چچا غالب سے ۔۔۔ایک ملاقات
ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
ملاقاتی ۔ ۔۔۔۔ایک ترقی پسند شاعر
شاعر ۔ چچا غالب !آپ کہتے ہیں ،
ہیں اور بھی دنیا میں سخن وربہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور
آپ کے انداز بیاں ،،اور ،، سے کیا مراد ہے ؟
غالب ۔انداز بیاں اور سے مراد ہے کہ نہ میں نے میر کی طرح ٹسوے بہائے ،نہ ہی سودا کی طرح بعید ازفہم قافیوں کا استعمال کیا ،نہ ہی یہ کہا ،،میرا قلم لانا ،ابھی ہجو لکھتا ہوں ،،۔۔ نہ ہی مومن کی مضطربانہ شان نہ ہی نعرہ بلند کیا کہ ،
کون جائے ذوق دلی کی گلیاں چھوڑ کر
بس ۔۔۔کھانے کو کچھ نہیں رہا تو روزہ کھاتے رہے ۔۔۔اور ۔۔قرض کی مئے پیتے رہے ۔۔اور ،
لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
شاعر ۔مگر آپ کے ہاتھ قلم تو نہیں ہوئے ؟بلکہ غدر کے الزام میں دھر لیے گئے تو ،،آدھا مسلمان ،،کہہ کر صاف چھوٹ گئے !!
غالب ۔(جزبز ہوکر )نہیں تو کیا میں اس بڑھاپے میں قید کی صعوبتیں جھیلتا ؟؟میاں ! یہ انگریز بھی نرے بیوقوف تھے ،حالانکہ میں نے صاف کہا تھا ،
بنے ہے شہ کا مصائب پھرے ہے اترتا ۔۔۔شاید انھیں اتنی گاڑھی اردو نہیں آتی ہوگی یا اس اس نفسی نفسی میں کسی نے توجہ مبذول نہیں کرائی ہوگی ۔۔ بیچارے شاہ تو رنگون پہنچ گئے اور مجھے ان سوروں نے سور نہ کھانے پر چھوڑ دیا !!۔۔ ہا ہا ہا۔۔
شاعر ۔ ہاں چچا ۔۔میں ہمیشہ سے آپ کی حاضر جوابی کا قائل رہا ہوں ۔۔۔حتٰی کہ شیطان کو اپنے گھر میں قید کرکے بھی آپ بچ گئے ۔۔۔اور مخاطب کے دانت کھٹے کردیے !! واہ واہ۔۔اب اگلا سوال یہ ہے کہ ، آپ کو شراب نے نکما کردیا یا عشق نے ؟
غالب ۔۔میں نے تو برملا کہا ہے ،
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام تھے
بتاؤ! ہے کسی میں ہمت ؟ کسی میں جرآت اس صاف گوئی کی !!
پھر بھی یار لوگ کہتے ہیں ،
تم ہی کہو،کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
رہی بات شراب سے عشق کی تو یہ کافر ہمیشہ سے منہ سے لگی رہی ۔۔۔اور شاید ،
ممکن ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں ،منہ سے اگر بادہ دوشینہ کی بو آئے
شراب سے عشق کی انتہا یہ کہ ۔۔۔قلاش ہونے کے باوجود ۔قرض کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود ،قرض خواہوں کے ڈر سے گھر میں دبکے رہنے کے باوجود ۔۔۔انگور کی بیٹی کے عشق میں گرفتار ۔۔۔سرور و ترنگ میں کہہ اٹھتا ،
قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
شاعر ۔۔کیا آپ کو کبھی کسی سے عشق ہوا ہے ؟
غالب ۔۔لو کرلو بات ۔۔ابھی تو کہا کہ ۔۔عشق نے نکما کردیا ، پھر بھی پوچھے جارہے ہیں کہ عشق ہوا ہے ؟۔۔ارے میاں ! عشق تو وہ آگ ہے کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔۔ہم نے نقش قدم میں ارم دیکھا ہے ۔۔ہم نے فتنہ پروروں کو قیامت کے فتنے سے کم دیکھا ہے ۔۔دل ناداں سے بھی شکایت کی کہ تجھے کیا ہوا ہے ؟۔۔ہماری شامت آئی تو ہم نے قدم پاسباں کے لیے ۔ ۔۔بلکہ پیش دستی کرنے کی وجہ سے ۔ ۔دھول دھپے کی بھی نوبت آچکی ۔۔۔اب زیادہ ہمارا منہ مت کھلائیے ۔۔کہے دیتے ہیں ہاں ۔۔۔ہمارے گھر سے تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط برآمد ہوچکے ہیں جو سند ہے عشق کی !! اور کیا ثبوت چاہیے ؟؟
شاعر ۔۔۔چچا ناراض نہ ہوں ۔۔مان گیا ۔۔آپ نہ صرف عاشق مزاج تھے بلکہ عشق کی پاداش میں بہت سے صدمے ، بہت سی صعوبتیں جھیلیں ۔۔یہ آپ ہی کا دل گردہ تھا ۔۔۔آج آپ جیسے سچے عاشق کہاں ۔۔۔آج تو یہ عالم ہے کہ ،
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
غالب ۔۔( خوش ہو کر ) ۔۔میاں تم نے غالب کو سمجھا ہے ۔۔۔ویسے بہت سے غالیبیات ہوئے ہیں ۔۔۔خیر آگے بڑھو۔
شاعر ۔۔بارے کچھ شراب کا ذکر ہوجائے !
غالب ۔۔اس نے تو دم واپسیں تک پیچھا نہ چھوڑا ۔۔۔۔۔اخیر عمر میں یہ عالم ہوگیا ،
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی بادہ ومینا میرے آگے
اگر کبھی چھٹی تو کمبخت شب ماہتاب آگئی ۔۔ پینی ہی پڑی ۔۔۔اب ہم میر تو نہیں تھے کہ نیم باز آنکھوں سے شراب کشید کرتے !! بعد میں معلوم ہوا کہ کوئی جگر صاحب تھے جنہیں شراب نے مارا ۔۔۔مگر صاحب ہم تو شراب کو زیر زمین بھی لے کر چلدیے ۔۔
قسط آخر
وہ جو کہا نا ،
ممکن ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیریں
ہاں منہ سے اگر بادہ دوشینہ کی بو آئے
اور عشق ۔۔۔ان مہ رخوں سے ۔۔قتالئہ عالم سے ، مہ جبینوں سے ،گل رخوں سے کہ ، ان کے لیے کہنا پڑتا ،
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
صاحب ۔۔۔گالیوں تک تو ٹھیک تھا مگر اس عشق کے ہاتھوں اتنے رسوا ہوئے کہ ۔۔دھول دھپا تک نوبت آگئی ،
دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
اور اسی کمبخت عشق کے کارن ہم کہیں کے نہ رہے ۔۔۔ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ۔۔
شاعر ۔۔ واہ۔۔وااہ ۔۔۔اور غالبؔ صاحب وہ آموں سے عشق ؟
غالبؔ ۔۔ہاں ۔۔ہاں ۔۔کیا یاد دلادی ۔۔آموں کے باغ میں ہم ۔۔۔آموں پر اپنے آباء کے نام تلاشتے ۔۔حالانکہ سو پشت سے آباء کا پیشہ سپہ گری رہا ۔۔مگر ہم نے تلواروں کو میانوں میں ڈال ہاتھ میں قلم پکڑ لیا اور بڑے فخر سے کہا ،
کچھ شاعری ہی ذریعۂ عزت نہیں مجھے
شاعر ۔۔( ٹوکتے ہوئے ) چچا بات آموں کی چل رہی تھی ۔۔آپ نے آباء پر جست لگائی ؟
غالبؔ ۔۔جزبز ہوتے ہوئے ۔۔یہی تو ہے محشرِ خیال ۔۔۔میاں ۔۔۔اسی طرح ہمیں غیب سے مضامین آتے تھے ۔۔خیر ان آموں سے عشق تھا جو گدھے نہیں کھاتے تھے ۔۔۔مگر ہم شوق سے کھاتے تھے ۔۔۔فرماشیں کر کر کے کھاتے تھے ۔۔۔سنا ہے بعد میں کوئی اکبرؔ صاحب بھی آموں کے دلدادہ ہوئے ۔۔۔جو خط میں بس ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ،
نامہ نہ کوئی یافتہ کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
اور۔۔ہاں ۔۔ان سب سے بڑھ کر خدا سے عشق کہ ،
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئيں اجزائے ایماں ہوگئیں
ہم نے ہر وہ فعل ۔۔جس سے خدا نے روکا ہم نے کیا ۔۔شراب پی۔۔بلکہ قرض لے لے کر پی۔۔قمار بازی کی ۔۔حتی کہ قمار خانہ بھی کھولا ۔۔اور بڑے فخر سے کہا کہ شیطان یہیں قید رہتا ہے ۔۔حالی کی اجرت بھی دابی۔۔مگر صاحب ہم نے میر کی طرح یہ نہیں کہا ،
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
حالانکہ کفر نے ہمیں بہت کھینچنے کی کوشش کی ۔۔کعبہ پیچھے تو کلیسا آگے آگے ۔۔مگر ہم نے یہی کہا ،
کچھ نہ تھا تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
مگر ہم کو ہمارے ہونے نے ڈبودیا صاحب ۔۔۔
احباب کوشش تھی کہ دو قسطوں میں مضمون سمیٹ دوں مگر ممکن نہ ہوسکا۔
بقیہ آئندہ ۔۔
اہلِ بینش کو سقم نظر آئے تو براہ کرم نشاندہی کریں ۔