پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج واقع سٹیل ٹاؤن کراچی نمبر49 کےہم پردو احسانات ہیں۔ اسّی کےعشرے کےآخری سالوں میں آٹھویں جماعت میں داخلےکےایک روح فرساانٹری ٹیسٹ میں کچھ دماغی صلاحیت (اپنی) اورکچھ خاندان میں دورپرےکےواقف ایک ریٹائرڈکرنل صاحب کی سفارش کے زور پر کامیاب قرار پاجب ہم اس درسگاہ کے باب العلم سے کِٹ نمبر*** کی شناخت اوڑھ باقاعدہ ایک طالبعلم کی حیثیت سے داخل ہوئے تو یہ ہمارا کسی بھی انگلش میڈیم سکول سےپہلا ٹاکرہ تھا۔
جماعت ہشتم (انگلش میڈیم کی رعایت سے کلاس ایٹتھ کہہ لیجیے) میں داخلے کا انٹری ٹیسٹ پاس کرلینے میں
اوپر بیان کی گئی دونوں وجوھات میں سے ہمارا صدقِ دل سے ماننا ہے کہ اصل وجہ غالباً کیا یقیناً وہ دوسری والی رہی ہوگی (واللہ، والممتحن و والکرنل صاحب اعلم)۔
مرشدی و آقائی یوسفی صاحب نے بھی تو ساتویں کے امتحان میں انگریزی میں سو میں سے اکیانوے اور ریاضی میں پندرہ نمبر آنے پر
اپنےہم جماعت گردھاری لال شرماسےرجوع کیاتھا۔ نمبراس کےبھی اتنےہی آئےتھے، ایضاً، مگرمضامین کی ترتیب الٹ تھی۔
ہمارےکیس میں اول توکالج پراسپیکٹس میں انٹری ٹیسٹ کےنمونے کےسوال تسلی بخش حدتک غلط حل کرلینےکےبعدہم پریہ عقدہ کُھلاکہ متذکرہ بالادونوں مضامین میں ہماری علمی استعداد پندرہ نمبروں سے زیادہ کی نہیں۔ دوئم دور دور تک نظردوڑادینے پر بھی ہمارے اردگرد گردھاری لال شرما کی سہولت میسر نہیں تھی۔ اور اگر کسی سبب سے ہوتی بھی تو شرما جی کے تجویز کردہ ریاضی مار نسخے کے دو کلیدی اجزا اِستری اور اُسترا کہاں سے لاتے۔
برہمچریہ کا سختی سے پالن کرتے ہوئے اس نسخے کے جزوِ اعظم یعنی اِستری سے پرہیز لازمی تھا تاکہ من کی چنچل کامناؤں کو ابھرنے سے پہلے ہی دبا دیا جائے۔ صاحبو اسوقت تک یعنی تادمِ انٹری ٹیسٹ جماعت ہشتم اپنے مرشد یوسفی کے تتبع میں ہمارا واسطہ جس اِستری سے پڑا تھا ’وہ صرف کوئلوں سے گرم ہوتی تھی‘ (اس ترکیب کی دادیا پھرجاری کردہ فتاویٰ یوسفی صاحب کےحصے میں آئیں گےکہ یہ انہی کا فقرہ ہے۔ ہم نے تو مکھی پہ مکھی ماری ہے)۔ رہ گیا من اور اس کی چنچل کامنائیں تو دیدہ ورو اس جیون میں کونسی منوکامنا ابھرے گی جو بزرگوں کی بھرواں سفید داڑھیوں کے سائبان اور لال انگارہ آنکھوں کے چھپرکھٹ تلے بیت گیا ہو
مٹی ترسی بوند نہ برسی
بادل گِھر گِھر آئے بہت
گردھاری لال کے نسخے کا دسرا جزو تھا اُسترا، جسکا مصرف کُل مِلا کر یہ تھا کہ باریک مشین پھرے سر کے بیچوں بیچ عین تالوکےاوپر ایک پان پتہ مُونڈ دیا جائے جس کےاوپر پہلے کچھ دن تو سرولی آم کی گُٹھلی رگڑ، بعد ازاں پان پتے کی اس تیارشدہ پنیری پرگائےکےمکھن کی ٹکیا پگھلا کرپورے چاند اور آدھی رات کے پہر ریاضی کے سوال نکالے جائیں۔ صاحبو اس ساری کھکھیڑ اور اسقدر کشٹ اٹھانے کے مقابلے میں، آپ خود عاقل ہیں، ہمیں تو اللہ بخشے کرنل (ریٹائرڈ) محمد شفیع آرائیں کی سفارش ہی سہل لگی۔
دیکھیے بات چل نکلی تو دور تلک گئی۔ ہم ذکر کیڈٹ کالج کے اپنی ذات و زندگی پر دو احسانات کا کررہےتھے۔ یہ دونوں احسانات ہماری مادرِعلمی کے عالی ظرف اساتذہ سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کچھ نام تو آپ کو اس ٹوئیٹ سے لِف تصویر میں نظر پڑیں گے۔
پہلااحسان تویہ کہ ان اساتذہ نےسندھ ٹیکسٹ بک بورڈکےمتن کےمِن وعن حافظ ایک اردو میڈیم آمدہ رٹوتوتےکوایک نئےماحول کی پیداوار اسکی خودساختہ ہوسٹلٹی کےساتھ نہ صرف یہ کہ کھلےدِل سےقبول کیابلکہ سہج سہج علم کےسمندرکی اورکچھ اس اداسےلہردر لہرلےکر چلےکہ ایک متلاطم دِل کوعلم کی چاشنی کی کبھی نہ بجھنے والی پیاس ودیعت ہوئی۔
بہت سال نہیں گزرےکہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تقریبِ تقسیم اسنادمیں طلبا و طالبات سےگفتگو کرتے ہوئے ایپل کے سٹیو جابز نے ایک جریدے ہول ارتھ کیٹیلاگ کاذکر کیا تھا اورتفصیل بتاتے ہوئےکچھ کچھ پوئیٹِک (شاعرانہ) ہوگئے تھے۔
ساٹھ کےعشرے کےوسط میں کیلیفورنیاکےہی سٹُوارٹ برینڈنےاپنی ٹیم کےساتھ مل کرہول ارتھ کیٹیلاگ (Whole Earth Catalog) نکالنا شروع کیا۔ ڈیجیٹل دورسےپہلے، ایک ٹائپ رائٹر، قینچی، سٹینسل اور پولرائڈکیمرے سےکھنچی تصویروں سے مزین یہ شمارے، سٹیوجابز کے الفاظ میں، گویاگوگل کاکاغذی پیرہن تھے۔
واضح رہے کہ گوگل کے آغاز کو ابھی پینتیس برس پڑے تھے۔ صاحبو ہر خوبصورت چیز اس لیے حسین ہے کہ اسے زوال ہے، سو اس کیٹیلاگ کا بھی جب آخری شمارہ مرتب کرنے کاوقت آیا تو سٹُوارٹ اور اس کی ٹیم نے آخری شمارے کے بیک کوَر پر ایک تصویر چسپاں کی۔
صبح کی روپہلی کرنوں میں دُھل کےبیدارہوتی کنٹری روڈ(مضافاتی سڑک) ایسی کہ آپکا بےاختیارکہیں چل نکلنےپہ دل آجائے۔ تصویر کےاوپرایک لائن میں چارشبد
Stay hungry. Stay foolish.
سٹیوجابزکاکہناتھاکہ ہول ارتھ کیٹیلاگ کی ٹیم کایہ الوداعی پیغام باقی ماندہ زندگی کےلیےانہوں نےپلےباندھ لیاتھا۔
صاحبو معنویت تو وہی ہے بس لفظوں کا ہیر پھیر ہے اگر ہم کہیں کہ پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کا ہم پر پہلا احسان علِم کی نہ ختم ہونے والی بھوک اور اسی گوہرِنایاب کی جستجو میں بےوقوفی کی تمام حدیں بے درنگ پھلانگ جانے کا ظرف تھا۔
رہی بات دوسرے احسان کی تو وہ جماعت نہم کے فزکس کے پروفیسر جاوید صدیقی کے ہاتھوں انجام پایا جن کی بدولت ہمیں مشتاق احمد یوسفی کی کتاب آبِ گُم تحفتاً مِلی۔ اس واقعےکا تفصیلی ذکر تو ہم ایک اور جگہ یوسفی صاحب پر اپنے مضمون میں کرچکے ہیں جسےہمارےپڑھنےوالےاس تھریڈکےآخرمیں پڑھ لیں گے۔
قصہ مختصر یہ کہ اگر ہمیں یوسفی کی چاٹ لگی تو اس کا کارن بھی اپنا یہی پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج تھا۔
یوسفی کی آبِ گُم میں ایک حکیم احسان اللہ تسلیم کا ذکر آیا ہے۔ وہ اپنے ’کان ہی پور‘ کے محلے مُول گنج کی طوائفوں کے کُل وقتی طبیب اور جُزوقتی شاعر تھے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر کبھی کسی ایسی طوائف کو فرمائشی غزل لکھ کر دینی پڑجائے جس کے پاؤں کو اردو محاورہ ہوگیا ہو تو بطورِ خاص چھوٹی بحر میں رواں غزل عنایت کرتے تاکہ ٹھیکا اور ٹھمکا نہ لگانا پڑے۔ دیکھیے تحریر کے چسکے میں ہم غیرضروری تفصیل کے چکر میں پڑے جاتے ہیں، کہناہم یہ چاہتےتھےکہ بقول یوسفی حکیم احسان اللہ تسلیم کی اصل وجہِ شہرت خاندانی بیاض کاوہ مجرب نسخہ تھاجسکاسفوف کوٹھے پر آئےتماشبینوں کو پان میں رکھ کر کھِلادیتےتھے۔ شرطیہ لڑکی ہی پیدا ہوتی تھی۔ اور نقلِ یوسفیؔ، یوسفیؔ باشد، ’کانپور میں کسی کی ذاتی بیوی کے ہاں بھی لڑکی پیدا ہوتی تو وہ میاں کےسرہوجاتی تھی کہ ہو نہ ہو، تم وہیں سےپان کھاکر آئے تھے!‘
آپ بھی کہیں گےکہ کہاں پروفیسرجاوید صدیقی کا ذکرِ خیر ہورہا تھا اور کہاں ہم بیچ بازار میں طوائف، کوٹھا اور اردو محاورے کے مطابق بھاری پیر لے کر کُود پڑے۔ کیا کریں صاحب ایک عمر کی حسرت ، ناآسودگی، ہُڑک اور ہُڑکا (ہم ٹھرک لکھتے لکھتے رہ گئے، وجہ آپ اردو لغت میں دیکھ لیجیے گا) کہاں دم لینے دیتے ہیں۔ تو ہم کہہ رہے تھے کہ جاوید صاحب جماعت نہم کو فزکس پڑھاتے تھےاور اس کمیٹی کے رُکن تھے جس کے ذمے جماعت ہشتم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والےکیڈٹس کے لیے انعامی کتب کی خریداری تھی۔
اب پروفیسر جاوید کو بھی چھوٹی بحر میں رواں غزل کہنے کا تجربہ تھا یا نہیں ہم اس کےبارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے ہاں یہ ضرور ہے کہ حکیم احسان اللہ تسلیم کی طرح انہیں بھی شرطیہ علم تھا کہ ٹاپ ٹین کی قطار میں بیٹھے گرگوں میں سے کن دو کے میٹھے پان میں یوسفیؔ مارکہ سفوف ڈالنا ہے۔
ہمارے حصے میں آبِ گم آئی اور ہمارے ہم جماعت وارث کے ہاتھ زرگزشت سے بارآور ہوئے۔ کیڈٹ کالج کی ایک لگی بندھی نظام الاوقات کی تابع زندگی میں فرصت کے چند پل نکال جب ہم نے پہلے نوماہی وقفے میں آبِ گُم ختم کرلی تو یوسفی کی ایسی چاٹ لگ چُکی تھی کہ اسی شام اپنی کتاب وارث کے حوالے کرکے زرگزشت اُٹھا لائے۔ کانپور کے چوباروں کی طرح جابربن حیان اور طارق بن زیاد ہاؤس کی راہداریوں میں بھی یوسفی کا پان کھائے تماشبینوں کی ڈُھنڈیا مچ گئی تھی۔
اور صاحب کتاب ختم کرنے کے ہمارے نوماہی وقفے پر بھنویں اچکانے یا سکیڑنے کی ضرورت نہیں۔ بہت سال نہیں گزرے کہ لاہور میں نیو کیمپس کی قربت میں نہرپرٹہلتےہم نےشاہد(جی ہاں وہی یو ای ٹی لاہوروالاشاہد) کوفرحت عباس شاہ کی نظم سنائی تھی کہ
نہرکےکنارےپر
تتلیاں اترتی ہیں
آتےجاتےپھولوں کوچھیڑکرگزرتی ہیں
… … …
تو ایک بےاعتنائی کےعالم میں کندھےاچکاتےشاہد نے فرحت عباس شاہ کو شاعر ماننے سے انکار کردیاتھا کہ جس رفتار سے شاعر مذکور کی نئی کتاب مارکیٹ میں آجاتی ہےوہ تو ایک معقول وقفۂ زچگی سے بھی کم ہے۔ شاہد کا کہنا اپنی جگہ بجا مگر صاحبو، اچھے ادب کو پڑھنے، پرکھنے اور برتانے کے بارے میں ہماری بھی ایک رائے ہے، جس سے ہمارے پڑھنے والوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
یادش بخیر لاہور تا بھائی پھیرو (اے۔کے۔اے پھول نگر) براستہ موہلنوال ایک فرنچائز ٹرپ پر ہم نے اپنے انرجیٹک مارکیٹنگ کوآرڈینیٹر خرم سلیم سے برسبیلِ تذکرہ کہا تھا کہ ہم نے اپنی زندگی کا بہترین ادب غسلخانےمیں کموڈ کی سیٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہے۔ ہم آج بھی اس سٹیٹمنٹ کو اون کرتےہیں، ہاں البتہ ساتھ میں ایک اضافہ اور کریں گے کہ ہمارے یہاں اگر کوئی کتاب ورق گردانی کا نوماہی دورانیہ گزار لے تو ہماری لاڈلی لائبریری کا حصہ بن جاتی ہے۔ غالباً اپنے شہرہ آفاق ناول بہاؤ میں تارڑ صاحب نے لکھا ہے کہ عورت کے اندر اگر بیج ٹھہر جائے تو اس کی سگندھ بدل جاتی ہے۔
صاحبو ایسی ہی ایک گربھ وتی کتاب پڑھنے والے کے ہاتھ میں آجائے تو اپنا آپ مہکنے لگتا ہے۔
بات کو اسقدر طُول دینے کی معذرت چاہتے ہیں، اور آپکا قیمتی وقت ضائع کرنے پر بھی۔ قصہ مختصر پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کا ہماری ذات پر دوسرا احسان مشتاق احمد یوسفیؔ کی چاہ اور انکی تحریر کی چاٹ ہے۔
آج ہمارے محبوب مصنف کی برسی ہے۔ گذشتہ برس ہم نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کچھ شبد لکھے تھے۔ ہمارےپڑھنےوالے وہ کتھا مانی جنکشن کے صفحوں پر درجِ ذیل لنک کو کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ آپکا بہت شکریہ
https://t.co/ei9OHDHxXn