گاؤں یا دیہات کو “چک” کیوں کہا جاتا ہے؟
ہم میں سے اکثر لوگ دیہاتوں سے شہروں میں آ کر بس گئے ہیں۔ لوگ بہتر روزگار تعلیم اور بہتر سہولیات کے حصول کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد دیہات میں بستی ہے۔
عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 60 فیصد لوگ دیہات میں آباد ہیں اور پاکستان میں 60 سے 70 فیصد لوگوں کا روزگار بھی زراعت سے وابستہ ہے۔
لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ گاؤں یا دیہات کو چَک کیوں کہا جاتا ہے؟
دیہات کو اردو میں گاؤں کہا جاتا ہے اور انگلش میں ولیج۔ لیکن جب ہم کسی سے اس کے گاؤں کے ایڈریس یا پتہ پوچھتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے چَک نمبر فلاں فلاں۔
لہذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چَک کیا ہے اور چَک نمبر کیا ہے؟ جبکہ دیہات کے پتے کو گاؤں کے نمبر سے بھی لکھا جا سکتا تھا۔ پھر لفظ چَک کا استعمال کیوں کیا گیا۔
اس بات کا جواب فلسفے کے مشہور استاد اور کئی کتابوں کے مصنف سید علی عباس جلالپوری کچھ یوں دیتے ہیں کہ جب کنواں کھودا جاتا ہے تو اس میں ایک گول لکڑی کا چک لگا دیا جاتا ہے اور اس چک کے گرد ااینٹیں چن دیں جاتی ہیں۔
اسی طرح برطانوی راج کے دوران دور دراز کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہریں کھودی گئیں۔ جس سے دور دراز کی علاقے سیراب ہوئے اور ان نہروں کے گرد لوگ بسنے لگے۔
تو بستی بسانے سے پہلے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک کنواں کھودا جاتا تھا، اس کنوے پر لکڑی کا ایک گول چک لگا دیا جاتا تھا۔ پھر اس کنویں کے گرد آباد ہونے والی بستی کو چک کہا جانے لگا۔
رفتہ رفتہ ان چک کے نمبر لگا دیے گئے۔ یوں ایک گاؤں یا ایک دیہات کو چک کہا اور لکھا جانے لگا۔
اس ضمن میں ڈنگہ سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی شخصیت جناب مجید جنجوعہ صاحب ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ھوئے بتاتے ہیں
لکڑی کا چک کنوئیں میں رکھ کر اس کے ارد گرد نہیں بلکہ اس کے اوپر اینٹوں کی چنائی کی جاتی ہے پھر اس چک کے نیچے سے مٹی نکال کر کنواں مزید گہرا کرتے جاتے ہیں.
انگریز دور میں جب نہری نظام قائم کیا گیا تو مزید رقبہ زیر کاشت لانے کے لئے خصوصاً مشرقی پنجاب کے کاشتکاروں کو ان نہری علاقوں میں زمینیں الاٹ کی گئیں، ان علاقوں میں بسائے گئے گاؤں کو چک کہا جاتا تھا اور جس نہر سے یہ چک سیراب ہوتے تھے اسی نہر یا شاخ کا نام بھی نمبر کے ساتھ لکھتے ہیں جیسے چک نمبر 66 گ ب( گوگیرہ برانچ ) یا چک نمبر 77 ر ب ( رکھ برانچ ) یہی نمبر اور نام اب ان چکوک کی پہچان ہیں.،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...