کوریا انسٹی ٹیوٹ کے ڈیپارٹمنٹ آف نیوکلئیر اینڈ کوانٹم انجینیرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر چن رِم نے 2008 میں ایک تجربہ کیا۔ یہ تجربہ انہوں نے خود اپنی گیارہ سالہ بیٹی پر کیا۔ پوری رات ہر پانچ منٹ کے بعد اس کا درجہ حرارت، بلڈ پریشر اور اس کے ہاتھوں کی گرمائش چیک کرتے رہے۔ اس تجربے سے جو ثابت ہوا، اس کی وجہ سے آج ان کی پوری فیملی آرام سے سوتی ہے۔ یہ تجربہ کیا تھا؟ انہوں نے رات کو پنکھا چلایا تھا۔
دنیا کے ہر خطے کے اپنے توہمات ہیں اور ان کو سائنس کے کسی طریقے سے گھما پھرا کر سپورٹ کروا لینا بھی ہمارا معمول ہے۔ جنوبی کوریا کا ایک وہم یہ ہے کہ وہاں پر رات کو سوتے وقت پنکھا نہیں چلایا جاتا۔ وہم یہ ہے کہ ایسا کرنے سے موت ہو سکتی ہے۔ ایک بار یہ وہم رچ بس گیا تو پھر اس کی کئی وجوہات بھی بنا لی گئیں۔ ان میں سے چند:
۱۔ پنکھا بند جگہ میں ہوا کو کھینچ کر باہر لے جاتا ہے۔ ہوا کے بغیر دم گھٹ سکتا ہے۔
۲۔ پنکھے کے بلیڈ آکسیجن کو توڑ دیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنا ڈالتے ہیں۔
۳۔ سرد ہوا جسم کا درجہ حرارت گرا دیتی ہے۔ سونے والا چونکہ حرکت میں نہیں ہوتا اور اس کے اعضاء ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
۴۔ اس پر ایک ریسرچ رپورٹ نے مہر اس وقت ثبت کر دی جب اس میں کہا گیا کہ اگر کوئی ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو تو پنکھا جسم میں پانی مزید کم کر دیتا ہے کیونکہ وہ پسینہ اڑا رہا ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صحت مند افراد تو پنکھے کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن بوڑھے یا بچوں کے لئے خطرناک ہے۔ اس نے جنوبی کوریا میں ایک مارکیٹ پیدا کی ہے جو صرف وہیں سے خاص ہے۔ یہ “محفوظ پنکھوں” کی مارکیٹ ہے۔ بچوں کے لئے پنکھے جو بہت آہستہ چلتے ہیں اور ہوا کو پورے کمرے میں بکھیرتے ہیں۔ ٹائمر والے پنکھے جو خود سے بند ہو جاتے ہیں تا کہ ایسا نہ ہو کہ پنکھا چلتے وقت آنکھ لگ جائے۔
ڈاکٹر چن رم نے اسی کو سائنسی طریقے سے جاننے کے لئے یہ تجربہ اپنی بیٹی پر کیا اور اب پچھلے دس برس سے سوتے وقت پنکھا چلا کر سو رہے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں لوگ اس پر بنائی گئی سوڈوسائنس سے آگاہ نہیں، اس لئے بلا خوف و خطر پنکھا چلا چین کی نیند سوتے ہیں۔
پرانی کہانیوں پر سائنسی لفافہ چڑھانے کی ایک اسی طرح کی کہانی برِصغیر سے۔ رات کو درختوں کے نیچے نہ جانا اور سونے سے منع کرنا برصغیر کا پرانا وہم ہے اور اس کی اصل وجہ اس خطے میں بڑے سایہ دار درختوں، خاص طور پر برگد اور پیپل کے پیڑوں کا خاص مقام ہے (پیپل سے منسلک کئی قصے آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں)۔ جب درختوں کے تنفس کا علم ہوا تو اس بارے میں توہمات کا سائنس سے رشتہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے بنا لیا گیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضا میں بہت کم ہے اور رات کو بڑے درختوں کے نیچے اس تناسب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ لیکن درختوں کے تنفس کی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے اپنے وہم کا دفاع کرنے کا ایک طریقے مل گیا اور مشہور بھی ہو گیا۔
برِصغیر سے باہر چونکہ لوگ اس سوڈوسائنس سے واقف نہیں، اس لئے درختوں کے نیچے بھی بلا خوف و خطر چین کی نیند سوتے ہیں۔
کیا آپ اس قسم کی کچھ اور کہانیوں سے واقف ہیں؟ اگر ہاں، تو بھی کمنٹ میں مت لکھئے گا۔ پوسٹ کرنے والے نے بھی چین کی نیند سونا ہے۔