چچا بول بچن گھر میں رہتے ، تو بھی نچلے نہیں بیٹھتے ۔کچھ نہ کچھ ایسی حرکتیں کرتے کے گھرکے تمام افراد پریشان ہو جاتے ۔ کبھی کسی چیز کی تلاش میں سب کو تنگ کرتے ، تو کبھی پان کی گلوریوں پر ہنگامہ ہوتا ۔ ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اگر گلی کوچے سے کسی پھیری والے کی آواز چچا کو سنائی دیتی ، تو ان کے پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ، یعنی اس قدر بے چین ہو جاتے کہ پھیری والے کو گھر پر بلا ہی لیتے اور پھر شروع ہو جاتا ان کا اپنا مول بھاؤ کا انداز ۔
صبح ہی سے چچا کا موڈ خراب تھا کیونکہ جس ڈبیہ میں ان کی پان کی گلوریاں رکھی تھیں وہ غائب تھی ، کافی تلاش کے باوجود نہیں مل سکی ۔ ابھی ان کی تلاش جاری تھی کہ گلی سے آواز آئی ’’ دیسی گھی لے لو ، دیسی گھی ‘‘ ۔آواز سنتے ہی چچا بے چین ہو گئے ، فوراً گھی والے کو بلوانے کے لیے کہا ۔ چچی نے لاکھ سمجھایا ’’ ابھی گھر میں گھی کی ضرورت نہیں ہے اور پھیری والے دیسی گھی لاتے ہیں وہ نقلی ہوتا ہے ۔‘‘ مگر چچا ایک نہ مانے اور گھی والے کو بلوا لیا ۔
جیسے ہی گھی والا ان کے دروازے پر آیا ، چچا نے از راہِ ہمدردی کہا ’’ اتنی تیز دھوپ میں سر پر بوجھ اٹھائے در در آواز لگائے پھرتے ہو ، ضرور تھک گئے ہوگے ، پیاس لگی ہوگی ، ذرا دم درست کر کے پانی پی لو ۔ ‘‘ چچا نے چچی کی جانب دیکھ کر صدالگائی’’ ذرا گھی والے کو ٹھنڈا پانی پلا دیں ۔ ‘‘ گھر کا ایک بچہ پانی کا گلاس لے آیا اور گھی والے کو دے دیا ۔ چچانے چچی سے قریب ہوتے ہوئے سرگوشی کی۔جب بھی کوئی پھیری والا آئے ، تو اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہیے اسے پانی پلانا چاہیے ، تاکہ وہ آسودہ ہو کر ہمارے بارے میں بھی کچھ اچھا سوچے ، اس طرح مول بھاؤ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے ، سمجھیں ، سودا خریدنے کے اصول سیکھو ، تو فائدے میں رہوگی ۔ ‘‘ پھر چچا نے پھیر ی والے سے پوچھا ’’ صرف گھی بیچتے ہو یا اور بھی کچھ ؟ ‘‘ پھیری والے نے جواب دیا ، جناب آپ کی دعا سے گھی اتنا بک جاتا ہے کہ کچھ اور بیچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ آپ ایک بار ہمارا گھی خرید لیں زندگی بھر یاد رکھیں گے کہ ایسا شاندار گھی خریدا تھا ، بالکل دیسی گائے کے دودھ کےمکھن سے بنا ہے ۔ ‘‘ چچی نے ٹوکا ’’ اے رہنے دو بہت دیکھے تمہارے جیسے دیسی گھی والے ، آج کل تو اوپر دیسی گھی رکھتے ہیں اور نیچے وناسپتی میں دیسی گھی کی خوشبو ملا کر بھر دیتے ہیں ، لو ہو گیا دیسی گھی ۔ ‘ ‘ گھی والے اپنے گھی کے خالص اور دیسی ہونے کی خوب قسمیں کھارہا تھا اور یقین دلارہا تھا کہ اس کا گھی پوری طرح دیسی اور خالص ہے کوئی ملاوٹ نہیں ہے ۔ چچا نے ذرا سا گھی اپنی ہتھیلی کی پشت پر رکھوایا اور اسے رگڑ کر سونگھنے لگے ، پھر چچی نے بھی ایسا ہی کیا ، چچا اور چچی نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا ، پھر چچا نے تبصرہ کیا ’’ یہ گھی بہت اچھا ، تو نہیں ہے ، البتہ خوشبو ٹھیک ہی ہے۔یہ کہہ کر چچا نے چچی کا ہاتھ دبا کر دھیرے سے ان کے کان میں کہا ۔’’ سودا گر کے سامنے اس کے مال کی کبھی تعریف نہیں کرنا چاہیے ، خواہ مال کتنا ہی اچھا ہو ناپسندیدگی کا اظہار کرنا چاہیے اور بار بار یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کچھ اور نہیں بیچتے ؟ تاکہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے اور اس کا ذہن بھی منتشر رہے کہ وہ کسی اور چیز کے بیچنے کے بارے میں سوچتا رہے ، ایسے میں ہم جو مول بھاؤ کریں گے وہ اس پر آمادہ ہو جائے گا۔ ‘‘
گھی والا دیسی گھی چارسو روپے کلو کے حساب سے بیچنا چاہتا تھا اور چچا تھے کے دوسو روپے کلو کی رٹ لگائے ہوئے تھے ۔ چچی بیزار ہو رہی تھیں ،’’ ارے چھوڑو ہمیں نہیں خریدنا دیسی گھی ۔ ‘‘ چچی کے بار بار انکار سے چچاکو بھی تاؤ آ رہا تھا ۔ چچی بار بار کہہ رہی تھیں کہ اکثر ڈبے میں اوپر اوپر گھی کی مہک ہوتی ہے اور نیچے وناسپتی بھرا ہوتا ہے ۔ چچا نہیں مانے ۔
بہر حال مول بھاؤ کے بعد ڈھائی سو روپے کلو پر معاملہ طے ہوگیا اور چچا نے چار ڈبے یہ کہہ کر خریدے کے دو ڈبے گھر کے لیے اور دو اپنے بھانجے کے لیے خرید رہے ہیں ، جو پولیس کمشنر ہے۔ گھی والے سے یہ بھی کہا ’’اسی طرح مہینے دو مہینے میں پھیری لگایا کرو ،ہم اب تمہارے مستقل خریدار ہیں ۔‘‘ چچی ناک بھؤں چڑھا رہی تھیں ۔ چچانے ایک ہزار روپے دیے اور گھی کے ڈبے باورچی خانے میں رکھوا دیے ۔ گھی والا چاروں ڈبے بیچ کر ہزار روپے جیب میں رکھ کر چل دیا ۔
اگلے روز صبح ہوتے ہی چچا نے صدا بلند کی ’’ منے کی اماں ، ارےاو منے کی اماں ، کل جو دیسی گھی خریدا ہے ، اسی میں ذرا دو انڈے نیم برشت کر کے دے دیجیو۔ ‘‘ چچی نے ہنکار بھر کے چچا کو احساس دلا دیا کہ وہ بہت جلد انہیں ناشتے میں نیم برشت انڈے پیش کرنے والی ہیں ۔
اچانک ہی باورچی خانے سے چچی کے چلانے کی آوازیں آنے لگیں ۔’’ منے کے ابا ، او منے کے ابا دیکھیے گھی کے ڈبے میں کیا ہے ؟ بڑے آئے تھے سودا خریدنے کے اصول سیکھانے والے ، ایک پھیری والا آپ کو لوٹ کر چلا گیا ، چونا لگا دیا ۔ ‘‘ چچا گرجے ’’ کیا بکواس کر رہی ہو؟ کسی کی مجال ہے ، جو ہمیں چونا لگائے یا لوٹ لے ، ہم نے اچھے اچھوں سے سودا کیا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق کیا ہے ۔ ‘‘
چچی چلاتے ہوئے گھی کا ڈبہ چچا کے پاس لے آئیں ، ڈبے سے تھوڑا سا گھی نکالا گیا تھا اور گھی کی تہہ کے نیچے کچھ کالا کالا نظر آ رہا تھا ، جب گھی نکال کر اسے جانچا گیا ، تو پتہ چلا ، وہ گوبر تھا ۔ چچا نے غصے سے گھی کا ڈبہ پلٹ دیا ، تو دیکھا ڈبے کے پیندے پر لکھا تھا ۔ اصلی گھی کے دام میں گوبر خریدنے والا شخص ہم نے پہلی بار دیکھا ہے ، بہر حال یہ گوبر بھی گائے ہی کا ہے ۔ ‘‘ یہ پڑھتے ہی چچا کے بدن میں آ گ لگ گئی اور وہ کھسیانے ہو گئے ، چچی کا بول بچن الگ ہارڈ ہوتا جا رہا تھا ۔چچی کا آخری جملہ چچا کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر گیا ’’ سوداگر کے ذریعےٹھگنے سے بچنے کا بھی کوئی گُر ہے آپ کے پاس یا مجھ سے سیکھیں گے ؟ ‘‘انڈوں کے بجائے چچا کا دماغ نیم برشت ہو رہا تھا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...