چچا بول بچن روزانہ پابندی سے اخبار کا مطالعہ کیا کرتے تھے ، مگر ان دنوں وہ اخبارات سے بہت ناراض تھے ۔ انہیں بڑی شکایتیں تھیں ۔ آج بھی چچا کھاٹ پر اخبار پھیلائے مطالعہ میں غرق تھے کہ پڑوسی چچا جمن بھی آ گئے اور انہوں نے چچا سے دریافت کیا ۔ ’’ اماں ، یار کیا دیکھ رہے ہیں ، اخبار میں ؟ کوئی خاص خبر تو ہوتی نہیں ہے آج کل ، سب کچھ پہلے ٹی وی پر دکھا دیا جاتا ہے ، پھر اخبار دیکھنے کا کیا فائدہ ؟‘‘ جمن چچا کا سوال سن کر چچا پھنکارے ۔’’ اماں ، عجیب آدمی ہیں آپ بھی ، اخبار پڑھنے کا اپنا الگ ہی لطف ہوتا ہے ۔ اخبار میں صرف خبریں نہیں ہوتی ہیں ۔ اچھے معلوماتی مضامین اور سیاسی حالات پر تجزیے و تبصرے بھی ہوتے ہیں ۔ ‘‘ جمن میاں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ ’’ ساتھ ہی ڈھیر ساری حسیناؤں کی ادھ ننگی تصاویر اور جادو ٹونا سفلی علم والے باباؤں کے اشتہارات بھی ۔ ‘‘ یہ سن کر چچا نے ایک ہنکار بھری ۔ اس دوران چچا کی پبلک بھی کھاٹ کے اطراف جمع ہو گئی تھی ، پبلک کو دیکھ کر چچا کو بھی جوش آ گیا اور انہوںنے اخبار کے حالات پر ایک پر جوش تقریر کر ڈالی ۔ ملاحظہ فرمائیں چچا کیا کہتے ہیں :
’’ صحافت کو کسی زمانے میں شریفانہ اور با وقار پیشہ سمجھا جاتا تھا ، مگراب صورتِ حال یہ ہے ک جو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں ، انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اس سے وابستہ تمام افراد عوام کو گمراہ کرتے ہوں یا بد عنوانی کے مرتکب ہوں ، بہت ہی اچھے اور ایماندار صحافی بھی موجود ہیں ، مگر کیا کیا جائے ،کہتے ہیں نا ’’ بد سے بدنام برا ‘‘ بس ایسے ہی یہ مقدس پیشہ بھی چند افراد کی وجہ سے بدنام ہو گیا ہے ۔
دراصل حالات ہی ایسے ہو گئے ہیں ۔ ایک وقت تھا اخبار کے ذریعے لوگ اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے ، اپنی سطریں درست کیا کرتے تھے ۔ املااور زبان کی غلطیاں سدھارنے کا موقع ملتا تھا ۔ قاری میں سیاسی ، سماجی اور تہذیبی شعور پیدا ہوتا تھا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اخبار میں آپ کو ڈھیر ساری حسیناؤں کی تصویریں بے شمار املا کی غلطیاں اور ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں گی … جس کا پس منظر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔یہ کلیہ نہیں ہو سکتا ، مگر ایسا بھی ہے ۔ ‘‘ چچا نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا اور خاموش ہو گئے ، پھر وہ داد طلب نگاہوں سے سب کی جانب دیکھ رہے تھے ۔ پبلک بھی خاموش تھی ۔ چچا جمن نے سلسلہ کلام آگے بڑھایا :
’’صورت حال یہ ہے کہ سرکاری اشتہارات کے تعاون سے اخبار جاری رکھنا دوبھر ہو گیا ہے ،سیاسی لیڈروں کی جانب سے ملنے والے اشتہارات بھی وقتی ہوتے ہیں ، ان حالات میں اخبار کی پالیسی کا کیا کہنا … جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ اخبار کی حالت اکثر ایسی ہوتی ہے کہ اب دم ٹوٹا ، تب دم ٹوٹا ۔ ایسے مشکل حالات میں ، جو اخبارسنجیدگی سے جاری ہیں ان کے مالکان کے حوصلے کی داد دینا چاہیے ۔اس وقت اخبارا کے مالکان و صحافیوں کو جو حالات درپیش ہیں ، ایسے میں ایماندار صحافی اور ناشر بھی شک کے دائرے میں آ جاتا ہے ۔‘‘
اس گفتگو کے بعد چچا کی پبلک نے بھی دلچسپی لی اور کھاٹ کے اطراف بیٹھ کر ہونے والی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ چچا بول بچن اپنی پبلک کے تعاون سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کریں گے ، بس پھر کیا تھا ، جلد ہی تمام کارروائی مکمل کی گئی ، تین ماہ کی محنت و مشقت کے بعد چچا بول بچن کا ’’ ہفت روزہ بول بچن ‘‘ منظر عام پر آ گیا ۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ چچا ایک بار طے کر لیں ، تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا اور وہ جب کسی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں ، تو بیڑہ غرق ہی سمجھیے ۔
’’ ہفت روزہ بول بچن ‘‘ پر جب ہماری نظر پڑی ، تو حیرت کی انتہا نہ رہی ۔
چچا ، جو ہمیشہ شراب ، گٹکا ، پان مسالہ اور تمباکو کے خلاف لیکچر دیا کرتے تھے ، ان کے اخبار میں فرنٹ پیج پر انہی اشیا کے بڑے بڑے اشتہارات چمک رہے تھے ۔
اشتہار بھی کچھ اس طرح تھے … فرنٹ پیج رائٹ کارنر پر ایک لڑکی جینس او ر ٹی شرٹ پہنے ایک ہاتھ سے بیڑی لہرا رہی ہے … اس کے نیچے لکھا تھا۔ ’’ چندن بیڑی ‘‘ ’’ کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے ۔ ‘‘
دوسری جانب ایک اشتہار تھا گٹکا کا …اس طرح کہ ایک شخص کسی عمارت کے زینے اترتے ہوئے منہ میں پڑیا رکھ رہا ہے …
نیچے درج ہے …
ہمارا پان مسالہ ’’ اونچائی تک لے جائے ، اونچی پسند ‘‘ ۔
اخبار کی پیشانی پر دونوں جانب اشتہار کے پینل تھے۔وہ اشتہارات بھی کچھ ایسے ہی تھے ’’ رنگیلی سپاری…چلبلی ٹھنڈک ‘‘۔
یہی نہیں چچا کے ’’ ہفت روزہ بول بچن ‘‘ کے دو صفحات تو عطائی حکیموں اور دوا فروشوں کے ساتھ ساتھ پیر ، بابا، ماہرِ عملیات ، سفلی علم ، جادو ٹونا ، کالا علم اور بنگالی جادوگر جیسے افراد کی خدمات کے لیے وقف تھے ۔
ان اشتہارا ت کے جملے کچھ اس طرح تھے ۔
’’ بابا سے ملیے چوبیس گھنٹے میں مقصد حاصل نہیں ہوا ، تو پیسے واپس ۔ ‘‘ اس کے ساتھ یہ وضاحت نہیں تھی کہ پیسے بابا واپس کریں گے یا چچا لوٹائیں گے ۔
’’ ایک گھنٹے کے اندرمعشوق کو اپنے قدموں پر دیکھیں … دوسری صور ت میں ہم یہ شہر چھوڑ دیں گے ۔ ‘‘ یہاں بھی بات وضاحت طلب تھی کہ یہ شہر اشتہاری بابا چھوڑیں گے یا چچا بول بچن ؟
صابن کا ایک اشتہار کچھ اس طرح چھپا تھا ۔
’’ نروگی صابن استعمال کریں اور تمام بیماریوں سے چھٹکارہ پا لیں … کیونکہ یہ صابن میل میں چھپے ہوئے کٹانوؤں کو دھو ڈالتا ہے ۔ ‘‘
جی ، بات یہ ہو ئی کہ صابن میل صاف کرنے کی شے نہیں ہے میل میں چھپے ہوئے کٹانوؤں کو غسل دینے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے ، تاکہ کٹانو نروگی ہو کر آپ کو روگی بنانے کا کام جاری رکھیں ۔
بہر حال چچا کا اخبار اسی قسم کی حماقتوں کا پلندا نظر آ رہا تھا ۔
یک سپر مارکٹ کی اشیا کے اشتہار کے نیچے ، جلی خط میں لکھا تھا ،’’ مفت ہوم ڈیلوری‘‘ یہ جملہ بھی وضاحت طلب تھا ۔۔۔۔۔
ایک صفحہ تو پورا میریج بیورو بنا ہوا تھا ۔ یہاں بھی اسی قسم کے اشتہارات تھے ۔
ملاحظہ فرمائیں ، ضرورت رشتہ کے اشتہارات:
’’ایک گریجویٹ لڑکی سے رشتہ مطلوب ہے ، جس کا رنگ گورا ہو، قد پانچ فٹ سے نکلتا ہوا ہو، امورخانہ داری میں واقف اور صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو، بال گھنے اور لمبے ہوں ، سنہرے ہوں تو کیا کہنے ، آنکھیں نیلی یا بھوری ہوں ۔ ‘‘( پتہ نہیں لڑکی درکار ہے یا جنت کی حور )
آخر لڑکی کے ساتھ ایسی شرط کیوں ؟لڑکے کے ساتھ ایسا کیوں نہیں لکھتے ۔ حصولِ روزگار کا ماہر ہواور صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو، قد اونچا ہو، رنگ گورا ہو وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے لیے بس اتنا کافی ہے ۔ لڑکا بر سرِ روزگار ہو ۔ مگر چچا کے اخبار میں یہ جملہ یوں چھپ گیا تھا۔
’’ لڑکا بر سرِ ریزگار ہو؟ ‘‘
ایک سماجی تنظیم نے اعلان کروایا تھا کہ ان کے یہاں ’’ مُردے نہلانے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔‘‘ وہ کچھ اس طرح شائع ہوا تھا۔ ’’ ہماری تنظیم مُردو کو ٹہلانے کا کام مفت انجام دیتی ہے ، رابطہ قایم کیجیے ۔ ‘‘
ویسے بقول چچا بول بچن’’ آج کا قاری بہت ذہین ہے وہ اصلاح کرتے ہوئے اور املاکی غلطیاں درست کرتے ہوئے اخبار پڑھتا ہے۔‘‘
فرنٹ پیج کی خبر کا بقیہ آخری صفحہ پر لگانے کا اعلان تھا ، مگر آخری صفحہ پر تین مختلف خبروں کے بقیہ اس طرح ایک ہو گئے تھے کہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون سی خبر کہاں ختم ہو رہی ہے ۔
اداریہ ، تو تھا ہی نہیں ادارتی کالم میں اوپر چچا بول بچن کی تصویر تھی اور نیچے لکھا تھا ۔
’’ الفاظ نہیں ۔‘‘
پورا اخبار دیکھنے کے بعد ہم نے چچا بول بچن کو فون پر مبارکباد دی اور اداریہ کے تعلق سے دریافت کیا ، کہ یہ کیا لکھا ہے ؟
چچا نے وضاحت کر دی ’’ ملک کے حالات پل پل بدل رہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں کہ لکھنے کے لیے الفاظ نہیں ، ایسے میں انگریزی میں کیا کہتے ہیں ’’ نو ورڈس ‘‘ سو ہم نے اس کا ترجمہ کر کے ادارتی کالم میں لگا دیا ’’ الفاظ نہیں ۔‘‘ چچا کا جواب ، ہمیں لاجواب کر گیا ۔
٭٭