بس آنے میں کچھ دیر تھی۔ پروفیسر انصاری نے گھڑی دیکھی اور قریبی ملباری ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ سر بھی کچھ بھاری ہورہا تھا۔ ایک ایسی میز منتخب کرکے جہاں دور سے آتی ہوئی بس پر نظر رہے، پروفیسر صاحب نے بیرے کو آواز دی۔
" چار نمبر ٹیبل سے ڈھائی روپیہ، لال ٹوپی والے سے بارہ آنے" کاؤنٹر کی طرف منہ کئے آواز لگاتا ہوا بیرا پروفیسر کی طرف مڑا۔
" بولو چاچا"
" سنو میاں ایک چائے لاؤ، ذرا زیادہ پانی رکھنا، میٹھا کچھ تیز، تھوڑا دودھ اور ملائی بھی ڈالو تو اچھا ہے" پروفیسر نے ٹھہر ٹھہر کر بتایا۔
بیرا میز سے پچھلے گاہک کی چھوڑی ہوئی پلیٹیں اٹھاتا ہوا باآواز بلند مشین گن کی طرح تڑتڑاتا ہواچلایا" ایک چائے ، لمبا پانی، میٹھا تیز، تھوڑا دودھ مار کے، تھوڑا ملائی مارکے"
لمحہ بھر بعد ہی بھاپ اڑاتی چائے کی پیالی جس میں بالائی جھانک رہی تھی پروفیسر کی میز پر تھی۔ چائے کی بھاپ ہی نتھنوں تک پہنچی تھی کہ پروفیسر کی ساریے دن کی تھکن اور کوفت جیسے ہوا ہوگئی۔
اور یہ گورے غلط نہیں کہتے کہ جب تک دنیا میں چائے ہے، دنیا میں امید بھی قائم ہے۔ اور انہی انگریزوں کے لئے ہر وقت ،چائے کا وقت ہوتا ہے۔ چائے کی دعوت ان کے لئے ایک بہترین خیال اور بہترین تجویز ہوتی ہے۔
اور انگریز کی اتباع میں ہم نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ " کل ملتے ہیں انار کے شربت پر، " یا یہ کہ " کیوں نہ پرسوں لسی کے گلاس پر اس پر بات کرلیں ؟" ۔ یہ صرف چائے ہی ہوتی ہے جس پر ہم دوسروں کو دعوت دیتے ہیں یا کسی معاملے کو نمٹانے کے لئے چائے پر بلاتے ہیں۔
چائے اگر انگریز کے لئے زندہ رہنے کی وجہ یا جینے کا بہانا یا جینے کا سہارا ہے تو جاپانیوں کے نزدیک یہ ایک شاعری ہے،،ایک غزل ہے،جس کا ردیف، قافیہ، مطلع، مقطع، وزن ، بحر اور خیال جب تک ایک خاص ترتیب اور مقدار سے نہ ہو چائے نہ پی جاسکتی ہے نہ پلائی جاسکتی ہے۔
ہمارے ہاں لیکن بعض اوقات چائے کے اثرات بڑے تباہ کن ہوتے ہیں۔ یہ وہ چائے ہوتی جس پر کسی کنوارے نوجوان کو بلایا جاتا ہے، اور پھر وہ اس چائے کو زندگی بھر بھلا نہیں پاتا۔ ہمارے ایک دوست تو چائے کے نام سے ہی بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کے خانگی زندگی دیکھ کر ان کی برافروختگی کی وجہ سمجھ آتی ہے۔
یار لوگوں نے چائے کو سماجی تفریق کا پیمانہ بھی بنا لیا ہے۔ جھگی نما چائے خانے کی بنچ پر اکڑوں بیٹھا ہوا کرم داد جو پرچ میں چائےانڈیل کر سڑکیاں لے رہا ہے اس کی چائے میں تین سے زیادہ چمچ چینی ہے، وہ جو کالج کا نوجوان کیفےٹیریا میں چائے پی رہا ہے وہ صرف ایک چمچ چینی لیتا ہے لیکن جن جج صاحب کے گھر وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے جاتا ہے وہ چائے میں شکر ہی نہیں ڈالتے اور جج صاحب کی عدالت کے چیف جسٹس صاحب تو دودھ بھی نہیں ڈالتے۔
لیکن دیکھا جائے تو ہم سب چائے سے منافقت برتتے ہیں۔ آپ کسی کے لئے بھی چائے بناتے ہوئے دریافت کریں کہ " شکر کتنی؟" اور پھر خاموشی سے اس چائے میں اس کی مطلوبہ مقدار سے ایک چمچ چینی زیادہ ڈال دیں۔ پہلا گھونٹ لیتے ہی مہمان کی گردن ستائش میں مٹکنے لگے گی " بھئی چائے تو بڑی اچھی بنی ہے" ۔
اللہ کی اس نعمت یعنی مٹھاس کو ہم نے پڑھا لکھا اور امیر کہلانے کے لئے اپنے اوپر حرام کررکھا ہے۔ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ میرے اپنے ساتھ بیت چکی ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ کسی زمانے میں ہم کورنگی میں رہتے تھے اور نہ صرف ہمارے گھر میں بلکہ سارے گھروں میں چائے کیتلی یا کسی برتن میں پتی ڈال کر ابالی جاتی تھی اور اسی میں دودھ اور شکر بھی ملادی جاتی تھی اور پھر چینی کے پیالوں میں پیش کردی جاتی تھی۔ اس چائے میں ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے،سب ہی یکساں مقدار میں چائے میں چینی پیتے۔
اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ ایک قریبی لیکن متمول عزیز کے ہاں جو کہ شہر کے ایک پوش علاقے میں رہتے تھے چائے کی دعوت تھی۔ میزبان خاتون نے پوچھا " شکر کتنی" اور میں نے بے ساختہ کہا" تین چمچ"
" تین چمچ !!!" خاتون نے کچھ اس قدر بلند اور استعجاب آمیز آواز میں کہا کہ یہاں سے وہاں تک سارے حاضرین محفل کی نظر میری جانب اٹھ گئی۔ وہ سب ایک ایک چمچ یا بغیر شکر کی چائے پی رہے تھے اور میں اس سارے مجمعے میں خود کو جاہل جاہل سا محسوس کرنے لگا۔
اگلی بار جب یہ موقع آیا تو میں نے دو چمچ ڈلوائے لیکن یہ بھی حاضرین کی نظروں میں وقعت نہ پا سکی۔ مجبوراً اگلی پیشیوں پر ایک چمچ پر اکتفا کرنا پڑا لیکن موقع دیکھ کر لوگوں کی نظر بچا کر آدھا چمچ خاموشی سے چائے میں ملا لیتا۔
لیکن کیا بتاؤں کہ اس چائے کے نام پر کیسے کیسے دھوکےکھائے۔ اور یہ تو اچھا خاصا پڑھ لکھ لینے اور بیرون ملک ایک مناسب سی ملازمت اور قابل اطمینان طرز رہائش اختیار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے ۔
اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ میں چھٹیوں پر وطن آیا ہوا تھا اور ایک قریبی عزیز کے ہاں بچے کے عقیقے ، یا ختنے کی دعوت تھی۔ کھانا بڑا پرتکلف اور زائقے دار تھا۔ میزوں پر کھانے اور مشروبات سجے ہوئے تھے اور مہمان گاہے بگاہے اٹھ کر اپنی پسند کی چیز پلیٹوں میں ڈال کر گپ شپ میں مصروف ہوجاتے۔ میں کھانا کھا چکا تھا اب کسی میٹھی چیز کی خواہش تھی ۔ ایک صاحب کو دیکھا کہ ایک سماوار نما چھوٹی سی ٹنکی سے کوئی گلابی سا مشروب نکالا جیسے محرم یا رمضان میں دودھ میں روح افزا ملاتے ہیں۔ انہوں نے اس پر ایک طشتری میں رکھا پستے کا چورا چھڑکا اور اپنی نشست کی طرف چلے۔
یہ بڑا خوش رنگ مشروب تھا۔ میں نے بھی ان حضرت کی طرح سماوار سے وہ مشروب نکالا اور اس ہر بادام پستے کا چورا چھڑکا۔ یہ ایک گرم مشروب تھا اور خاصا خوش ذائقہ تھا۔
کچھ دیر بعد میں اپنی نشست پر غنودگی کے عالم میں جھوم رہا تھا۔ مہمان ایک ایک کرکے رخصت ہورہے تھے اور میں بھی گھر کی خواتین کے باہر آنے کا انتظار کررہا تھا۔ اتنے میں میزبان جس سے خاصی بے تکلفی تھی میری جانب آیا۔
" کچھ لوگے؟ " اس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
" ہاں یار چائے پلوادو۔۔ رات کافی ہوگئی ہے اور دور جانا ہے"
" ابھی لو" یہ کہہ کر اس نے ایک ملازم کو آواز دی اور چائے لانے کو کہا۔ ۔
وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور ہم نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد ملازم نے میرے سامنے چائے کی پیالی دھر دی۔ لیکن ہیں ! یہ کیا؟ یہ تو وہی گلابی مشروب تھا۔
" یار چائے نہیں ہے؟" میں نے میزبان سے پوچھا۔
" یہ چائے ہی تو ہے۔ کشمیری چائے"
تو جناب یہ کشمیری چائے تھی جس میں چائے کے سوا سب کچھ ہوتا ہے اور چاہے میرے 'بٹ' ڈار' لون' اور ڈوگر دوست برا مانیں جب تک یہ کشمیری چائے ہے یقین جانیے کشمیر ہرگز آزاد نہیں ہوسکتا۔
کشمیر آزاد کرانا ہےتو کڑک کالی چائے پینا ضروری ہے اور جیسا کہ انگریز کا ایمان ہے کہ جب تک چائے ہے دنیا سے امید، نیکی اور بہادری ختم نہیں ہوسکتی۔
اور اس کشمیری چائے پر ہنری کیسنجر کا قصہ یاد آیا۔
ہمارے بھٹو صاحب نے جب اعلان کیا ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنا کررہیں گے تو امریکی صدر نکسن نے اپنے وزیر خارجہ کو بھٹو کے پاس بھیجا کہ انہیں بم بنانے سے منع کرے۔
کسنجر صبح اسلام آباد پہنچا دس بجے بھٹو صاحب کے ساتھ میٹنگ تھی، بھٹو نے ہنری کو اپنے یہاں کا مقبول مشروب ' لسی ' پیش کی جس میں پیڑہ بھی تھا۔ لسی پیتے پی ہنری کسنجر پر غنودگی چھانے لگی اور وہ خراٹے لینے لگا۔ تین گھنٹے بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو بھٹو صاحب نے ازراہ میزبانی پیڑے والی لسی کا ایک اور گلاس پیش کیا۔ کسنجر پھر غنودگی میں چلآگیا۔ جب دوبارہ جاگا تو میٹنگ کا وقت ختم ہوچکا تھا اور اسے واشنگٹن جانے والے طیارے میں سوار ہونا تھا۔
کسنجر واشنگٹن پہنچا تو نکسن وہاں منتظر تھا۔ دیکھتے ہی پوچھا کہ کیا ہوا۔ تم نے بھٹو کو منع کردیا بم بنانے سے؟
" فکر نہ کریں مسٹر پریذیڈنٹ " ہنری کسنجر نے رسانی سے جواب دیا۔
" جب تک وہ " مشروب حماقت" اس قوم کے پاس ہے وہ کچھ نہیں کرسکتی" ۔
یہ قصہ میں نے چائے کا کیس مضبوط کرنے کے لئے نہیں سنایا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے عالمی مسائل چائے کے کپ پر طے کئے گئے۔۔ اور بہت سے مسائل کی بناء بھی چائے کے کپ پر ہی پڑی۔ بہرحال تاریخ میرا چائے کا کپ نہیں ہے جیسا کہ گورے کہتے ہیں This is not my cup of tea.
لیکن اتنا تو آپ بھی مانتے ہوں گے کہ کامیاب لوگ ہمیشہ کڑک چائے پیتے ہیں۔ اگر یقین نہ ہو تو ٹی وی پر چلنے والے وہ چائے کے اشتہار دیکھ لیں جو اعلان کرتے ہیں کہ کامیاب لوگوں کی پسند دھمال دانے دار چائے۔
کڑک چائے کے شوقین ہمیشہ گرما گرم اور بھاپ اڑاتی چائے پسند کرتے ہیں۔ میرا ایک انگریز دوست تو جہنم بھی صرف اس لئے جانا چاہتا ہے کہ وہاں اس کی چائے کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔
کچھ لوگوں کے لئے چائے ایک گرم بوسے کی مانند ہوتا ہے تو کچھ ایسے قنوطی بھی ہیں جو اگلی صبح چائے کا کپ دیکھ کر اس لئے منہ بناتے ہیں کہ اس نئی صبح کا مطلب ہے کہ زندگی کا ایک دن اور کم ہوا۔
چائے محبت کا اظہار ہے تو بہت سی دشمنیوں کی بنیاد بھی چائے کی پیالی پر ہی پڑتی ہے۔ لیکن چائے کے کثیرالمقاصد فوائد ( اور نقصانات) سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
سردیوں میں یہ چائے جسم کو گرمی پہنچاتی ہے تو کبھی دماغ گرم ہو تو یہ مزاج ٹھنڈا کرتی ہے۔ آپ مایوس ہوں تو یہ آپ کو امید دلاتی ہے اور اگر بہت زیادہ پرجوش ہوں تو اعتدال پر لاتی ہے۔
اب اگر یہ مضمون پڑھتے ہوئے آپ پر کوفت طاری ہوگئی ہے اور آپ جماہی لے رہے ہیں تو آپ کی بیگم ضرور پوچھیں گی کہ " چائے بناؤں ؟"
اور آپ انکار بھی کیسے کرسکتے ہیں کہ ہر وقت چائے کا وقت ہوتا ہے۔
Any time is tea time.