چین میں میں ہزاروں سالوں سے چائے پی جا رہی ہے لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چائے کیسے چین سے نکل کر پوری دنیا کا کامیاب ترین مشروب بن گئ۔
چائے کمیلیا کے خاندان کا ایک پودا ہے۔ کمیلیا کے خاندان کے باقی پودے اپنے خوبصورت پھولوں کے لئے ساری دنیا میں مشہور ہیں لیکن چائے کے پودے نے ارتقائی منازل میں اپنی پہچان اپنے پتوں سے بنائی ہے۔
صدیوں سے چائنیز بادشاہت کی طرف سے ریشم کے کیڑے اور چائے کے پودے چین سے باہر لے جانے کی کوشش کرنے والوں کو ہولناک سزائیں دی جا رہی تھی اور بہت سارے تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔
آخرکار 1840 کے قریب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ایک ماہر نباتات رابرٹ فورچون دو سو کے قریب چائے کے پودے انڈیا سمگل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان پودوں کو سری لنکا اور دارجلنگ انڈیا میں لاکر لگایا گیا۔ قدرت کا کھیل دیکھیں کہ جب ان پودوں سے چائے بنائی گئ تو پتہ چلا کہ پودے تو چائے کے ہی ہیں لیکن یہ چائے کی ایک اور قسم ہے اور یہ وہ والی قسم نہیں تھی جو چین سے باہر ایکسپورٹ ہو رہی تھی۔ ان پودوں سے حاصل کی گئ چائے اپنے ذائقے اور معیار میں چین سے ایکسپورٹ ہونے والی چائے کے مقابلے میں کم تر تھی۔
کوئی اس کو حسن اتفاق کہے یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کی ہوشیاری کہ انہوں نے ان چائے کے پتوں کو خمیر اٹھانے کے بعد بھون کر چائے بنانے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی اور ایک نئی چائے کی قسم دریافت ہو گئی۔ یہ چائے اپنے ذائقے اور معیار میں کسی طرح سے بھی چین سے ایکسپورٹ کی گئی سبزپتوں والی چائے سے کم تر نہیں تھی۔ اس دوران سری لنکا اور اور انڈیا میں بہت بڑے پیمانے پر جنگات صاف کر کے چائے کے باغات لگائے جانے شروع کئے گئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی اس زمانے میں میں انڈیا میں بڑے پیمانے پر زبردستی افیون کاشت کروا کر اس کو چین بھجوا رہی تھی اور ہونے والی آمدن سے چائے خرید کر باقی دنیا میں سپلائی کر رہی تھی۔ آپ لوٹ مار کا اندازہ لگائیں کہ بغیر کوئی پیسہ لگائے ایسٹ انڈیا کمپنی بے تحاشہ مال بنا رہی تھی اور برطانوی اشرافیہ کی تجوریاں بھر رہی تھی۔ چالیس فیصد سے زیادہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصہ دار بن چکے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو انڈیا، امریکا، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں میں چائے کے کاروبار پر مکمل اجارہ داری حاصل تھی اور کسی دوسری کمپنی کو ایسا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
دوسری طرف کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کے پیچھے بھی چائے کا ہاتھ ہے۔ برطانوی پارلیمان نے ٹی ایکٹ پاس کر کے اس اجارہ داری کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ امریکی پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سخت خلاف تھے اور اس نئے قانون نے اس پر جلتی پر تیل کا کام کیا۔
آخرکار 16 دسمبر 1771 کو کو لوگوں نے اکٹھا ہوکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں پر موجود چائے کے ڈبوں کو بوسٹن بندرگاہ میں پھینک دیا۔ اس ہنگامے نے امریکہ کی آزادی کی بنیاد رکھی اور اگلے دو سال کے اندر امریکہ ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس واقعہ کو تاریخ میں بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی جہاں جہاں جہاں چائے بیچ رہی تھی وہاں دوسری اور بہت ساری لوازمات کی طلب بھی بہت بڑے پیمانے پر پیدا ہو رہی تھی جس میں چینی کا ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ ایسے تمام علاقے جہاں گنا کاشت کیا جا سکتا تھا وہاں پر افریقہ اور انڈیا سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو غلام بنا کر بھیجا جا رہا تھا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ راستے میں ہی مر رہے تھے اور باقی شمالی امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں برطانوی زیر قبضہ جزائر پر گنا کاشت کر رہے تھے۔
تو ایک چائے کی پیالی کے چسکے کے پیچھے انڈیا میں لاکھوں لوگ قحط اور فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔ دوسری طرف چین ایک افیونیوں کی ریاست قرار پائی۔ افریقہ اور انڈیا سے لاکھوں لوگ غلام بنائے گئے جو کبھی اپنے گھر لوٹ کر واپس نہ جا سکے اور اس سب میں دنیا میں ایک نئی طاقت امریکہ کے نام سے ابھر کر سامنے آئی۔
اس سارے فسانے میں برطانیہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست بنی جس کی بنیاد میں لاکھوں لوگوں کا کا قتل عام شامل ہوا۔
شاید ان تمام شاندار وکٹورین دور کی بنی عمارتوں سے آج ابھی افیون کی کی بدبو آ رہی ہے
یہ آرٹیکل لکھنے کے لئے ویکیپیڈیا، ولیم ڈیلرمپل کی کتاب دی اینارکی اور کچھ دوسری کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔