چچا غالب کے نام دوسرا خط
چچا مرزا! پچھلے مکتوب میں بندش بجلی کے سبب کچھ تفصیلات تشنہُ تحریر رہ گئی تھیں۔اب بجلی کے شیڈول میں بیٹھ کر لکھتا ھوں کہ بات پوری ھوجاوے۔
چچا جانی! آپ نے لکھ تھا کہ سیاست و حکومت کی کیا احوال ھیں تاکیداّ مطلع کرو۔تو اس سلسلے میں عرض ھے کہ بادشاھت کا نظام جو اپ کا پسندیدہ خاطر تھا، اپ کے ھوتے ھی، انگریز بھادر نے لپیٹ دیا تھا۔اس کےبعد ھندوستان کا دو حصوں میں بٹوارہ ھوا بنیاد اس کی مذھبی تفریق قرار پائی۔آپ کے دنیا سے رحلت فرماتے ھی اپ کا ممدوح فلسفہ وحدت الوجود مرحوم ھوگیا۔کیوں کہ ھنود محکوم تھےاور مسلمان حاکموں نے اسے رحمدلی اورترس خواھی کے تحت روا رکھا تھا اور محکوموں نے غنیمت جان کر اسے قبولِ خاطر کیا تھا مگر بعد کو کہ جب جمھوریت( عوام کالانعام کی رائے سے حکمران چننے کا طریقہ) رائج ھوا تو مسلمانوں کو قلت تعداد کی بنا پر محکوم ھونے کا خدشہ لاحق ھوا تو انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام خطرے میں ھے لھذا ایک الگ مملکتِ خداداد خاص مسلمانوں کےلیے تاجِ برطانیہ کے زیر سایہ مسلم اکثریتی علاقوں پر بنانے کا نقشہ آپ کے ھی ایک مداح شاعر علامہ اقبال نے پیش کیا(یادرھےعلامہ صاحب اردو فارسی شعری مقدار میں آپ سے بھی زیادہ اشعار کے خالق ھیں) ۔یہ بزرگان اسلام کے لیے ایک تجربہ گاہ بنانا چاھتے تھے اور چچا جان واقعتا اس مملکت میں اسلام کے اتنے متنوع تجربات ھورھے کہ اپ ھوتے تو ناطقہ سربگریباں کرکے انگشت بدنداں ھو جاتے۔
چچا مرزا حاکموں کی تبدیلی کا بھی عجب دستور ھے کہ پانج سال بعد سیاسی احزاب جنھیں پارٹیاں کہا جاوے ھے اپنے اپنے نشانات جو بالعموم درندوں یا شکارہی آلات پر مشتمل ھوتے ھیں ،کے تحت عوام سے ووٹ یعنی رائے مانگتی ھیں ویسے ایسا موقع پہلی بار چار سال پہلے آیا ورنہ عوام کے چنے حاکموں کو کہ جو ملکی خزانہ لوٹنے میں بھی دستگاہِ کامل رکھتے ھیں لشکری اٹھا کر پھینک دیتے ھیں اور دستورِ ملکی کو معطل کرکے قانونِ لشکری نافذ کر خود حاکم بن بیٹھتے ھیں اور پھر کرسی سے اترنے کا نام نھیں لیتے۔ وھی کام ذرا منظم طریقے سے کرتے ھیں۔
لیجیے بجلی اپنے شیڈول کے مطابق غائب اور میں شرابور ھوا لکھنا یہیں موقوف مگر اگلے مکتوب کے وعدہُ فردا کے ساتھ اجازت طلب ھوتا ھوں۔
فقط اپ کا بھتیجا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“