آج – 12؍فروری 1926
ممتاز قبل از جدید شاعر۔ راماین پر اپنی نظم کے لئے مشہور۔ ضرب المثل شعر زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب۔ موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا، کے خالق” چکبستؔ برج نرائن “ کا یومِ وفات…
پنڈت ادت نارائن شیو پوری چکبست کے بیٹے پنڈت برج نارائن چکبست ، چکبستؔ کے نام سے جانےگئے ۔وہ 19؍جنوری 1882ء کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔والد بھی شاعر تھے اور یقینؔ تخلص کرتے تھے ۔وہ پٹنہ میں ڈپٹی کمشنر تھے ۔ کالی داس گپتا رضا کو یقین کے بائیس اشعار ملے جو کلیات چکبست میں درج ہیں ۔ اس سے زیادہ کلام نہیں ملتا ۔ایک شعر افضال احمد کو بھی ملا تھا۔گپتا رضا کے بقول وہ ایک مشاق شاعر تھے ۔انہی کا ایک شعر ہے نگاہ لطف سے اے جاں اگر نظر کرتے ،تمہارے تیروں سے سینہ کو ہم سپر کرتے ۔یقین ترن ناتھ بخشی دریا لکھنوی سے اصلاح لیتے تھے ۔چکبست جب پانچ سال کے تھے والد کا انتقال(1887) ہوگیا۔بڑے بھائی پنڈت مہاراج نارائن چکبست نے ان کی تعلیم میں دلچسپی لی ۔1908میں قانون کی ڈگری لی اور وکالت شروع کی ۔ سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رہے اورگرفتار بھی ہوئے ۔کہتے ہیں نو برس کی عمر سے شعر کہنے لگے تھے ۔ بارہ سال کی عمر میں کلام میں پختگی آچکی تھی ۔مثنوی گلزار نسیم پر ان کا اور شرر کا مباحثہ یاد گار ہے ۔ افضل علی خاں افضل کے شاگرد تھے۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ غزلیں کہیں۔ بعد ازاں قومی ، سیاسی ،سوشل اور نیچرل نظمیں کہنے لگے۔’’کلیات چکبست‘‘ مرتبہ کالی داس گپتا رضا1981 میں چھپ چکی ہے۔چکبست نے پہلی نظم ایک اجلاس میں 1894میں پڑھی۔کہیں کہیں چکبست کے ایک ناٹک کملا کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔رامائن کے کئی سین نظم کیے ،لیکن اس کو مکمل نہ کر سکے ۔ 12؍فروری 1926ء کو ایک مقدمہ سے لوٹتے ہوئے اسٹیشن پر ان کاانتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر چکبستؔ برج نرائن کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
—
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں
—
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
—
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
—
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غمِ دو جہاں کے ہیں
—
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسمِ شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
—
خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا
—
زبان حال سے یہ لکھنؤ کی خاک کہتی ہے
مٹایا گردشِ افلاک نے جاہ و حشم میرا
—
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
—
ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا
—
عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
—
کیا ہے فاش پردہ کفر و دیں کا اس قدر میں نے
کہ دشمن ہے برہمن اور عدو شیخ حرم میرا
—
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے
—
منزلِ عبرت ہے دنیا اہلِ دنیا شاد ہیں
ایسی دلجمعی سے ہوتی ہے پریشانی مجھے
—
لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزمِ سخن
بعد مدت پھر ہوا ذوق غزل خوانی مجھے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
چکبستؔ برج نرائن
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ