لودھراں۔رائے ونڈ برانچ لائن پر عارفوالہ سے چلیں جبکہ آپکا منہ ول پاکپتن شریف ہو تو اگلا سٹیشن مرادچشتی کے نام کا آتا ہے۔ بہت برس نہیں بیتےکہ ہمارا چک نمبر 3/EB جو اب سلسلۂ چشتیہ سے بیعت ہو گیا ہے۔
اپنےاصل نام چک داتارسنگھ سےجاناجاتاتھا۔ رائےبہادرسردارداتار سنگھ ڈسٹرکٹ بورڈمنٹگمری کاوائس چیئرمین رہااورانگریزسرکارنے لودھراں پاکپتن لائن پرایک ریلوےسٹیشن آپکےنام کیا۔ سرکارے دربارےاس پہنچ کی بنیادی وجہ تھےآپ کےدادا حضور، پاکپتن کی تحصیل کلیانہ کے باسی سردار ماچھی سنگھ اروڑا۔
گنجی بار میں پاکپتن کے علاقے میں 1857 کی جنگِ آزادی کے مجاہدوں کی مخبری ماچھی سنگھ اروڑا نے کی اور بدلےمیں انعام واکرام سے فیضیاب ہوا۔ اس کے بیٹے سردار حکم سنگھ کو ذیلداری انعام میں ملی اور پوتے داتار سنگھ کو برانچ لائن پر ایک گاؤں اور اپنے نام کا ریلوے سٹیشن۔ جب پاکپتن اور اسکے نواح میں آزادی کے مجاہدوں نے زورپکڑا تو پاکپتن کے مخدوم خود تو پس منظر میں رہے مگر اپنے مریدوں کو انہوں نے انگریزوں کے ساتھ گوگیرہ میں آزادی کے مجاہدوں کے خلاف لڑنے بھیجا۔ ملتان اور پاکپتن کے مخدوم جو مذہبی درگاہوں کے سجادہ نشین تھے انگریزوں کے طرف دار ہوئےاور یہ آزادی کےمجاہدوں کےلیےسب سےبڑاجذباتی دھچکہ ثابت ہوا۔
واپس آج کےمرادچشتی اورکل کےچک داتارسنگھ کی اورپلٹتےہیں۔ عارفوالہ سےجنوب کی سمت برلبِ ستلج نیلی بارکےپڑوس میں ایک گاؤں ٹبی لعل بیگ کےنام کاآتا ہے۔ یہاں ایک مزار کاکتبہ ممبر ویسٹ پاکستان اسمبلی پیر غلام علی چشتی کو یاد کرتاہے آپکے والدگرامی پیر گلاب علی چشتی تھے، انہوں نے ستلج کے اس پار ریاست بہاولپور میں جاری جنگِ آزادی کے مجاہدوں کی سرگرمیوں کی انگریز سرکار کو مخبری کا بیڑا اُٹھایا اور اس کارِ خیر کو خوب نبھایا۔ انعام و اکرام کے علاوہ ان کا ایک سپوت پیر اللہ یار چشتی ذیلدار بنایا گیا ٹبی لعل بیگ سے سیاسی شطرنج کی بساط پر آج کی تاریخ میں جو چشتی پیادے بیٹھے ہیں وہ اپنے جد امجد پیر گلاب علی چشتی کی سرکارِ انگلشیہ کی چاکری اور وطن سے غداری کی دین ہے۔
صاحبو، بہت دن نہیں بیتے کہ میں راوی کےبہاؤ کے ساتھ ساتھ ہیڈ سدھنائی کی قربت میں سرائے سدھو کا مسافر تھا وہیں ایک پرباش سہ پہر ماسٹر نسیم ہوشیارپوری نے پہلے پہل مجھے بتایا تھا کہ عبدالحکیم اورشورکوٹ کینٹ کے درمیان درکھانہ نام کا سٹیشن اصل میں دارخانہ ہے اوریہ اس لیےہےکہ یہاں انگریزسرکارکےلگائےتختےپرجنگِ آزادی کے ان گنت مجاہد دارکی رسیوں کےگلوبندگردن میں پہنےآزادی کاجھولا جھول گئےتھے
عشق آپ کیہڑاچنگا چنگیاں رہن وی نئیں دیندا
پھانسی گڈکےچوراہے جھونٹا لین وی نئیں دیندا
گنجی بار کی سرزمین پر آزادی کی جنگ کے مجاہدوں کے جتھے کو اکٹھا کرنے والا اور میدانِ جنگ میں انگریزوں کو للکارنے والا جھامرے کا رائے احمد کھرل شہید تھا۔ سفید پگ والا اسی برس کا یہ جوان گشکوری کے جنگل میں انگریزوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ’جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ کا‘ کی مجسم تصویر بنا کھڑا تھا۔ یہ رائے احمد کی شہادت کا دن تھا اور دادا پھوگی کےڈھولے اورگنجی بارکی واریں ہمیں بتاتی ہیں کہ کھرل دس محرم کےدن گشکوری کےمیدانِ جنگ میں جب ظہرکی نماز پڑھنےکھڑاہواتوموقع کافائدہ اٹھاتےہوئےشہیدکردیاگیا۔ ستگھرہ کا دھاڑا سنگھ جو انگریزوں کے ساتھ ملکر مجاہدوں کے خلاف لڑاتھا فخریہ کہا کرتا کہ کھرل اس کی گولی کا نشانہ بنا گوگیرے کا کھیم سنگھ بیدی تھا جس نے احمد خان کی طرف اشارہ کرکے گولی چلوائی۔ بدلے میں ان دونوں سرداروں اور دوسرے سکھوں اور مسلمانوں نے جو انگریزوں کے ’بانہہ بیلی‘ بنے ہوئے تھے عہدے، مراعات جاگیریں اور نقد انعام پائے۔
صاحبوجب بھی رائےاحمد کی کہانی کہی جائےگی تواس کی اور ساتھیوں کی دلیری اور غیرت سے بڑھ کر ایسا کیا ہے جو بیان کیا جائے!
بارکے آزاد منش لوگ مغلوں سے لےکر انگریزوں تک مزاحمت کی راہ کے شہ سوار ہوئے تو باغی اور جانگلی کہلائے۔ جب اس علاقے کی مروج تاریخ نے ان سے صرفِ نظر کیا تو ان ’انکھی‘ لوگوں نے ڈھولوں، واروں اور لوک گیتوں کا سہارا لے کر خوداپنی تاریخ کہہ ڈالی
ہمارےدوست محمدحسن معراج کہتےہیں ’ماؤں، دادیوں نےجنم جنم کی کہانیاں، لفظوں میں لپیٹ کرطاقوں میں رکھنےکی بجائے، لوریوں میں ڈھانپ کرسینوں میں سنبھالناشروع کر دیں۔ لفظ پھسل نہ جائیں، ان گیتوں کی دھن، لوری کی تھاپ، چرخےکےچکر اورچکی کی چال کوسونپ دی‘ توصاحبوکہنےکوتوبہت کچھ ہے، دادا پھوگی کےڈھولےہیں، سعید بھٹاکی نابرکہانی ہے، تراب الحسن سرگانہ کی عرق ریزی سےکی گئی تحقیق ہے اور اے ڈی اعجاز کی گاؤں گاؤں کی خاک چھان کر ایک عمر کی مشقت سے سینچی گئی کال بلیندی ہے، مگر رائے احمد اور گنجی بار میں آزادی کے مجاہدوں کا جب جب ذکر آتا ہے توکھوج ہمیں ایک کے بعد دوسرے میرجعفر اور میر صادق کی خبر دیتی ہے۔ راوی اور بیاس کے مابین باری دوآب کا پانی پی کر اس مٹی سے اٹھنے والے انکھی انگریز سے اس لیے ہارگئے کہ سیندھ لگانے والے ان کے اپنے سنگی ساتھی تھے۔ ان کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے، احمد خان کا دُکھ ہمارا دُکھ ہے اورراوی کےسائیں جس کو ُڈھکاں‘ آج بھی یاد کرتی ہیں، کی کہانی ہماری کہانی ہے
کال پئی بلیندی، نارد گھر پیا پُچھدااے، رائے نتھوتےاحمدخان دا
بی بونجا، براں گل جگنیاں، کھرل نوں پروانہ لےکےملیاشان دا
ٹھٹھاں دونہاں مقابلہ اے، پڑعلی شاہ مردان دا
مرادڈھوئی گھوڑی، ماریوس بھلا تن برکلی دے
پھل جھگایا سانگ دا
سانگ وی آہندی اے، باراں ورہیاں دا رکھیا روزہ
توہیں چھڈایا، اج گنا کھلی ہاں بھن کے چوپ کمانددا
___