میرزا اسد اللہ خاں غالب، عرف چچا غالب مغل دلی دربار کے نمایاں شاعروں میں سے ایک تھے۔ اس وقت کے جمہوری حکم ران آں جناب بہادر شاہ ظفر کو قد آور لوگ پسند تھے، جب کہ چچا غالب کا قد، ابراہیم ذوق کے مقابلے میں لگ بھگ ڈیڑھ انچ کم تھا؛ یہی وجہ تھی، کہ چچا غالب کو ذوق کے ہوتے وہ مقام نہ ملا، جو موجودہ کرکٹ ٹیم کے سربراہ کو حاصل ہے، یا پنجاب حکومت میں رانا ثنا اللہ کی قسمت ہے۔ گو کہ رانا صاحب قد کاٹھ میں غالب کا مقابلہ نہیں کرتے، لیکن شعر گوئی میں کوئی ان سا کہاں۔
غالب جگت چچا کہلاتے ہیں۔ جگت کو جگا سے کوئی نسبت نہیں، لیکن ایسا ہے، کہ چچا نے کسی جگے کی طرح شاعری میں اپنا نام کمایا۔ گر چہ اساتذہ فن اُن کے کلام میں کئی غلطیوں کی نشان دہی کر چکے، لیکن کوئی ایسا کہاں، کہ مجھ سا کہیں جسے۔۔۔ یقین کیجیے، کہ مجھ جیسے جن سے شاعری کی عین ٹھیک طرح سے ادا نہیں ہوتی، وہ بھی سمجھ سکتے ہیں، ان خامیوں کو۔۔ غالب کی خامیاں ڈھونڈنے کے لیے یگانہ ہونے کی ضرورت نہیں۔۔ بالکل نہیں۔۔ نا چیز، یہ ہیچ مداں بھی اُن کے کلام میں بہت آسانی سے ان اغلاط کی کما حقہ نشان دہی کر سکتا ہے۔
پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ غالب اہل زبان نہیں تھے، ان کے اجداد فرغانہ کی باقیات میں سے ایک تھے۔ اگر آپ تواریخ کی مستند کُتب دیکھیں، جیسا کہ ’معاشرتی علوم’ مطبوعہ پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ صفحہ سترہ، سطر پچیس، تو معلوم ہوتا ہے، کہ میرزا قبیلے کے افراد فرغانہ سے آے تھے؛ اُن کی زبان اردو نہیں تھی، چوں کہ میرزا ہندُستان کے حکم ران ہوے، تو یہاں کی زبان پہ ترکی زبان کے نام کا لیبل چسپاں کر دیا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں، کہ کیسے ایک منصوبے کے تحت ہندی زبان کو ’اردو’ کا نام دے دیا گیا۔ یہ تواریخ کو مسخ کرنے والی بات ہے؛ افسوس تواریخ کو بار بار مسخ کیا گیا۔
چُوں کہ ہمارے اس تحقیقی مقالے کا موضوع تواریخ نہیں، چچا غالب اور اردو شاعری ہے، تو ہم اسی موضوع پہ رہتے ہیں۔ اوپر بیان کیا گیا، کہ چچا غالب زبان کے حوالے سے کم زور شاعر تھے، جا بہ جا غطیاں کر جاتے؛ ایک مثال تو یہ شعر ہے۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا
یہاں ’راہ گزر’ کو مذکر باندھ دیا۔ عموما اردو زبان میں ایسی غلطیاں خیبر کے راستے آنے والے، یا خیبر کے اطراف میں رہنے والے کرتے ہیں۔ مذکر کو مونث، مونث کو مذکر کرتے چُوک جاتے ہیں۔ عمران خان کی زبان میں یہ خامی نہیں، لیکن اُن کی دیگر خامیاں اس خامی پہ بھاری ہیں۔ اُن کے حامی اُن کی جائز ناجائز کو خُوبی گردانتے ہیں، لیکن ہم اسے ضد ہی کہیں گے۔ ایسے ہی چچا غالب کے ضدی مریدوں کا کہنا ہے، کہ اسے شاعرانہ تصرف کہتے ہیں۔ ہم نہ عمران خان کے اندھے پیروکار ہیں، نہ غالب کے طرف دار؛ ہم اُن مریدوں میں سے نہیں جو اُن کی ٹیڑھی پرواز کو بھی کرامات سے تعبیر کرتے ہیں۔ جہاں تک تصرف کی بات ہے، تو تصرف ہمیشہ سے حُکم ران طبقے کا وتیرہ رہا ہے؛ پس ثابت ہوا، غالب حُکم ران طبقے سے تو تھے، شاعر طبقے سے تھے، یہ ثابت ہونا باقی ہے۔
غالب کے یہاں طول و عروض کے بھی بہت سے مسائل ہیں؛ جو لوگ شاعری کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں، کہ عروض شاعری کو ماپنے کا گز ہے۔ جیسے کپڑا بیچنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ زرا یہ شعر ماپیے۔
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اب دیکھیے پہلے مصرع میں آٹھ الفاظ ہیں، جب کہ دوسرے مصرع کے الفاظ گنیں تو نو نکلتے ہیں۔ غالب کا حساب بھی کم زور تھا۔ یہ عروضی مسائل کہلاتے ہیں۔ اگر ملک میں 58 ٹو بی نافذ ہوتی تو ہم اس شعر کو صدرِ مملکت کے ذہن نا رسا سے سمجھ سکتے تھے۔۔۔ اس کے علاوہ اس شعر میں کوئی خاص بات نہیں۔۔ گویا تمنا کسی دیو کا نام ہے، کہ اس کا دوسرا قدم نگہ سے اوجھل ہے!۔۔ پھر یہ دشتِ امکاں کیا ہوتا ہے؟۔۔ عجیب بے ہنگم شعر ہے۔ اسی طرح مبہم یاوہ گوئی کرنا جسے شعر گوئی کا نام دے دیا گیا ہے؛ اس سے اچھے تو ہمارے ٹیلے ویژن کے ٹاک شو ہوتے ہیں، جتنے بھی بے ہنگم ہوں، اُن کا مدعا سمجھ میں آتا ہے، کہ وہاں کس کے اشارے پہ پاجامے کھینچے جا رہے ہیں، اور کس کو گرانے پہ لگے ہیں۔
غالبؔ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل
آپ کو اپنے بیوی بچوں کی قسم ہے، کہیے؛ کتنے ہیں جنھیں یہ شعر سمجھ آیا؟۔۔ ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی۔۔۔ بھئی جو بات عام فہم لفظوں میں کہی جا سکتی ہے، اُسے خفیہ اداروں کی زبان میں کہنے کا مقصد؟۔۔ آپ اپنے ملک کوئی خفیہ پیغام نہیں پہنچا رہے جسے ڈی کوڈ کر کے پڑھا جانا ہو۔ اگر آج غالب زندہ ہوتے، اور سرحد کے اِس طرف ہوتے، تو اُنھیں را کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے ایسے دو تین اشعار ہی کافی تھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے۔
محرم نہیں ہے تُو ہی نوا ہاے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
یہی نہیں اس شعر میں حجاب اور پردے کا جس طور ٹھٹھا اُڑایا گیا ہے، افسوس ہوتا ہے، اُس وقت کے علماے کرام پہ، کہ بھنگ پی کر سوے ہوے تھے۔ کاش وہ علماے سُو آج کے علماے حق سے کچھ سبق لیتے، کہ جب پنجاب اسمبلی تحفظ حقوق نسواں بل پاس کرنے لگے، تو انھوں نے آگے بڑھ کر اسلام کو خطرے سے نکالا۔۔ کبھی میں سوچتا ہوں، اُس زمانے میں غالب بادہ خوار کی گردن کیوں نہ مار دی گئی؟۔۔۔ شاید اس کی وجہ وہ خوف ہو، جو چچا نے بے پر کی اُڑائی تھی، کہ ان کے اسلاف کا پیشہ سپہ گری ہے۔ یعنی وہ اپنا ناتا اسٹیبلشمنٹ سے جوڑتے تھے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت تھی، تو محترم علماے حق راہ راست پہ تھے۔ وہ جمہوری رہ نما بہادر شاہ ظفر سے تو ٹکر لے سکتے تھے، لیکن اُن سپہ گروں سے متھا لینا، سر پھڑوانے والی بات تھی۔