکھا تھا اُس میں ۔ میں نے راتوں کو اکثر اسے صندوقچی کھول کر اُداس بیٹھے دیکھا مجھے دیکھتے ہی وہ صندوقچی کا ڈھکنا بند کرتی جھٹ سے مسکراتی اور کہتی ۔ آپ میرے خزانے کی ٹوہ میں نہ رہا کریں یہ میری عمر بھر کی کمائی ہے یہ میں آپ کو ہر گز نہیں دوں گی ۔ میں مسکرا دیتا
اُسے لگتا ۔۔ وہ صندوقچی کے بند ڈھکنے کے پیچھے چھپ جائے گی اور میں اسے ڈھونڈ نہیں پاؤں گا
ڈھونڈتا بھی کیسے ۔۔۔۔۔۔ وہ خود کو چھپا ہی نہیں پاتی تھی
کبھی اس کی اداسی کا پلو صندوقچی کے باہر رہ جاتا اور کبھی پراندے کی پھندنی ۔ صندوقچی میں جمع چند روپے اور جدائی کے پل گنتی میری بیوی اماں کی بھانجی جسے اماں کشمیر سے بیاہ کر لائیں تھیں پھر کبھی میکے جا ہی نہ سکی میں اسے لے جا ہی نہ سکا
میں اس کا بھولا پیارا ساتھی ۔۔۔۔!
ہر بار ضرورت پڑنے پر صندوقچی میں رکھی اپنی ساری جمع پونجی اُٹھا کر وہ میرے ہاتھ پر رکھ دیتی۔ کچھ دنوں میں لوٹا دوں گا ۔۔۔کبھی اماں کی بیماری پر خرچ ہوجاتے ،کبھی چھتیں ٹپکنے لگتیں ۔۔اور یوں وہ دن کبھی آئے ہی نہیں ،وہ تو بس انگلیوں کی پوروں سے لپٹنے کی حسرت دل میں لیئے دعاؤں کے لمس سے نا آشنا کھجور کی گھٹلیوں کی طرح زندگی کی دھوپ میں پڑے سوکھتے رہ گئے ۔۔۔۔ کہ ایک دن اس کی اماں کے گزر جانے کی خبر آ گئی۔
اس کی آنکھیں بجھ گئیں ۔ ان کے رنگ اُڑ گئے ۔ اُس کی آنکھوں میں رکھا آس سے بھرا میٹھے سونفوں کا رنگ برنگا تھال وقت نے ہاتھ مار کر گرا دیا تھا ۔ ان پر چڑھا رنگ برنگا میٹھا ، رنگ کھو بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔میں لاکھ چنتا وہ رنگ مگر نہیں لوٹا سکتا تھا ۔
کئی سال گزر گئے ۔۔۔۔۔آخر کل میں اسے کشمیر لے آیا اسے اس کی ماں کے ساتھ دفناتے ہوئے میرے دل نے بہت دہائیاں دیں
کاش میں اسے اس کی زندگی میں لے آیا ہوتا ۔۔۔۔ اس نے بھی کبھی کہا ہی نہیں ۔۔!
میں نے دیر کر دی تھی بہت دیر ۔۔ وہ اپنی ماں کا آخری دیدار بھی نہیں کر سکی تھی ۔۔۔۔ صندوقچی خالی تھی فاصلہ زیادہ شام تک تدفین ہو گئی ۔اب جا کر کیاکریں گے میرےکہنے پر ۔۔۔ سُن کر وہ چُپ ہو گئی ۔۔۔دو آنسو گالوں سے پھسل کر زمین پر آ گرے ۔ وہ میرے دل پر کیوں نہ گرے کاش میرے دل پر گرتے کاش ۔۔۔۔ اب سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے اُس کی وہ چُپ پھر کبھی ٹوٹی ہی نہیں ۔۔ہنستی بھی کم کم ہی تھی اگر کبھی بُھولے سے ہنس بھی دیتی تو جھنکار سے خالی نم آنکھوں والی سِلّی سِلّی سی ہنسی ۔۔۔جس کی یاد میرے کئی دن نمکین رکھتی ہے ۔!
ایک دن میرے روپے پکڑانے پر کہنے لگی میں ان روپوں کا کیاکروں گی مجھ سے نہیں سنبھلتے بھئی اب آپ ہی رکھیئے ۔ صندوقچی بھر گئی کیا۔۔۔۔؟ میں نے ہنس کر پوچھا وہ خالی ہی کب ہوئی نچلے ہونٹ کو دانتوں سے چباتے ہوئے بولی ۔ُاس کے جانے ککے بعد صندوقچی کھول کر دیکھی ۔۔۔۔اس کی اماں کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر رکھی تھی ۔۔۔۔ٹکا نہ دھیلا فقط ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ۔ دھیان سے دیکھا تو ساتھ میں سارا بچپن پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سہیلیوں کی ہنسی عید کی چوڑیوں کی کھنک مہندی کی خوشبو ۔۔۔ گڑیا کی شادی کے شامیانے بھی ابھی تک بکھرے پڑے تھے ۔ گڑیا کی جدائی میں بہتے چند ایک اشک بھی رکھے تھے ۔۔۔!
ٹوٹی پازیب کا اک گھنگرو ، پلکوں سے اُلجھے خواب ، ڈھیر ساری اداسی
اور وہ ایک لوری ۔۔۔۔۔سسکتی ہوئی
للا للا لوری دودھ کی کٹوری
دوھ میں بتاشا ۔۔۔۔جیون کھیل تماشا
۔۔۔۔ وقت نے دودھ میں پڑے بتاشے کب نگلے ۔ پتہ ہی نہیں چلا ۔ جیون نے یہ کیسا کھیل کھیلا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے ٹھیک ہی تو کہا تھا صندوقچی خالی ہی کب ہوئی ۔۔۔۔ وہ تو لبالب بھری ہوئی تھی ۔۔۔!
میرا دل مجھے کوسنے دے رہا تھا ۔ بد نصیب تجھے اُس وقت کیوں نہ ہوش آئی ۔۔۔۔۔۔ میرا بس چلتا تو وقت کو منتیں کر کہ منا لیتا ایک بار واپس لے آتا اسے اس کی زندگی میں اس کی ماں سے ملوا لاتا اسے اس کی لوریاں واپس کر دیتا مگر یہ میرے بس میں نہیں میرے بس میں تو فقط نوحہ ہے آنے والے وقت کے پنوں پر لکھنے کے لیئے ۔۔۔۔۔۔!
ُاس کی آخری خواہش تھی ُاسے کشمیر میں دفن کیا جائے ۔۔۔!
اُس کی بہن نے بس اتنا ہی کہا لال جوڑے میں لے گئے تھے
سفید میں لائے ہو کوئی ایسا بھی کرتا ہے دولہا بھائی
میں اُسے اُس کے کشمیر چھوڑ آیا تھا ۔۔۔۔ !
واپسی کے سفر میں پچھتاوے میرے ساتھ تھے
میرے ساتھ بیٹھا مسافر مینا گوئندل کی نظم سن رہا تھا
„ چکر کھاتی چرخی پر گھوم کر تیرے ہاتھوں میں
پانی کے چند ہی قطروں سے میں اپنے آپ ہو جاتی
کبھی گول رکابی کے جیسی
کبھی چپٹی کاسوں کی پیالی
میں اپنے اندر گرم اور ٹھنڈے جذبے سموجاتی
میری قیمت تونے کیا جانی
میرے بھولے پیارے ساتھی رے
چکر کھاتی چرخی پر گھوم کر تیرے ہاتھوں میں ”
میں صندوقچی سینے سے لگائے نم آنکھوں سے سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں میں چکر کھاتی وہ پیالی یا رکابی تو نہ تھی ۔۔۔!